کون زیادہ ذمے دار ہے؟
مری سانحے کے ذمے دار تو ہم سب ہیں مگر حکمرانوں پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں، کسی بھی ایسے ملک میں جہاں مہذب اور باشعور لوگ بستے ہوں، اگر مون سون کے موسم میں سیلاب آجائے تو پانی کے انسانی آبادیوں پر چڑھ دوڑنے کے بعد بچاؤ اور ریسکیو کی تدابیر نہیں کی جاتیں بلکہ اس کا انتظام پہلے سے کیا جاتا ہے اور یہی حکومت کا کام ہوتا ہے۔
جہاں زلزلہ آنے کے بعد ملبہ ہٹانے کی مشینری خریدنے کا پراسیس شروع ہو، وہاں کے حکمران یقیناً نااہل ہیں جو مستقبل کے خطرات اور آفات کا اندازہ لگانے اور ان سے نمٹنے کی صلاحیتوں سے عاری ہوتے ہیں، جس ملک میں اپنی آبادی کے لیے گندم فراہم نہ کی جاسکے اور بروقت گیس نہ خریدی جاسکے وہاں حکمرانوں کے گلے میں نااہلی کا ہی تمغہ ڈالا جائے گا۔ ہماری موجودہ حکومت ایسی ہی خوبیوں میں امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سانحۂ مری میں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے شہریوں کو وزیرِاعظم یا وزیرِاعلیٰ نے گلہ گھونٹ کر ہلاک نہیں کیا، ایسا الزام دینا نامناسب ہے مگر برف میں دھنسے ہوئے مسافر مدد کے لیے پکارتے رہے اور ان کی پکار ایک دو گھنٹے نہیں اٹھارہ بیس گھنٹوں تک گونجتی رہی مگر ان کی مدد کے لیے نہ پہنچنا حکومت کی نااہلی اور ناکامی ہے۔ یہی بات اپوزیشن لیڈرکر رہے ہیں اور یہی بیانیہ میڈیا کا ہے کہ جو وزیر ڈیڑھ لاکھ گاڑیاں پہاڑوں کی جانب جانے پر بھنگڑے ڈال رہے تھے انھیں اس پر تشویش کیوں نہ ہوئی اور انھوں نے متعلقہ محکموں کا ہنگامی اجلاس کیوں نہ بلایا اور اس ہنگامی صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے ضروری اقدامات کیوں نہ کیے۔ اس مجرمانہ غفلت پر انھیں بری الذّمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
خاندان کے آٹھ افراد کے ساتھ جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے اے ایس آئی نوید کی مدد کے لیے پکار سن کر ہر شخص کا دل چھلنی ہوجاتاہے۔ اس کے ایک عزیز نے ٹی وی انٹرویو میں یہ بتا کر پولیس اور انتظامیہ کے کئی نااہل افسروں کی مجرمانہ غفلت کو بے نقاب کردیا ہے کہ اُس نے نوید کی پُکار کی وڈیو کمشنر اور سی پی او کو بھیج دی تھی مگر کسی نے کچھ نہ کیا اور سب گرم بستروں میں لیٹ کر ٹی وی پر مرنے والوں کی بے بسی کا تماشا دیکھتے رہے۔
اس مجرمانہ کوتاہی پر بڑے سر بھی اُترنے چاہئیں، جو پنجاب حکومت کے ماتحت افسروں پر مشتمل انکوائری کمیٹی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ انکوائری کمیٹی تو زیادہ سے زیادہ مقامی افسروں کو تبدیل کردینے کی سفارش کردے گی جو ایک سعیٔ لا حاصل ہوگی۔
ان خبروں نے بھی درد میں اضافہ کیا ہے کہ جب مری میں قیامت ٹوٹ رہی تھی اور جب مدد کے لیے چیخ وپکار کرتے ہوئے شہری بے بسی کے عالم میں موت کی وادی میں جارہے تھے تو صوبے کا وزیرِ اعلیٰ اور حکمران جماعت کا صوبائی صدر سیاسی منصوبہ بندی میں مصروف رہے اور بلدیاتی الیکشن جیتنے کے منصوبے بناتے رہے۔
