ہمارے کلاس فیلو پر الزامات کی بوچھاڑ
جی سی لاہور اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے ہمارے کلاس فیلو اور دوست ریٹائرڈ جسٹس ثاقب نثار الزامات کی زد میں ہیں۔ آجکل جس پرانے کلاس فیلو سے ان کے پر لگنے والے الزامات کی بوچھاڑ کے بارے میں بات ہو، وہ جواب میں یہی کہتا ہے کہ ؎
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں، یہ یقینی بات ہے کہ موصوف کے مزید کارنامے، ابھی سامنے آئیں گے۔
حضرت علیؓ مرتضیٰ کے سونے سے لکھنے والے دو قول یاد آتے ہیں۔ ایک جگہ فرمایا، "اﷲ تعالیٰ ہر شخص کی اصلیت دنیا میں ہی ظاہر کردے گا۔" جسٹس افتخار چوہدری صاحب کو بھی بے تحاشا عزت اور مقبولیت دے کر آزمایا گیا مگر انھوں نے اسے عدلیہ کی مضبوطی کے بجائے اپنی ذاتی تشہیر، اختیارات اور نمود ونمائش کے لیے استعمال کیا، عزت و ذلت کے مالک نے انھیں بھی عیاں کردیا۔
ہمارے دوست ثاقب نثار صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا، انھوں نے عدل کے سب سے بلند منصب کو بے توقیر کیا تو عظیم ترین عادل و قادر نے ان کی عزت خاک میں ملادی۔ شیرِ خداؓ کا ایک اور قول ہے کہ "جس پر احسان کرو، اس کے شر سے بچنے کی کوشش کرو۔" میاں نوازشریف نے ثاقب نثار پر جتنا بڑا احسان کیا تھااس پر سب حیران تھے، وہ بہت جوینئر وکیل تھے، اُس وقت انھیں زیادہ سے زیادہ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بنانے کے لیے سوچا جاسکتا تھا۔
کوئی شخص یہ تصوّربھی نہیں کرسکتا تھا کہ ہائیکورٹ کے ایک سینئر، قابل اور اعلیٰ کردار کے مالک جسٹس ملک اختر حسن کی جگہ ثاقب نثار کو فیڈرل لاء سیکریٹری مقرر کردیا جائے گا۔ پرائم منسٹر نوازشریف نے اُن پر یہ غیر معمولی احسان یہ کیا اور پھر چند مہینوں بعد لاہور ہائیکورٹ میں دس اسامیاں نکلیں تو ثاقب نثار صاحب اور آصف کھوسہ صاحب کو ہائیکورٹ کا جج مقرر کردیا۔ میں اُن دنوں پرائم منسٹر کا اسٹاف آفیسر تھا، اس لیے بہت سی اندر کی باتوں سے بھی واقف ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ثاقب صاحب کو جج بنوانے کے لیے خالد انور اور کھوسہ صاحب کے لیے ان کے سُسر جسٹس نسیم حسن شاہ (مرحوم) کو میاں صاحبان کی کتنی منتیں کرنی پڑیں۔ مگر دونوں نے اپنے محسن ایسے ڈنگ مارے کہ سب حیران رہ گئے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان پہلا سال چیف جسٹس صاحب کی زیرِ نگرانی رہتے ہیں۔
وہ نئے مقرّر کردہ جج صاحبان کی کارکردگی سے مطمئن ہوں تو ایک سال کے بعد انھیں کنفرم کردیا جاتاہے۔ ثاقب نثار صاحب اور آصف کھوسہ صاحب دونوں کو پہلے سال کے بعد کنفرم نہ کیا گیا۔ مگر اس میں پرائم منسٹرکا کوئی کردار نہ تھا۔ بس پرائم منسٹر نے اس معاملے میں مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا تو دونوں نے دل میں عناد پال لیا مگر کچھ قانونی حلقوں کے مطابق انھوں نے منتخب وزیرِاعظم کے خلاف جو کچھ بھی کیا دباؤ کے تحت کیا۔
ثاقب نثار صاحب کے چیف جسٹس بننے پر راقم نے انھی صفحات پر ایک کالم لکھا تھا جس میں یہ تحریر کیا تھا کہ "پرانے کلاس فیلوز پوچھتے ہیں کہ آپ میاں ثاقب صاحب کو مبارک باددے آئے ہیں؟ " میں نے دوستوں کو بتایا ہے کہ میں انھیں چیف جسٹس بننے کی مبارک نہیں دوں گا بلکہ وہ جب تک چیف جسٹس ہیں، میں انھیں بالکل نہیں ملوں گا۔ اگر انھوں نے اپنے منصب کے تقاضے پورے کیے اور اس کے ساتھ انصاف کیا تو پھر ان کی ریٹائرمنٹ پر میں انھیں مبارک باد دینے جاؤںگااور پھول بھی پیش کروں گا۔" چیف جسٹس بن کر ہر روز ان کے کچھ روپ سامنے آتے تھے، دو سالوں میں توسارے رنگ و روپ سامنے آگئے۔
ان کی ریٹائرمنٹ پر راقم نے پھر کالم لکھّا کہ "کل گُل فروش شیر علی کی دکان کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ وہ میری گاڑی پہچان کر سامنے آگیا، میں نے گاڑی روک لی تو وہ ایک خوبصورت گلدستہ لے آیا اور اسے میری طرف بڑھاتے ہوئے بولا میں آپ کے سارے کالم پڑھتا ہوں، میں جانتا تھا کہ آج چیف جسٹس صاحب ریٹائر ہورہے ہیں، اس لیے میں نے آج آتے ہی ایک گلدستہ تیار کرالیا تھا، لیکن میں خود گومگو میں تھا۔ میں نے آپ کی شرط بھی پڑھ رکھی تھی، اس لیے یہ سوچ رہا تھا کہ آپ گلدستہ پیش کرنے کے لیے جائیں گے یا نہیں جائیں گے۔
