مسیحاؤں کاعزم، علماء کا کردار اور کوروناٹائیگرز
کُر ہّ، ارض کے تمام انسانوں کے مشترکہ دشمن کے خلاف ہمارے ڈاکٹرز، نرسیں اور پیرا میڈیکل اسٹاف دست بدست جنگ لڑ رہے ہیں، اپنے ان مجاہدوں، محافظوں اور مسیحاؤں کو دیکھتے ہی دل سے دعانکلتی ہے "تینوں رب دیاں رکھّاں " اللہ تعالیٰ آپکو حفظ و امان میں رکھّے۔ ان کا عزم قابلِ داد اورجذبہ قابلِ تحسین ہے۔ بلاشبہ اس جنگ میں وہی ہمارے پاسبان، وہی جانباز اور وہی ہیرو ہیں۔ بہت مناسب ہو گا کہ حکومت انکا دیرینہ مطالبہ مان کر ان کی تنخواہیں بڑھا دے۔
خطرناک مجرموں اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں پولیس کی قربانیاں بے پناہ ہیں، مگر حرام خور پولیس افسر خون ِ شہداء کے پیچھے پناہ نہیں لے سکتے اور عوام شہداء کے صدقے بھی پولیس اہلکاروں کے جرائم معاف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، آج مسیحاؤںکی تعریف و تحسین ہو رہی ہے، پولیس ( جو خود بھی پولیس لائن کے بجائے فرنٹ لائن پرہے) انھیں گارڈ آف آنر پیش کر رہی ہے، عوام پھول نچھاور کر رہے ہیں مگر کل اگر کسی بھی مریض کے ساتھ ان کا روّیہ نامناسب ہوا توعوام اور میڈیا کو پورا حق ہوگا کہ وہ ذمّے دار ڈاکٹروں کا احتساب کریں۔
چند روز پہلے میو اسپتال لاہور میں ایک معمّر مریض طبّی عملے کی مجرمانہ غفلت کے باعث موت کے منہ میں چلا گیا۔ حکومت کی ایک حامی خاتون اینکر نے پرائم منسٹر کو یہ واقعہ سنایا تو انکا ردّعمل دیکھ کر پوری قوم حیران رہ گئی۔ تو قع تو یہ تھی کہ وہ اِس پر دکھ کا اظہار کر کے چیف منسٹر پنجاب کو انکوائری کرا کے چوبیس گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دیں گے، مگر انھوں نے ایسا کچھ نہ کیا بلکہ اس موقع پر بھی اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید شروع کر دی، جو نا مناسب بھی تھی اور بے محل بھی۔ حکومت کی بے شمار کوتاہیاں ہیں مگر یہ وقت نفاق نہیں اتفاق کا ہے، اتحّاد اور یکجہتی پیدا کرنے میں سب سے اہم کردار پرائم منسٹر کا ہے مگر وہ اَنا، تکبّر اور سیاست بازی کے خول سے باہر آنے کے لیے تیار ہی نہیں۔
کئی روزتک میڈیا کے کچھ دین بیزار اینکروں اور تجزیہ کاروں کی علماء کے بارے میں اہانت آمیز گفتگو سنکر ان کی جہالت پر دکھ ہوا۔ مسجدوں کو بند کرانا ان کے نزدیک ایسا ہی ہے جیسے کوئی جنرل اسٹور بند کرانا۔ نہ انھیں مسجد کے تقدسّ کا ادراک ہے اور نہ نماز جیسے اہم ترین رکنِ اسلام کی اہمیّت کا احساس۔ بد ترین احساسِ کمتری کے مارے یہ لوگ ابھی تک تہتر سال قبل یہاں سے چلے جانے والوں کی غلامی سے نہیں نکلے، برطانیہ کی زبان میں چند لفظ اور چند فقرے بولنے والے ان کے نزدیک برتر اور دین کی بات کرنے والے کمتر ہیں۔ وہ اس سے لا علم ہیں کہ علم ِ دین ہی تو وہ بنیادی علم ہے جس کے ذریعے ایک ذی شعور انسان زندگی کے سب سے بنیادی سوال کا جواب جانتا ہے، اِسی کے ذریعے اُسے انسانوں، سورج، چاند ستاروں اور پوری کائنات کے خالق کا پتہ چلتا ہے اور یہی علم انسان کواس کی تخلیق کے مقصد سے روشناس کراتا ہے۔ اِسی علم نے انسانوں کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سکھا کر اس کی کردار سازی کی۔
اس بنیادی اور اہم ترین علم سیکھنے میں جنھوں نے اپنی زندگیاں کھپا دیں وہ ان کے نزدیک کم پڑھے لکھے ہیں کیونکہ وہ ایک غیر ملکی زبان کے فقرے استعمال نہیں کرتے۔ یہ بات درست ہے، صحافت اور سیاست کی طرح مذہبی شعبے میں بھی جہالت کی بہتات ہے مگر مولانا تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن جیسے اسکالرز کا اپنی فیلڈ میں وہی مقام ہے جو وکالت کے میدان میں اے کے بروہی، محمود علی قصوری اور ایس ایم ظفر کا ہے۔
