معجزہ اور تحفہ
کوئی معروف ادیب یا مقبول شاعر کوئی نئی کتاب لکھے تو امریکا اور یورپ میں پہلے ہفتے میں ہی لاکھوں کاپیاں بک جاتی ہیں، عالمی سطح کا کوئی کھلاڑی اپنی زندگی پر کتاب لکھے تو کروڑوں لوگ ہاتھوں ہاتھ خریدتے ہیں۔ کوئی مشہور فلمی اداکار یا گلوکار آپ بیتی لکھنے کااعلان کرے تو کروڑوں لوگ کتاب کا بیتابی سے انتظار کرتے ہیں۔
کوئی نامور فٹ بالر صرف اُس کھیل میں ہی اپنے کارناموں کا ذکر کرے گا جو ایشیا اور افریقہ کے زیادہ ممالک میں مقبول نہیں، کرکٹ کا کوئی عالمی کھلاڑی اپنی کتاب میں صرف کرکٹ کی باتیں لکھے گا جو برطانیہ کے اُن مفتوح ممالک میں کھیلی جاتی ہے جن کی تعداد اب ایک درجن سے زیادہ نہیں ہے۔
ان کتابوں کے مصنف جتنے بھی غیر معمولی اوصاف کے مالک ہوں، انھوں نے زیادہ سے زیادہ ایک یا دو فیلڈز میں کارنامے سر انجام دیے ہوں گے جب کہ یہاں تو سیکڑوں فیلڈز ہیں۔ انسانی جسم کے درجنوں اعضاء ہیں اور ہر عضو کے بارے میں کوئی ڈاکٹر غیرمعمولی معلومات حاصل کرلیتا ہے تو دنیا میں اس کا چرچا ہوتا ہے۔ اگر کوئی فضائے بسیط کی پہنائیوں یا اندھیرے سمندروں کی گہرائیوں کے بارے میں نئی بات (تخلیق نہیں) صرف دریافت کرتا ہے تو اسے دنیا کے سب سے بڑے اعزاز کا حقدار قرار دیا جاتا ہے اور عالمی میڈیا میں اس کی کئی روز تک تشہیر ہوتی رہتی ہے۔
مگر دنیا میں ایک ایسی کتاب بھی آئی ہے جس کے مصنف نے ایسا حیرت انگیز دعویٰ کیا ہے جو اور کوئی نہیں کرسکا بلکہ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے آج تک کوئی اور ہستی ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت نہیں کرسکی کہ اِس جہانِ حیرت کو اُس نے تخلیق کیا ہے۔
دنیا بھر کے سائنس دان کائنات کی حیرت انگیز حقیقتوں میں سے صرف معمولی سی، شاید ایک فیصد بھی دریافت نہیں کرسکے، دنیا بھر کے ڈاکٹر، انسانی جسم کے اندر جو حیران کن انجینئرنگ کام کررہی ہے اسے پوری طرح دریافت نہیں کرپائے مگر اس کتاب کے مصنف کا یہ دعویٰ ہے کہ تمام انسانوں کو، سورج، چاند ستاروں کو، سارے نظامِ شمسی کو، تمام Galaxies بلکہ تمام کائناتوں کو اُس نے تخلیق کیا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ میں نے تخلیق کیا ہے اور ہر چیز کا قادر اور مالک میں ہوں اور یہ جو نظامِ شمسی مکمل ڈسپلن کے ساتھ چل رہا ہے یہ اس لیے ہے کہ اسے میں خود کنٹرول کررہا ہوں اور یہ سب کچھ میرے حکم کے تحت ہورہا ہے۔ اس تخلیق کردہ نظام میں کسی کو معمولی سا سقم یا خامی نظر نہیں آئے گی۔
صدیوں سے سورج اسی طرح مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور مغرب میں غروب ہوجاتا ہے، زمین اسی طرح اپنے مدار میں گھوم رہی ہے، پھر اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ انسانی جسم کے اندر جو پیچیدہ انجینئرنگ کار فرما ہے یا مختلف اعضاء یعنی دل، جگر، گردوں اور دماغ کو جو کام سونپے گئے ہیں یا جو ذمے داری آنکھوں، ناک، کان اور گلے کو دی گئی ہے وہ میرے حکم کے مطابق ادا کررہے ہیں، بلکہ وہ تو یہاں تک کہتا ہے کہ پوری کائنات میں درخت کا ایک پتا بھی میرے حکم اور رضا کے بغیر نہیں گرتا۔