ان میں سے کوئی اتنابھی حساس نہ نکلا کہ اپنی ذمے داری سمجھ کر میٹنگ چھوڑدیتا اور فوری طور پر مسافروں کی مدد کا بندوبست کرتا۔ وزیرِاعلیٰ پنجاب اس سانحے کے دوسرے روز بھی صوبائی دارالحکومت میں ہی براجمان رہے اور انھوں نے مری کا رخ کرنا مناسب نہ سمجھا، اس موقعے پر مسلم لیگ ن کے کٹر مخالفین نے بھی شہباز شریف کو یاد کیا اور یہ تسلیم کیا کہ "شہبازشریف ایسے موقعوں پر انتہائی متحرک ہوتاتھا، وہ مون سون اور برفباری سے پہلے ہی متعلقہ محکموں کی میٹنگیں کرتا تھا، انھیں ضروری سامان فراہم کرتا تھا اور جب برفباری شروع ہوتی تو متعلقہ محکمے اس سے نپٹنے کے لیے پوری طرح تیار ہوتے تھے، اسی لیے کبھی کوئی بڑا حادثہ رونما نہیں ہوا"۔
میڈیا یہ پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ کیا وزیرِاعلیٰ پنجاب نے تین سالوں میں مری میں برفانی طوفان یا شدید برفباری سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نپٹنے کے لیے کبھی کوئی میٹنگ کی ہے یا اس سلسلے میں کبھی انتظامات کا جائزہ لیا ہے؟ وزیرِاعظم صاحب کو نتھیا گلی کا گورنر ہاؤس (جہاں ایک رات رہنے والا اپنے آپ کو انگریز وائسرائے سے کم نہیں سمجھتا) بہت پسند ہے اور وہ اکثر وہاں جاتے رہتے ہیں، اکثر عید بھی وہیں گزارتے ہیں، مگر کیا انھوں نے پچھلے پونے چار سالوں میں سیاحت پر سیکڑوں تقریریں کرنے کے سوا کوئی عملی قدم اُٹھایا ہے؟ کیا انھوں نے اس طرح کی ایمرجنسی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کبھی کوئی ایک بھی میٹنگ کی ہے؟
سابق وزیرِاعظم نوازشریف کو بھی مری اور گلیات سے بڑا اُنس تھا اور وہ بھی پہاڑوں پر وقت گزارنے کے شوقین تھے مگر افسران بتاتے ہیں کہ وہ مری میں اپنے گھر میں رہتے تھے اور جب بھی آتے تھے، ایک بار تمام محکموں کے متعلقہ افسروں کے ساتھ میٹنگ ضرور کرتے اور سیاحوں کے لیے سہولیات میں اضافہ کرنے کے لیے احکامات دیتے اور فنڈز بھی فراہم کرتے تھے۔ موجودہ حکومت اپنے دور میں مری میں برف ہٹانے کے لیے کوئی جدید مشینری نہیں خرید سکی اور متعلقہ محکموں کے وسائل میں معمولی سا بھی اضافہ نہیں کرسکی۔
تقریر اور تشہیر کے شوقین وزیرِداخلہ اسکرین پر بار بار نظر آرہے تھے اور ایک گاڑی کو ہاتھ سے اس طرح اشارہ کررہے تھے جیسے انھوں نے خود ٹریفک پولیس کے فرائض سنبھال لیے ہوں اور وہ ٹریفک کلیئر کروا رہے ہیں، مگر حکومت پنجاب ہی کے ایک ترجمان نے یہ بتاکر اُن کا بھی بھانڈہ پھوڑ دیا کہ ہلاکتیں تو پنڈی سے مری جانے والی پرانی سڑک پر گلڈنہ اور سنی بینک کے پاس ہوئیں، جہاں کاریں قبریں بن گئیں۔
مگر وزیرِداخلہ مری ایکسپریس وے (مری موٹروے) پر اپنے پورے پروٹوکول کے ساتھ گئے اور وہیں ایک مقام پر جاکر رک گئے اور ایک گاڑی کے پاس کھڑے ہوکر تصویریں بنواتے اور چینلوں پر بھجواتے رہے اور یہ تاثر دیتے رہے کہ وزیرِداخلہ اس قدر مستعد ہے کہ امداد کے لیے فوری طور پر موقعہ پر پہنچ گیا۔ میڈیا کو یہ کھوج لگانا چاہیے کہ شیخ صاحب کہاں گئے تھے؟ وہاں انھوں نے پھنسے ہوئے مسافروں کی مدد کے لیے کیا کیا؟ اور جہاں وہ تصویریں بنواتے رہے وہاں سے جائے حادثہ کتنے کلومیٹر دور تھا؟