علماء کا یہ سوال بجا ہے کہ اِسوقت بھی مارکیٹس کھلی ہیں، جہاں ایک وقت میں پچاس سے بھی زیاد ہ لوگ ہوتے ہیں، اسٹاک ایکس چینج بند نہیں ہیں۔ وزیر اعظم ہر روز اپنے چہیتے صحافیوں اور ساتھیوں کے ساتھ میٹنگ کرتے ہیں جوSocial Distancing کی خلاف ورزی ہے، وزیر ریلوے اور مئیر کراچی میڈیا سے بات کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ درجنوں افراد چمٹے ہوئے ہیں۔ اِن پر کوئی اعتراض نہیں ہے، زور صرف مسجد کو بند کرانے پر ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟
کچھ با خبر صحافیوں نے جواب دیا کہ مسجدوں کو بند کرانے میں زیادہ پُرجوش وہ لوگ ہیں جنھوں نے پچھلے دس سال میں کبھی نماز نہیں پڑھی، یہ اللہ اور رسولﷺ کی ہدایات سے بغض رکھتے ہیں۔ مولوی اور مسجد تو صرف بہانہ ہے، اسلام اوراحکام ِ الٰہی اصل نشانہ ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جن میں سے زیادہ تَر کی این جی اوز ہیں۔ سفارتخانوں سے ان کے رابطے ہیں اور ملک سے باہر انکا مفاد وابستہ ہے۔ اس لیے انھیں کورونا کے خاتمے میں اتنی دلچسپی نہیں جتنی مسجد یں بند کرانے میں ہے۔ ان کے دلائل کمزور اور بودے ہیں۔ کہا گیا کہ چونکہ مصر اور سعودی عرب کے علماء نے فتویٰ دیا ہے اس لیے تمام مسلمان اس پر عمل کریں۔ ارے بھائی ان دونوں ملکوں میں آمریّت ہے۔ اس لیے وہاں کے علماء کو آزادانہ رائے دینے کا اختیارہی کہاں ہے؟
اس سلسلے میں جاوید غامدی صاحب کے نقطہء نظر کا بھی حوالہ دیا جا تا ہے، وہ بلاشبہ بڑے اسکالر ہیں، پچھلے اتوار کو ان کی زبانی یہ بھی سننے کا موقع ملا کہ "انسانوں کے لیے سب سے بڑا گناہ شرک ہے اور سب سے بڑا جرم منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنا اور آئین توڑنا ہے اور اسلام میں اس کی سزا موت ہے" غامدی صاحب کے حوالے دینے والے ان کے اس نقطہ نظر کو کیوں نہیں مانتے، سارے لبرل اینکرز آئین توڑنے والے جنرل مشرف کی گو دمیں کیوں جا بیٹھے تھے؟ ہمارے ہاں ایسے علمائے کی کمی نہیں جنکے بارے میں حکیم الاُمت فرما گئے کہ
؎ ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
اگر ہمارے ہاں علمائے سو موجود ہیں تو یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ بڑی تعداد میں ایسے جیّد اسکالر بھی موجود ہیں جو حکمرانوں کی خواہش کے آگے سر بسجود ہونے کے لیئے تیار نہیں۔ میں خود بے علم بھی ہوں اور بے عمل بھی، مگر کعبتہ اللہ اور حضورﷺ کی مسجد کی ویرانی کا منظر دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ جب ہمیں بڑے سے بڑے اسپتال اور قابل ترین ڈاکٹر جواب دے دیتے ہیں تو ہم مکہّ اور مدینہ جاکر جھولی پھیلاتے ہیں کہ وہی ہمارے آخری شفاخانے ہیں۔ نماز کے قریب نہ جانے والوں کواس کی لذّت کی کیا خبر۔ ارے یہ تو وہ موقع ہوتا ہے جب کمزور ترین انسان، طاقتور ترین ہستی اور شہنشاہوں کے شہنشاہ سے ہم کلام ہوتا ہے اور اپنی فریاد اور التجاء پیش کرتا ہے۔
آج ایک چھوٹے سے جرثومے کے آگے انسانی وسائل بے بس ہیں، امریکا اور یورپ کے سیکولر حکمران اﷲ کو پکاررہے ہیں، یورپ کے ایوانوں میں اذانیں گونج رہی ہیں اور ربِّ ذوالجلال سے رحم کی بھیک مانگی جارہی ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کچھ لوگ اذانیں بند کرانے پر تُلے ہوئے ہیں!
