مَنصبِ قضاء کا معیار (تیسرا حصہ)
آئمہ کرام کے مطابق جوشخص قضاء کے منصب پر فائز ہوتا ہے اُس پر لازم ہے کہ وہ اپنے تما م ذاتی رجحانات، پسند و ناپسند سے بالا تر ہو کر اﷲ کے حکم کے سامنے سر خم کر دے۔
عزیزواقارب اور حکمرانوں کی مخالفت مول لینا پڑتی ہے تو بھی اس کی پرواہ نہ کرے اوردوستوں کی دوستی قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرے اورخواہشِ نفس، بغض اور عناد کے جذبات کو کچل کر یا نظرانداز کرکے انصاف کے تقاضے پورے کرے۔ ظاہر ہے یہ بڑا دشوار گذار راستہ ہے مگر جو اس پر چل پڑا اس کی حیثیّت اس شخص کی طرح ہے جو اﷲ کی خاطر حق کے ساتھ ذبح کیا گیا یعنی وہ اُن شہد اء کے درجے کو پہنچتا ہے جن کے لیے جنّت واجب کی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے
وَإِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُم بَیْنَہُم بِالْقِسْطِ إنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِین.
(اگر لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ بے شک اﷲ تعالیٰ انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے والوں سے محبّت رکھتا ہے۔ )
نبی کریم ﷺ نے ایسے سات لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جن کو قیامت کے دن عرش الٰہی کے سائے میں جگہ ملے گی اور ان میں سے پہلا شخص انصاف کرنیوالا حاکم (یاقاضی) ہے۔ ایک اور جگہ آپﷺ نے فرمایا "انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنیوالے قیامت کے دن نورانی منبروں پر ہوں گے"۔
حضر ت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضوراقدسﷺ نے فرمایا "جانتے ہو کون لوگ ہیں جو قیامت کے دن اﷲ کے سائے میں سب سے پہلے جگہ پائیں گے" صحابہ نے عرض کیا اﷲ اور اس کا رسولﷺ زیادہ جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا :"وہ لوگ جن کے سامنے حق آجائے تو اسے قبول کرلیں۔ جب ان سے کوئی حق کے بارے میں سوال کرے تو وہ حق کا اظہار بلاخوف کریں اور جب مسلمانوں کے معاملات میں فیصلہ کریں تو اسطرح کریں جیسے اپنے ذاتی معاملات میں فیصلہ کررہے ہوں "
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انصاف کی بنیا د پر(یعنی کسی بغض، عناد، خوف، یا لالچ کے بغیر )فیصلہ کرنا ایک عظیم عبادت ہے۔ یہ ایک ایسا قابلِ رشک عمل ہے جو انسان کو خدا کا محبوب بنا دیتا ہے یعنی انصاف کرنے والے کو عظیم ترین مقام حاصل ہو جا تاہے۔ دوسری طرف کسی عناد، بغض، خوف، حرص، ذاتی پسندو ناپسند کی بناپر فیصلہ کرنیوالے یعنی ناانصافی کرنے والے کے لیے سخت وعید کی گئی ہے۔ حضورنبی کریمﷺ نے فرمایا ہے:"جوشخص منصبِ قضاء پر مقرر کیا گیا وہ بغیر چھر ی کے ذبح کیا گیا ہے" اس کڑے امتحان سے بچنے کے لیے بڑی عظیم ہستیوں نے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کیاہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ ؒکو اس انکار کے نتیجے میں سخت ترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا مگر وہ صبر و عزیمت کے راستے پر قائم رہے اور قاضی بننا قبول نہ کیا۔
عدلیہ سے ذاتی اور خاندانی تعلّق ہونے کے ناتے سرونگ اور ریٹائر ڈ جج صاحبان سے ملاقات ہوتی رہتی ہے، راقم نے خود قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد سب سے پہلے میدانِ وکالت میں ہی قدم رکھا تھا، میرے لاء کالج کے کلاس فیلوز میں سے کئی حضرات اس وقت اعلیٰ عدلیہ کے جج ہیں (یا رہے ہیں ) اور بہت سے سینئر وکیل ہیں۔ اس لیے سنیئر وکلاء سے بھی ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ سنیئر وکلاء اور ریٹائر ڈ جج صاحبان کے مطابق ضلعی عدلیہ کے بہت سے اور ہائیکورٹس کے بھی چند ججز کے بارے میں قانونی حلقو ں میں تحفظّات ہیں اور یہ سمجھاجاتا ہے کہ وہ اپنے کردار کے باعث منصبِ قضا کے اہل نہیں ہیں۔ سنیئر وکلاء کا یہ کہنا ہے کہ عدلیہ میں ایک نہیں بہت سے ارشد ملک ہیں جو مالی اور اخلاقی کرپشن میں ملّوث ہیں۔ میں پاکستان کے ایک شہری کی حیثیّت سے کسی ایسے شخص کو منصف ماننے اور اُسپر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں جسکی عام شہرت یہ ہو کہ وہ مالی یا اخلاقی طورپر پاکیزہ نہیں ہے۔
میرے خیال میں کوئی ایسا شخص جج کے منصبِ جلیلہ پر فائز ہونے کا حقدار نہیں ہے جو خود ملک کے کسی بھی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ جوشخص شراب نوشی یابد کاری کا رسیاہو(یعنی خود اس فعل کا ارتکاب کرتاہو جو جرم ہے، جب کہ اَیسا جرم کرنے پر عام آدمی سزایاب ہو تاہو)اُسے اسلامی جمہوریہء پاکستان میں منصبِ قضا کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا، میں ایک شہری کی حیثیّت سے ہرگز یہ نہیں چاہوں گا کہ ایک نشہ کرنے والا یا زنا کار میرے کسی مقدمیّ میں منصف ہو۔ مجھے(اور میری طرح کروڑوں لوگوں کو)ایسے شخص سے ھرگز یہ توقع نہیں ہو سکتی کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کریگا اور کسی بھی fearاورfavour، خوف اورلالچ کے بغیر فیصلہ کرے گا۔ ہمارے ہاں جج صاحبان کی تقرری کے وقت چونکہ کردار کو اہمیت نہیں دی جاتی اس لیے عوام کا نظام انصاف پر اعتماد نہیں ہے اورلوگ طنز یہ طور پر اس طرح کی باتیں کرتے ہیں کہ "وکیل کرنے سے بہتر ہے جج کر لیا جائے۔"
برطانیہ میں پریکٹس کرنے والے کئی جاننے والے وکلاء سے وہاں کے جج صاحبان کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں کی عدالتوں پر عوام کو اعتماد ہے اور جج صاحبان واقعی اس اعتماد پر پورا اترتے ہیں۔ مقدمے کے فریقین میں اگر ایک طرف ایک عام آدمی ہے اور دوسری طرف کوئی وزیر، وزیراعظم یا فوج کا جرنیل تو بھی عدالتیں غیرجانبدار رہ کر انصاف کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔
جس طرح پہلے لکھا جاچکا ہے کہ ماضی میں ہائیکورٹس کے جج صاحبان کی تقرری کا اختیار حکومت کے پاس ہوتا تھا مگر ربع صدی پہلے یہ اختیار عدلیہ نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا اور آجکل عملی طور پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تقرری کا اختیار سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کے پاس ہے۔ بدقسمتی سے ماضی کے تینوں چیف جسٹس صاحبان (افتخار محمد چوہدری، ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ) نے اس اختیار کو منصفانہ طور پر نہیں بلکہ arbitrarilyاستعمال کیا۔
افتخار چوہدری وکلاء کو ایک سیاسی پارٹی اوراپنے آپ کو اس کا سربراہ سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے میرٹ کو پسِ پشت ڈالکر ان لوگوں کو جج بنا دیا جنھوں نے انھیں بحال کرانے میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا تھا۔ ہمارے کلاس فیلو ثاقب نثار نے جہاں اپنی بہت سی سرگرمیوں سے عدلیہ کو بے توقیر کیا، وہاں انھیں نے ججوں کی تقرری میں ذات برادری کو فوقیت دی۔ آصف کھوسہ صاحب نے بھی جسطرح اپنے بہت سے فیصلے ذاتی پسندو نا پسند، بغض اور عناد کی بناء پر کیے اسی طرح وہ بھی ججوں کی تقرری میرٹ اور انصاف کی بنیاد پر نہ کر سکے۔
حتّٰی کہ جسٹس سجاد علی شاہ کیس کے طے شدہ اصول (یعنی سپریم کورٹ میں متعلّقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس یا سینئر ترین جج کو تعینّات کیا جائے گا) سے بھی انحراف کیا گیا۔ جہاں فیصلہ کرتے وقت جج کے ذہن پر پسند، نا پسند، بغض یا عناد کا غلبہ ہو گا وہاں سے عدل و انصاف رخصت ہو جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ آصف کھوسہ صاحب کے کئی فیصلوں میں بغض اور عناد چیخ چیخ کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتارہا۔ سابق وزیر اعظم کی بیٹی نے جو یہ جانتی تھیں کہ نیب کورٹ کا جج ارشد ملک ان کے والد میاں نواز شریف کو خود ملنا چاہتا تھا، اور اس نے خود انکشاف کیا کہ اسے اور لوگوں کے علاوہ اس وقت کی اعلیٰ عدلیہ کے ایک جج صاحب کے پاس بھی لے جایا گیا جس نے اسے کہا تھا کہ نواز شریف کو سزا دے دو "اور میں نے اس ڈر سے سزا دے دی کہ کہیں وہ لوگ میری بد اخلاقی کی بنائی ہوئی ویڈیو وائرل نہ کردیں " پریس کا نفرنس کے ذریعے بتایا کہ اس طریقے سے ایک بد کردار جج کو بلیک میل کر کے سابق وزیراعظم کو سزا دلائی گئی ہے تو پوری دنیا میں تہلکہ مچ گیا۔ عوام، میڈیا اور دنیا کی نظروں میں نام نہاد ٹرائیل اور سزا مشکوک ہو گئی۔
سپریم کورٹ نے کسی غیر معروف شخص کی درخواست پر اس کا نوٹس لیا (حالانکہ اس کا Suo Moto کے تحت نوٹس لیا جانا چاہیے تھا) اور متعلقہ جج کے کرتوت سامنے آنے پر چیف جسٹس کو یہ کہنا پڑا کہ اس سے پوری عدلیہ کا سر شرم سے جھک گیا ہے مگر اس کے بعد کیا ہوا؟ اگر اُس وقت چیف جسٹس اعلیٰ کردار کا مالک ہو تا تو انصاف کے تقاضے اس طرح پورے کر تاکہ ایسے پست کردار جج کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتا، اُس کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جاتی اور اس کے خلاف محکمانہ کے ساتھ ساتھ Criminal proceedings شروع کرائی جاتیں۔ لیکن بد قسمتی سے کھوسہ صاحب کے کردار کا وہ معیار نہ تھا جو منصبِ قضاء کے لیے درکار ہے، اس لیے انھوں نے انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے بغض اور عناد سے مغلوب ہو کر فیصلہ کیا اور متعلقہ جج کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی۔ دوسری طرف ہائیکورٹ کے عدالتی اختیارات پر قدغن لگانے کا انھیں کوئی اختیار نہیں تھا مگر انھوں نے ہائیکورٹ کے اختیارات کو سلب کرنے کی کوشش اور انسانی ذہن جتنی بھی ممکنہ رکاوٹیں اور قد غنیں سوچ سکتا ہے کھوسہ صاحب نے وہ تما م قدغنیں ہائیکورٹ پر لگا دیں تاکہ وہ اس مشکوک ہوجانے والے فیصلے سے متاثّر ہونے والے سابق وزیراعظم کو رہانہ کردیں یا ضمانت نہ لے لیں۔ (جاری ہے)
تصیح :پچھلے کالم میں ٹائپنگ کی غلطیوں کی وجہ سے کچھ نام غلط لکھے گئے جنکی نشاندہی کرنے پر میں قارئین کا شکرگزار ہوں۔ امام سرخصی کی کتاب کا نام المبسوط ہے۔