وزیرِاطلاعات نے میڈیا پر کہا کہ وزیرِاعظم کی ہدایت پر وزیرِاعلیٰ میٹنگ چھوڑ کر چلے گئے، میڈیا نے اس جھوٹ کو بھی بے نقاب کردیا اور یہ ثابت کردیا کہ وزیرِاعلیٰ کو نہ ہی وزیرِاعظم کی کوئی ہدایت آئی تھی اور نہ ہی وہ میٹنگ چھوڑ کر گئے بلکہ وہ اور دیگر وزیر کئی گھنٹے کی میٹنگ کے بعد ہنستے مسکراتے میڈیا کے سامنے آکر غمزدہ خاندانوں کے زخموں پر نمک رگڑتے رہے۔ لگتا ہے دروغ گوئی اور جھوٹ موجودہ حکومت کی پالیسی کا بنیادی عنصرہے۔
نااہلی، بدترین بدانتظامی اور بدحکومتی اس المیے کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو اس سے بھی اہم ہے اور وہ ہے ہمارا اجتماعی اخلاقی زوال۔ بحیثیت قوم نہ ہمارے اندر ڈسپلن ہے، نہ قانون کا احترم ہے، نہ قربانی اور ایثار کا جذبہ ہے، نہ انسانی ہمدردی ہے اور نہ ہی دلوں میں اللہ کا ڈر ہے۔ مری کے سانحے سے بچ جانے والوں کی المناک داستانیں سامنے آرہی ہیں جن میں وہ بتاتے ہیں کہ ہماری مجبوری دیکھ کر مسلمان دکانداروں کے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ بیدار نہیں ہوا بلکہ حرص و ہوس کے ناگ جاگ اُٹھے اور انھوں نے ایک انڈے کی قیمت پانچ سو روپے وصول کی۔
ہوٹل کا کرایہ جو پہلے پانچ ہزار تھا، برفانی طوفان میں گھِرے بے بس مسافروں کو دیکھ کر ان سے پچاس ہزار کرایہ طلب کیا گیا۔ پولیس اور انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ ایک خاص تعداد سے زیادہ گاڑیاں جانے کے بعد اسلام آباد اور راولپنڈی سے ہی ان کی مزید روانگی سختی سے روک دیتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شہریوں کے اندر بھی ہیجان اور جذباتیّت کے بجائے اتنی ہوش مندی، سمجھداری اور ذمے دارانہ طرزِ عمل ہوناچاہیے تھا کہ جہاں انھیں آگے جانے سے روکا گیا وہ وہیں سے واپس چلے جاتے۔
میڈیا بھی برفانی موسم اور نظاروں کی اس طرح بڑھاچڑھا کر رپورٹنگ کرتا رہا جس سے شہریوں کے شوق اور جنون میں اضافہ ہوتا رہا مگر حالات خراب ہونے کے بعد میڈیا سے بھی شہریوں کو مری کا رخ نہ کرنے کی تلقین اور ہدایت کی جانے چاہیے تھی۔ ہمارے اندر اخلاقی اقدار کا فقدان بھی زیادہ تر حکمرانوں اورا سکرین پر دکھائے جانے والے پروگراموں کا پیدا کردہ ہے۔ عوام حکمرانوں اور الیٹ کلاس کی طرف دیکھتے ہیں اور اخلاقیات انھی سے سیکھتے ہیں، کیا عوام کو وہاں سے جھوٹ، بدکلامی اور بدانتظامی کے علاوہ بھی کچھ سبق ملے ہیں؟
حکمرانوں نے نئی نسل کو اعلیٰ اخلاقی اقدار سے سرشار کرنے کے لیے کونسی عملی مثالیں قائم کی ہیں؟ موجودہ حکمران جو قوم کو قانون شکنی پر اُکساتے رہے ہوں، ریاستی اہلکاروں پر تشدد کرنے کی ترغیب دیتے رہے ہوں، جھوٹ اور گالم گلوچ کی تعلیم دیتے رہے ہوں، وہ اب قوم سے اعلیٰ اخلاقی کردار کی کیسے توقع کر سکتے ہیں؟ گھر اور اسکول جیسے ادارے غیر فعال ہیں اور بعض ٹی وی ڈرامے اخلاقیات کا قلعہ مسمار کرنے پر تلے ہیں لہٰذا نئی نسل اخلاقی جوہر سے محروم ہے اور یہ پاکستان کا سب سے بڑا چیلنچ ہے۔