راقم نے پچھلے کالم میں بھی ذکرکیا تھا، خود وزیراعظم بھی نادار افرادکا کثرت سے ذکر کرتے ہیں جنکے لیے موجود ہ حالات میں روزی کمانا نا ممکن ہو گیا ہے، ان کی دستگیری ہر صاحبِ حیثیّت کا فرض ہے۔ اس سلسلے میں راقم کی تجویز یہ ہے کہ مستحقین کی مدد کا کام لوگوں پر چھوڑ دیا جائے، میڈیا کے ذریعے لوگوں کو Motivate کیا جائے مگر اس سلسلے میں فلمی ایکٹر نہیں بلکہ جیّد اسکالر اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احکامات اور صدقہ و خیرات کی فضیلت سے آگاہ کریں، ہر محلّے، وارڈ اور گاؤں کے باسی اپنے قریب رہنے والے مستحق افراد کے گھروں میں راشن بڑی خوشی اور جذبے کے ساتھ پہنچا دینگے۔ اگر پرائم منسٹر اپنی اَنا کے ناگ کا سر کچل کر پنجاب میں بلدیاتی ادارے بحال کر دیں تو اس کے کئی فوائد ہونگے، مستحقین کی امداد کا کام بڑے احسن طریقے سے ہو جائیگا۔ اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کی فضاء پیدا ہو گی اور حکومت کا اربوں روپیہ بچ جائیگا جو وہ وینٹی لیٹرزاور اسکریننگ مشینیں خریدنے اور عارضی اسپتال بنا نے پر خرچ کرسکے گی۔
غرباء کو چند کلو آٹا دیکر ویڈیو بنوانے والوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ ان کے بر عکس اﷲ کی خوشنودی کے لیے بہت سے لوگ ڈیلی ویجرز اور سفید پوش مستحقین کے لیے کچے راشن کے پیکٹ تیار کرا رہے ہیں۔ آٹے، چاول، چینی، گھی، دال اور چائے پر مشتمل ایک پیکٹ چار سے ساڑھے چار ہزار میں تیار ہو جاتا ہے۔ جس سے ایک فیملی مہینہ نکال سکتی ہے۔ اس ضمن میں مساجد کے امام، سول و ملٹری کے ریٹائرڈ ملازمین اور یونین کونسلوں کے ممبران کے علاوہ مقامی پولیس اور ریونیو کے عملے سے کام لیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے سیاسی پارٹی کے ورکروں کو استعمال کرنا اور انھیں "کورونا ٹائیگر ز" کا نام دینا خطرناک عمل ہوگا۔ یہ سیاسی ٹائیگرز جانبداری سے کام لیں گے اور صرف اپنے حامیوں اور ووٹروں کا اندراج کرائیں گے، جس سے معاشرہ مزید تقسیم ہو گا۔ حکومت کا یہ عمل اس موذی وباء کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو متنازعہ اور حکومتی اقدامات کو مشکوک بنا دیگا۔ بہتر ہے کہ وباء کے دنوں میں وزیر اعظم صاحب ایسے کاموں اور تقریروں سے پر ہیز کریں۔