1.  Home/
  2. Zulfiqar Ahmed Cheema/
  3. Aik Nahi Do Perchy Kato

Aik Nahi Do Perchy Kato

ایک نہیں دو پرچے کاٹو !

(ٹی وی اینکرز کے نام)

ڈاکٹر سلمیٰ زمانہ طالب علمی میں بھی بڑی بااعتماد اور قا ئدانہ صلاحیتوں کی مالک تھیں، میڈیکل کالج میں اسٹوڈنٹس یونین کی صدر بھی رہیں۔ اب وہ ایک شادی شدہ خاتون ہیں اور ایک سرکاری اسپتال میں ملازمت کرتی ہیں۔ شاپنگ کے لیے وہ خود مارکیٹ جاتی ہیں۔

اُس روز مارکیٹ میں کار پارک کر کے وہ جونہی کار سے باہر نکلیں تو دو لڑکے قریب آئے اور اُنکا پرس چھین کر بھاگ گئے۔ ڈاکٹر سلمیٰ فوراً قریبی پولیس اسٹیشن پہنچ گئیں اور پھر عینی شاہدوں کے مطابق وہاں جو مکالمہ ہو اوہ قارئین کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر سلمیٰ: دیکھیں جی ابھی ابھی دو criminals میرا پرس snatchکر کے بھاگ گئے ہیں، میرا کیس رجسٹر کریں اور پولیس کو فوراً ان کے پیچھے بھیجیں تا کہ وہ پکڑے جائیں۔

تھانیدار: بی بی آپ کے خاوند محترم ساتھ نہیں آئے، اُن سے کوئی اَن بن ہے یا وہ قضائے الٰہی سے۔۔۔

ڈاکٹر سلمیٰ: فضول باتیں نہ کریں وہ ماشاء اﷲ خیریت سے ہیں اور اپنے شو میں مصروف ہیں۔

تھانیدار: کیا کہا جی اُن کا شو روم ہے یا وہ شو شَا مارنے کے شوقین ہیں۔

ڈاکٹرسلمیٰ: آپ وقت ضایع نہ کریں اور میری FIR کاٹیں فوری طور پر۔

تھانیدار: وہ بھی کاٹ لیں گے، مگر پہلے آپ حالات و واقعات بتائیں پھر ہم جائزہ لیں گے کہ پرچہ بنتا ہے یا رَپٹ یا صرف لَپٹ چَپٹ۔

ڈاکٹر سلمیٰ نے وقوعے کے مختصر حالات بتا دیے۔

تھانیدار : آپ کچھ چھپانے کی کوشش کررہی ہیں، واقعات من وعَن بیان کریں۔ من وعَن کامطلب سمجھتی ہیں ناں؟

ڈاکٹرسلمیٰ: جی اچھی طرح سمجھتی ہوں، جو کچھ ہوا وہ میں نے آپ کو بتادیا ہے۔

تھانیدارـ: آ پ نے ٹَیم (ٹائم) بتایاہے؟

ڈاکٹرسلمیٰ: ہاں شائد بتانا بھو ل گئی تھی، وہ بھی لکھ لیں، دو ڈھائی بجے کا وقت ہوگا۔

تھانیدارـ: دو ا ور ڈھائی میں تو بڑا فرق ہوتا ہے، بی بی! آپ صحیح وقت بتانے سے بھی گریزاں ہیں اور اس کے علاوہ بھی کئی اہم باتیں چھپا رہی ہیں۔ موسم کَیسا تھا اُس وقت؟ یہ آپ نے بتایا ہے؟

ڈاکٹرسلمیٰ: دیکھیں ایک جرم ہو ا ہے، آپ اُس پر کارروائی کریں، بھلا موسم کا جرم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟

تھانیدار: دیکھیں بی بی آپ کے والدین شائد آ پ کو زیادہ تعلیم نہیں دلا سکے خیر کوئی بات نہیں، کوئی مجبوری ہو گی یا آپ کُند ذھن ہوں گی، اگر آپ پڑھی لکھی ہوتیں تو آپ کو پتہ ہوتا کہ موسم بدلنے سے مجرم کا ذہن بدل جاتا ہے۔ اگر بوقتِ وقوعہ موسم سہانا تھا تو ممکن ہے آپ کی طرف بڑھنے والے نوجوانوں کی نیّت مجرمانہ کے بجائے عاشقانہ ہو۔۔۔۔

ڈاکٹر سلمیٰ: آپ غیر ضروری اور فضول باتوں میں وقت ضایع کر رہے ہیں۔ چلیں لکھ لیں، موسم سہانا نہیں تھا، سخت حبس تھا۔