میں نے سر جھکا کر کہا "شیر علی مجھے بہت افسوس ہے کہ میں ان کے لیے گلدستہ لے کر نہیں جارہا، اس لیے یہ واپس لے جاؤ"۔ مجھے واقعی دکھ تھا کہ ہم ایک کلاس فیلو کے بارے میں یہ نہ کہہ سکے کہ "We are proud of you"۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ثاقب نثار صاحب ذاتی طور پر میری بہت عزت کرتے تھے۔ مجھے اپنے بچوں کی شادیوں پربھی مدعو کرتے رہے اور میں ان کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتا رہا لیکن وہ صرف ایک کلاس فیلو یا دوست نہیں تھے، وہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر براجمان تھے، لہٰذا چیف جسٹس آف پاکستان کے طور پر جب بھی کوئی غیرجانبدار شخص ان کی کارکردگی کا جائزہ لے گا تو انھیں فیل کردے گا۔
جج یا قاضی کے معیار اور آداب پر بیشمار کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ وہ نہ صرف میزانِ عدل کا توازن برقرار نہ رکھ سکے بلکہ منصبِ قضاء کے کسی معیار پر بھی پورا نہ اُتر سکے۔ انھوں نے اپنے کسی نا معلوم بغض یا دباؤ کے تحت میاں نوازشریف کو ایک انتہائی بودے اور مضحکہ خیز الزام کی بناء پروزارتِ عظمٰی سے ہٹانے، انھیں سزا دلانے اور پھر انھیں تاحیات نااہل کرانے اور ملک کو غیر مستحکم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ ممکن ہے وہ بھی کبھی حقائق اُگل دیں۔
وہ چیف جسٹس کے طور پر پورے خاندان کو لے کر بیرونِ ملک گئے، وہاں مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کیا اور ایک سیاسی پارٹی کے عہدیداروں کے درمیان بیٹھ کر کھانے کھاتے رہے اور انھی کی منعقدکردہ تقریبات میں شریک ہوتے رہے اور اپنی تقریروں میں پی ٹی آئی کے لیے اپنی "خدمات" کا برملا ذکر بھی کرتے رہے۔
سپریم کورٹ تو کیا ایک سول جج کو بھی اور ایک پولیس افسر کو بھی سو فیصد غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ثاقب صاحب کے ساتھی جسٹس آصف کھوسہ صاحب نے وڈیو فیم جج ارشد ملک کے طرزِ عمل کے بارے میں کہا تھا کہ اس سے پوری عدلیہ کا سر شرم سے جھک گیا مگر کھوسہ صاحب نے اُسی جج کا فیصلہ برقرار رکھ کر سب کو حیران کردیا۔
٭ثاقب نثار صاحب نے بنی گالہ کے بنگلے کے مسئلے پر وزیرِاعظم عمران خان کو ریلیف دیا، حالانکہ ان کا کیس بہت کمزور تھا۔ نہ صرف انھوں نے عمران خان صاحب کو ریلیف دیا بلکہ انھوں نے وزیرِاعظم صاحب کو صادق، اور امین، جیسے اَلقاب عنایت کردیے جو صرف آقائے دو جہاں حضرت محمدﷺ کے لیے مخصوص ہیں۔
٭اگر کوئی امیدوار انتخابی فارم جمع کراتے وقت اپنی کسی بھی جائیداد کا اندراج نہ کرسکے تو خود سپریم کورٹ اس کا الیکشن کالعدم قرار دیتی رہی ہے۔ شیخ رشید صاحب نے اپنی کچھ پراپرٹی کا اندراج نہیں کیا تھا، اس لیے انھیں نااہل ہوجانے کا واضح خطرہ نظر آرہا تھا مگر ثاقب نثار صاحب نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا جس پر قانونی حلقے حیران ہوئے۔
٭کراچی کے سابق ایس ایس پی راؤانوار کے خلاف ایک قبائلی نوجوان کے قتل کا الزام تھا۔ میڈیا میں شور مچا تو انوار غائب ہوگیا۔ ثاقب نثار صاحب نے آئی جی سندھ کو عدالت میں بلاکر بڑھک ماری کہ اسے گرفتار کرو ورنہ جیل جاؤ گے۔
آئی جی نے ریٹائر نگ روم میں جاکر چیف جسٹس کو ساری صورتِ حال بتادی تو جج صاحب بالکل لیٹ گئے اور پھر کئی مہینوں بعد راؤ انوار اس شان سے پیش ہوا کہ اس کی گاڑی اس گیٹ سے داخل ہوئی جو صرف جج صاحبان کے لیے مخصوص ہے۔ ہمارے کلاس فیلو نے ملک کی خدمت کا جذبہ لے کر امریکا سے آنے والے انتہائی قابل ڈاکٹروں کو بھری عدالت میں بے عزت کیا، جس پر وہ بددل ہو کر واپس چلے گئے اور ایشیاء کا بہترین اسپتال (جو شہباز شریف نے اپنی نگرانی میں بنوایا تھا) برباد ہوکر رہ گیا۔
یہ تو چند باتیں ہیں ورنہ ان کے "کارناموں " پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے مگر کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا ذکر میں پرانی دوستی کی وجہ سے مناسب نہیں سمجھتا، مگر اُن پر لگنے والے الزامات کی لازمی تحقیقات ہونی چاہئیں اور تحقیقات سپریم کورٹ کے وہ تین جج صاحبان کریں جنھوں نے نہ کبھی آمریت کے سامنے سرجھکایا ہے اور نہ کبھی کوئی پلاٹ قبول کیا ہے۔