مَنصبِ قضاء کا معیار (دوسرا حصہ)
رب کائنات اور تصّورِ انصاف کے خالق نے ایک اور جگہ فرمایا کہ " کسی شخص یا گروہ کی دشمنی تمہیں انصاف کی راہ سے نہ ہٹائے" یعنی جب قاضی یا جج کے مَنصب پر بیٹھو تو دل ودماغ کو ہر قسم کی مخالفت، دشمنی، بغض، عناد، یا تعصّب کے جذبات سے پاک کر کے بیٹھو، اور اگر دلوں کو کسی بغض، عناد یا نفرت سے پاک نہیں کر سکتے تو یہ ذمے داری مت اٹھاؤ۔
رب ذوالجلال کا فرمان ہے کہ اُس کے حکم کے مطابق فیصلے کیے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق فیصلہ کرنا نہ صرف انبیاء علیہم السلام اور خلفائے راشدین کا شعار رہا ہے بلکہ پاکستان کی تمام عدالتوں کے جج صاحبان کی بھی یہ مذہبی ہی نہیں آئینی ذمے داری بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ اسّلام کو حکم دیا، "اے داؤد ہم نے تجھے ملک میں نائب بنایا، پس لوگوں کے درمیان حق کی ساتھ فیصلہ کر اور اپنی خواہشِ نفس پر نہ چل کہ وہ تجھے اللہ کے راستے سے بھٹکا دے "(القران)۔ سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
وَاِذَا حَکَمْتُم ْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ
(اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو)
آخر ی نبی حضرت محمدﷺ کو بھی یہی حکم دیا گیا کہ لوگوں کے مابین تنازعات کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق کریں۔
خدائے بزرگ وبرتر نے ایک اور جگہ فرمایا ہے "جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر اترا ہے، اُس پر چلو اور اس کے سوا اور رفیقوں کے پیچھے نہ چلو" جو لوگ اللہ کے اتارے ہوئے احکامات کے مطابق حکم یا فیصلے نہ دیں انھیں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ کافر، دوسری جگہ ظالم اور تیسری جگہ نافرمان قرار دیا ہے۔ قرآن نے ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے اللہ اور رسولﷺ کے قوانین سے گریز کر نے پر سخت مذمّت کی ہے۔
آقائے دوجہاں حضور نبی کریمﷺ خود حاکم بھی تھے، سپہ سالار بھی تھے اور قاضی القضات بھی تھے کہ آپﷺ نے خود مقدمات کی سماعت بھی کی اور ان کا فیصلہ بھی فرمایا۔ سیّد نا حمزہؓ، سیّد نا جعفرؓ کے مابین تنازعے نے جنم لیا تو حضورﷺنے خود سماعت فرمائی اور حضرت جعفرؓ کے حق میں فیصلہ دیا کہ "خالہ ماں کے درجے میں ہے"۔
حضورﷺ نے عبدبن زمعہ اور حضرت سعدؓ کے درمیان ثبوتِ نسب کے مقدمّے کی خود سماعت فرمائی۔ اس کے علاوہ سیّد نا زبیرؓ اور ایک انصاری کے درمیان پانی کے مسئلے پربھی آنحضورﷺ نے خود فیصلہ کیا اس کے علاوہ آپﷺ نے متعد دّصحا بہ کو مختلف مقامات پر قاضی مقرر فرمایا۔
حضرت علی ؓ کو یمن کا قاضی مقرر کرتے ہوئے فرمایا "جب فریقین تمہارے سامنے حاضر ہوں توجب تک دوسرے فریق کی بات نہ سن لو کسی ایک کے حق میں فیصلہ نہ کرنا"آنحضورﷺ نے فتح مکہ کے بعد حضرت عتاّب بن اسیدؓ کو مکہ میں اور حضرت معاذ ؓکو یمن میں قاضی مقرر فرمایا۔ حضورنبی کریم ﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی مختلف صحابہ ؓ کو قاضی (جج)مقرر کیاحضرت ابوبکر صدیق ؓنے سیّد نا انس بن مالکؓ کو بحرین کا قاضی مقرر کیا۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے سیّد نا ابوموسیٰ اشعری کو بصرہ کا اور سیّد نا عبداللہ بن مسعودؓ کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا۔ حضرت علیؓ نے خود بھی مقدّمات کے فیصلے کیے اور سیّدنا عبداللہ بن عبّاسؓ کو بھی بصرہ کا قاضی مقر رّ کیا۔ حضورنبی کریمﷺ نے اور آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین نے اعلیٰ ترین کردار کے افرا دکو منصفِ قضاء پر مقررکیا۔