اس حیرت انگیز کتاب کے غیرمعمولی مصنف کا یہ بھی کہنا ہے کہ نسلِ انسانی کی رہنمائی کے لیے اس نے انسانوں میں سے ہی اعلٰی ترین کردار کے افراد کا انتخاب کیا اور پھر ان کے ذریعے انسانوں کو صحیح اور غلط، خیر اور شر، نیکی اور بدی کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ مختلف وقتوں میں مختلف پیغمبروں کا انتخاب کیا جاتا رہا جن میں آدم ؑ، نوحؑ، ابراہیم ؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ نمایاں ہیں اور اس سلسلے کے آخری پیغمبر محمدﷺ ہیں۔
تاریخ اور مستند حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت محمدﷺ امّی تھے یعنی آپؐ نے کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ اگرچہ آپؐ انتہائی راست گو اور دیانت دار تھے مگرچالیس سال تک آپؐ کے مخاطب آس پاس کے ہی چند افراد رہے، مگر جب پورے مکہ کے اسی سچے ترین شخص نے یہ انکشاف کیا کہ اﷲ کے فرشتے نے اس سے مل کر یہ بتایا ہے کہ " اﷲ تعالیٰ نے مجھے رسالت کے عظیم مرتبے پر فائز کر دیا ہے، اور اب مجھ پر اﷲ کی طرف سے انسانوں تک پہنچانے کے لیے ہدایات نازل کی جاتی ہیں " تو اس کے بعد اُنؐ کا طرزِ زندگی اور اندازِ بیان یکسر تبدیل ہو گیا۔
اپنی سر گرمیوں اور اپنے معاملات اور تعلقات کو مکہ کے چند لوگوں تک محدود رکھنے والا شخص اب اہلِ مکہ، نہیں، اہلِ عرب بھی نہیں بلکہ یَاایُّھاَلنّاس کہہ کر دنیا کے تمام انسانوں سے مخاطب ہونے لگا۔ اس کے پہلے چالیس سال کے طرزِ کلام اور اُس کلام میں (جو اس کے بقول اُس کی طرف اللہ کی طرف سے بھیجا جاتا تھا) بڑا واضح فرق نظر آنے لگا۔ آسمانوں سے اترنے والے کلام کا انداز commanding تھا، اُس کا حسنِ بیان بے مثال تھا، اس میں ایک شکوہ اور جلال تھا اور یہ انسانی جذبات سے بالکل مبریٰ تھا۔ یہ شاعری نہیں مگر اس میں شاعری کے تمام تر محاسن موجود تھے۔
آسمانوں سے نازل ہونے والی آیات کو مرتب کر کے جو کتاب ترتیب دی گئی، اس کا نام خود خالق نے قرآن رکھا، جو بذاتِ خود ایک عظیم معجزہ ہے۔ اُس دور کے پڑھے لکھے عربوں کو اپنی فصاحت و بلاغت پر بڑا ناز تھا، مگر قرآن کی زبان سن کر سب حیران و ششدر رہ گئے۔ مصنف نے چیلنج دے دیا کہ اس طرح کی ایک آیت ہی تخلیق کر کے لے آؤ۔
کوئی بھی یہ چیلنج قبول کرنے کی جرأت نہ کر سکا۔ پہلے پہل جنھوں نے اس کتاب کے متن کو ماننے سے انکار کیا تھا، جب کلام کو غور سے پڑھا تو اس کے جلال و جمال اور حقانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ پھر اس کتاب کے خالق نے یہ کہہ کر بہت بڑا دعویٰ کردیا کہ "ہم نے اسے نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت بھی کریں گے۔"
سچی بات تو یہ ہے کہ یہ دعویٰ بھی سو فیصد صحیح ثابت ہوا ہے۔ پندرہ صدیاں گزر گئیں، اس کتاب میں تحریف کی بڑی کوششیں ہوئیں مگر سب ناکام ہوئیں اور یہ پندرہ سو سال بعد بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے، جو ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔
کتاب کے خالق کے دعوے انسانی کانوں نے پہلی بار سنے تھے، مگر جو بھی واقعاتی شہادتی circumstantial evidence)) میسر آئی وہ مصنف کے دعوؤں کی تصدیق کرتی ہے۔ آج تک کوئی ایک بھی ایسی ٹھوس دلیل نہیں ملی جو کتاب میں کیے گئے دعوؤں کو غلط ثابت کر دے۔ مگر حیرت اس بات پر ہے کہ ایسی بے مثل دعوؤں پر مشتمل ایسی عجیب و غریب کتاب کے لیے لوگوں میں جتنا اشتیاق ہونا چاہیے تھا۔ اور اسے پڑھنے کے لیے جتنی لپک ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہے۔
جو یہ مانتے ہیں کہ یہ خالقِ کائنات کی زبان میں اُتاری گئی ہے وہ بھی اس کا متن جاننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ غالباً یہ ہے کہ کائنات کی اس اہم ترین کتاب کی تعلیم و تشریح کی ذمے داری اُن افراد کے سپرد کردی گئی جو یا تو نیم خواندہ ہیں یا اپنی روایات کے غلام۔ اس کتاب کے علمبرداروں کا کردار دیکھ کر بھی عوام اس کتاب سے دور ہوئے ہیں۔
کتاب کے خالق نے اسے حکمت اور فلاح قرار دیا ہے، بلاشبہ جو سچائی اس کتاب میں ہے وہی سب سے بڑی سچائی اور حقیقت ہے۔ جو حکمت اس میں ہے، اس سے بڑھ کر کوئی اور حکمت نہیں ہے۔ عربی زبان میں نازل ہونے والی اس کتاب کا دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ بھی ہوا اور اس کی تشریح اور تفسیربھی لکھی گئی ہے، نو مسلموں نے عرب ملکوں میں کئی کئی سال رہ کر عربی زبان سیکھی اور قرآن کا مختلف زبانوں میں ترجمہ اور تفسیر لکھی۔
اﷲ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں اُن بندوں پر جنھوں نے اس کتاب کو سمجھنے میں اپنی آدھی زندگی کھپا دی اور پھر بقیہ زندگی دوسروں کو سمجھانے میں صرف کر دی۔ ویسے تو اب بر قی میڈیا غیر اسلامی اقدار کے فروغ کا ذریعہ بن چکاہے مگر کراچی کے انیق احمد صاحب نے وہاں بھی نیکی اور ہدایت کا چراغ جلا رکھا ہے۔
اﷲ تعالیٰ انھیں جزائے خیر اور استقامت عطا فرمائے کہ کئی سالوں سے وہ صبح سات بجے قرآن فہمی پربہت اعلیٰ درجے کا پروگرام کررہے ہیں، جس میں ڈاکٹر سرفراز اعوان، ڈاکٹر حماد لکھوی، مفتی منیب الرحمٰن، ڈاکٹر حبیب الرحمنٰ عاصم، ڈاکٹر محسن نقوی، مفتی ارشاد اور شیخ شجاع الدین جیسے جید اسکالرز بڑے دلنشین انداز میں قرآنی آیات کا ترجمہ اور مطالب اسطرح سمجھاتے ہیں کہ دل کے ساتھ ساتھ روح تک باغ باغ ہوجاتی ہے، خاص طور پر ڈاکٹر سرفراز اعوان صاحب کی ایک تو روحِ قرآن پر بڑی گہری نظر ہے دوسرا حسنِ بیان اِس قدر روح پرور ہوتا ہے کہ دل و دماغ کے تاریک گوشے منورّ کردیتا ہے۔ بلاشبہ یہ پروگرام علیٰ الصبح بیدار ہونے والوں کے لیے سب سے خوبصورت تحفہ ہے۔
ان کے علاوہ سابق جسٹس نذیر غازی صاحب بھی صاحبِ علم ہیں، ان کا پروگرام بھی بہت اچھاہوتا ہے جس میں شرکاء زیادہ تر روحانی شخصیات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل صاحب بھی کئی چینلوں پر اپنی خطابت کے جوہر دکھارہے ہوتے ہیں۔ حق کا پیغام پہنچانے کے لیے ان سب حضرات کی کوششیں قابلِ ستائش ہیں۔