تھانیدار: اچھا ایسا حَبس، کہ لُو کی دعا مانگتے تھے لوگ، ایسا موسم جس میں لوگ لُو کی دعا مانگ رہے ہوں اس میں تو نوجوانوں کا دامن چاک کر کے جنگلوں اور بیابانوں کی جانب نکل جانے کو جی چاہتا ہے، یہ دونوجوان مارکیٹ کی جانب کیسے چل پڑے؟ بی بی آپ ذہن پر زرو دیکر اصل واقعات یاد کریں ویسے اِس عمر میں یادداشت کمزور ہو جانا قدرتی بات ہے۔

ڈاکٹر سلمیٰ : تمیز سے بات کریں میں آپ کو بُڈھی نظر آتی ہوں؟

تھانیدار: میرا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے آپ پرس کسی دکان میں رکھ کر بھول گئی ہوں۔ بُھول چوک بھی انسان سے ہو ہی جاتی ہے۔

ڈاکٹرسلمیٰ: آپ کیا بات کر رہے ہیں۔ چند منٹ پہلے یہincident ہو ا ہے، وقت ضایع نہ کریں فوراً کیس رجسٹر کریں۔

تھانیدار : مگر خاتون محترم! یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آپ پرس گھر چھوڑ آئی ہوں، آپ اپنے رفیقِ حیات کو یعنی مسّمی محمد حیات کو (یہی نام ہو گانا آپ کے خاوند کا) چکمہ دیکر آئی ہوں کہ میں شاپنگ کے لیے جا رہی ہوں مگر آپکا شاپنگ کا ارادہ نہ ہو۔

ڈاکٹرسلمیٰ: آپ بیہودہ باتیں مت کریں، نہ میں اپنے خاوند کو چکمہ دیکر آئی ہوں اور نہ اُنکا نام محمد حیات ہے۔

تھانیدار: معاف کرنا یہ تو ہو سکتا ہے کہ آپ کا پرس چوری ہوا ہو اور آپ کم علمی اور ناسمجھی کی وجہ سے اسے ڈکیتی سمجھ رہی ہوں۔

ڈاکٹرسلمیٰ: او مسٹر پولیس آفیسر! تمہیں معلوم ہونا چاہیے میں کم علم یا بے سمجھ نہیں، پڑھی لکھی خاتون ہوں۔ ڈاکٹر ہوں میں، سمجھے!

تھانیدار: اچھا اچھا، ماشاء اﷲ اسی لیے میں سوچ رہا تھا کہ آپ کو دیکھ کر مجھے اپنی زَوجہ بہشتن کیوں یاد آ رہی ہیں، انھیں بھی ڈاکٹر بننے کا بڑا شوق تھا، ایک بار ڈاکٹر ی کے امتحان میں نقل کرتے ہوئے پکڑی گئیں۔ پھر دوسری بار ان کی جگہ کسی اور کو بٹھاکر امتحا ن دلانے کا ارادہ کیا گیا ایک حوالدار نے حامی بھر لی کہ میری ہمسائی بڑی لائق ہے، کام کر جائے گی مگر پیسے مانگتی ہے۔ ہم نے پیسے بھی دے دیے۔ پیسے حوالدار خود کھا گیا اور ہمسائی کے بجائے سالی کو بٹھا دیا اور خود امتحانی ہال کے روشندانوں سے بُوٹیا ں پھینکتا رہا بس آخری بُوٹی کھولتے ہوئے سالی پکڑی گئی۔ اور اسطرح زوجہ بہشتن ڈاکٹر بنتے بنتے رہ گئیں۔

ڈاکٹر سلمیٰ: دیکھو وقت ضایع مت کرو۔ میں نے ایک فون کیا تو تمہیں زوجہ ہی نہیں امّاں بھی یاد آ جائے گی، سیدھی طرح کیس درج کرو۔ اور فضول باتیں مت کرو۔

تھانیدار: جی آپ برانہ مانیں جی۔ زوجہ بہشتن بھی آپکی طرح ضد کی پکی تھیں، آپکی طرح کوئی اسٹینڈ لے لیتیں تو پھر پیچھے نہیں ہٹتی تھیں۔ آپ میں بھی لچک نظر نہیں آتی۔ کوئی بھی شعبہ ہو، ر قص ہو سیاست ہو یا محکمہ پولیس ہو، کامیابی کے لیے لچک بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر سلمیٰ : مگر میرا اِن شُعبوں سے کوئی تعلق نہیں،

تھانیدار: ڈاکٹر صاحبہ، آپ تو ڈاکٹر بن گئی ہیں، چلیں جیسے بھی بنی ہیں نقل مار کر یا اپنی جگہ کوئی بندہ بٹھا کر آپ امتحا ن پاس کر گئیں، اب میری زوجہ صاحبہ، سابقہ نہیں زوجۂ حالیہ بھی ڈاکٹر بننا چاہتی ہیں بس ڈاکٹر صاحبہ! آپ انھیں دوچار پرچوں میں پاس کرانے میں ہیلپ کر دیں، پھر اپنے پرچے کی فکرہی نہ کریں جتنے کہیں گی پرچے کاٹ دوں گا۔