پاکستان کے مقتدر حضرات (جن کے پاس جج مقرر کرنے کا اختیار ہو) کا فرض ہے کہ وہ قوم کو اعتماد میں لیں کہ وہ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تقررّی میں کس معیار کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔
تخلیقِ پاکستان کا پس منظر اور ہمارا آئین اس بات کا تقاضا کر تا ہے کہ ہماری اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کے لیے مطلوبہ تعلیمی قابلیّت اور تجربے کے علاوہ اعلیٰ کردار اور پرہیزگاری شرطِ اوّل ہو۔ ہمارے ہاں کسی زمانے میں ہائیکورٹ کا جج مقررکرنے کا اختیار حکومت (یعنی وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ) کے پاس ہوتاتھا۔ وزرائے اعلیٰ گورنر صاحبان کے ذریعے مختلف ناموں کی سفارشات بھیجتے تھے اور وزیرِاعظم حتمی فیصلہ کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی نے اس حق کا اس حد تک غلط استعمال کیا کہ کئی پارٹی ورکروں کو جج مقرر کر دیا۔ اس پر اُنکی تقررّ ی کو چیلنج کیا گیا اور سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ سجّا د علی شاہ نے ان کی تقررّ ی منسوخ کر دی۔ آجکل جج صاحبان کی تقررّی میں سیا سی قیادت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے، اور عملی طور پر تمام اختیارات صرف چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس ہیں۔
اس طریقہء کار میں بھی تبدیلی اور بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ سابق چیف جسٹس صاحبان نے اپنے اختیار کو منصفانہ اور عادلانہ طریقے سے استعمال کرنے کے بجائے اقرباء پروری کے لیے استعمال کیا۔ ماضی میں کئی ایسے افراد کو عہدئہ قضاء پر فائض کردیا گیا جنکے کردار پر انگلیا ں اٹھا ئی جاتی تھیں۔ کیا وہ شخص جسکا دامن مالی اور اخلاقی طور پر بے داغ نہ ہو، عدل اور انصاف کے راستے پر استقامت کے ساتھ کھڑا رہ سکتاہے؟ کیا کوئی ایساشخص جو رزقِ حلال پر قناعت نہ کر تا ہو، غیرجانبدار رہ سکتا ہے؟ اور انصاف کے لیے کسی طاقتور فرد یا ادارے کے خلاف فیصلہ دینے کی ہمت کر سکتا ہے؟ ہرگز ہیں۔
"ادب القاضی" کے بارے میں تمام آئمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ " عدالت کے جج کا مطلوبہ معیار یہ ہونا چاہیے کہ اس منصب پر فائز ہونے والا شخص، سچّا، دیانتددار، صاحبِ عِفّت، گناہوں سے بچنے والا، مقامِ تہمت اور شبہات سے دور رہنے والا ہر حال میں خدا کی نافرمانی سے محفوظ اور صاحبِ مروّت ہو"
اسلام کی رُو سے قاضی(جج) صرف وہ شخص بن سکتا ہے جو:گناہِ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو اور گناہِ صغیرہ پر اصرار نہ کرے۔
امام ابو حنیفہؒ ااور امام شافعی ؒ کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی فاسق کو منصبِ قضاء پر مقرر نہیں کرنا چایئے۔ واضح رہے کہ فسق کی دو قسمیں ہیں :فسقِ عملی اور فسقِ اعتقادی۔ فسقِ عملی سے مراد شہوت اور خواہشِ نفس کی پیروی میں افعالِ شنیعہ کا ارتکاب ہے۔ وڈیو کے مطابق احتساب عدالت کا جج فسقِ عملی کامرتکب ہو اہے۔
تما م آئمہء کرام منصبِ قضاء کی صفات کے سلسلے میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ منصبِ قضاء پر ممکن حد تک ایسے شخص کو مقرر کیا جائے جو پرہیزگا ہو، لالچ سے پاک ہو (یعنی مالِ حرام کیطرف میلان یا رغبت نہ رکھتا ہو)ذہین ہو، اس کے مزاج میں عجلت نہ ہو، دین کے معاملے میں محتاط اور قابلِ اعتماد ہو۔ ایسا سنجیدہ جسکی سنجیدگی میں غضب اور کبر کی ملاوٹ نہ ہو، ایسا متواضع اور منکسر مزاج جسکی تواضع میں کمزوری کا دخل نہ ہو اور اللہ کی رضا کے مقابلے میں کسی کی رضاکی اور اُسکی ناراضی کے کے مقابلے میں مخلوق کی ناراضی اور اس کی ملامت کی پرواہ نہ کرے۔
ایسے شخص کو جج مقرر کیا جانا چایئے جو کردار کا مضبوط، دانشمند اور صالح ہو۔ کسی ایسے شخص کو قاضی یا جج کے منصب پر مقرر نہیں کیا جائے گا جو بداخلاق، ا کھڑمزاج، سخت دل، ظلم پسند، ہٹ دھرم، ضدی یا کینہ وعناد رکھنے والا ہو کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ عناد اور بغض کی وجہ سے حق کو چھوڑ دے اورناانصافی کا مرتکب ہو۔
امام سرخی نے اپنی شہرئہ آفاق تصنیف السبوط میں قضا کو اَشرفُ العبادات قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ " فرائض میں ایمان بااللہ کے بعد صحیح فیصلے سے افضل کوئی شے نہیں "۔
آئمہ کی اکثریّت کے بقول اگر ایک شخص باوجود اپنی جہالت اور نا اہلیّت کے عہدہء قضا کاطالب ہو یا باوجود یہ کہ اہلِ علم میں سے ہو لیکن فسق وفجور کا مرتکب ہو تا ہو، یا ناجائز طور پر حصولِ مال کا ذریعہ تصور کرکے اس کے لیے سعی اور کو شش کر تا ہو توایسی حالت میں اس کے لیے عہدئہ قضاء کی طلب وسعی حرام ہوگی۔
بلاشبہ انصاف اور ایمانداری کے ساتھ قانونِ الٰہی کو نافذ کرنا اور لوگوں کے درمیان انصاف کے مطابق فیصلہ کرنا اتنی بڑی عبادت ہے کہ اگر ایک دن اس عمل میں وقت گذر جائے تو اُسکا اجر برسہا برس کی عبادت سے بڑھ کر ہوگا۔ مگر جو لوگ اس نازک عہد ے کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے اور انصاف کا خو ن کرتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب کی وعید ہے۔ کیونکہ انصاف کا خون کرنیوالوں سے قوم کو پہنچنے والا نقصان بھی ناقابلِ تلافی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاہے
وما القاسطون فکانو الجہنم۔ (بے انصافی کرنیوالے جہنم کا ایندھن ہیں )
حضورنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ " اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ منغوض، سرکش اور اللہ سے سب سے زیادہ دور وہ شخص ہے جسکو اللہ تعالیٰ نے اُمّتِ محمدیہ کی کسی ذمے داری پر مقرر فرمایا اور اس نے لوگوں کے درمیان انصاف نہیں کیا"
ایک اور جگہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا
"قاضی کی تین قسمیں ہیں، ان میں سے دو جہنم میں جائینگی اور ایک جنّت میں۔ جس نے بغیر علم کے فیصلہ کیا اور یہ کہنے سے شرمایا کہ وہ نہیں جانتا وہ جہنم میں جائے گا۔ دوسرا وہ جوحقائق کو جاننے کے باوجود ناانصافی کا مرتکب ہوا وہ بھی جہنم میں جائے گا۔ اور جس نے مقدمات کا فیصلہ حق اور انصاف کے مطابق کیا وہ جنّت میں جائے گا۔"(جاری ہے)