ڈاکٹر سلمیٰ : دیکھیں امتحا ن پاس کرنے کے لیے آ پ کی مِسز کو خود محنت کرنا ہو گی، مگر آپ اصل اِشو کی طرف آئیں، امتحانی پر چوں کی بات چھوڑیں اور میرا پرچہ کاٹیں۔

تھانیدار: آپ ایک ہی بات پر اَ ڑ گئی ہیں، یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ آ پ کی کسی دکاندار سے لڑائی ہو گئی ہو اور آپ نے پرس اس کے سر پر مار دیا ہو اور پرس ٹوٹ گیا ہو۔

ڈاکٹر سلمیٰ: it’s nonsence آپ انتہائی لغو باتیں کر رہے ہیں، میں بازاروں میں لڑنے والی خاتون نہیں ہوں۔

تھانیدار : بازار میں نہ سہی، گھر میں یا محلے میں جھگڑا ہو گیا ہو، وہاں آپ نے کسی دوسرے شخص کو اپنے پرس سے ضربِ شدید لگائی ہو جس سے آپکا پرس یعنی آلہء جُرم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہو۔

ڈاکٹر سلمیٰ : ایسا کچھ نہیں ہوا، نہ میں جھگڑالو عورت ہوں اور نہ ہی میرا پرس کبھیweapon of offence کے طور پر استعمال ہو ا ہے۔

تھانیدار : میرے تجربے اور مشاہدے میں تو آپ صلح جُو قسم کی خاتون نہیں لگتیں، بلکہ آپ لڑائی جھگڑے کی جانب رغبت رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر سلمیٰ : Don’t be silly۔ آپ میرے ساتھ بدتمیزی کر رہے ہیں، میں اپنے husband کو ابھی فون کرتی ہوں اور پھر دیکھیں آ پ کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔

تھانیدار: تھانے کی حدود میں ہوتے ہوئے آپ دھمکیاں دے رہی ہیں، وہ بھی قنون کو، آپ کر لیں فون بڑے شوق سے میں دیکھتا ہوں آپ کا فون تکڑا ہے یا قنون تکڑا ہے، آپ کا خاوند کوئی ٹھیکیدار یا دکاندار ہو گا یا چلو کوئی ڈاکٹر ہو گا یا کسی کالج میں پڑھاتا ہو گا، توایسے لوگ تو ہمارے دفتر کے باہر بنچ پر چار چار گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں۔ دھمکیاں دیں کسی اور کو جو ڈر بھی جائے۔ میں ایسا ویسا تھانیدار نہیں ہوں جو آپکی دھمکیوں سے ڈر جاؤں، کیا کرتا ہے، آپ کا خاوند؟ زیادہ سے زیادہ کوئی ایم پی اے یا ایم این اے ہو گا۔ میں نہیں ڈرتا اُن سے بھی۔

ڈاکٹر سلمیٰ: میرےhusband دکاندار یا Politician نہیں، وہ ایک مشہور ٹی وی چینل کے اینکر ہیں۔

تھانیدار فوراً کھڑا ہو گیا اور ڈاکٹر سلمیٰ کو سیلیوٹ کرتے ہوئے بولا، ڈاکٹر صاحبہ! آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ مجھے دو چیزوں سے بہت خوف آتا ہے، ایک ٹینکر سے اور دوسرا اینکر سے۔ دو سال پہلے ایک ٹینکر نے ٹکر مار ی تھی تو چار مہینے اسپتال رہنا پڑا۔ مجھے معاف کر دیں بی بی جی۔ ٹینکر کی ٹکّر سے تو بچ گیا تھا اینکر کی ٹکر سے نہیں بچ سکوں گا۔ اینکر محترم کی ایک ہی کال پر ڈی آئی جی صاحب مجھے معطل کر دیں گے اور معطلی کے آرڈر اینکر صاحب کو دکھانے آپ کے گھر خود لے کر جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحبہ بس مجھے معاف کر دیں۔ او منشی خیر دین بلکہ رپورٹنگ افسر خیر دین دوڑ کے آ ؤ اور کاٹو پرچہ ڈاکٹر صاحبہ کا اور ایک نہیں دو پرچے کاٹو۔

محرّر: سر جی ایک واردات کا تو ایک ہی پرچہ ہوتا ہے۔

تھانیدار: اوئے ایک پر س چھیننے کا۔ اور دوسرا دیکھو پر س کس کا چھِینا گیا ہے، ایک معزز اینکر صاحب کی اکلوتی بیگم صاحبہ کا : تو بنتی ہے ناں دہشتگردی بھی!

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz