ایک دن شاہینوں اورکنوؤں کے شہر میں
گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا تو سرگودھا کے طلبا اپنے خلوص اور Originality باعث دل کو بھا گئے، اُن سے گہری دوستیاں ہوگئیں اور سرگودھا کے ساتھ ایک ایسا جذباتی تعلق پیدا ہوگیا جو اب تک قائم ہے۔ سروس میں دو بار یہاں تعیّنات بھی رہا۔
تین دہائیاں پہلے بھلوال میں اے ایس پی رہا جو اُس وقت نَوتھانوں پر مشتمل پنجاب کی سب سے بڑی سب ڈویژن تھی، پھر اس کے بائیس برس بعد مختصر عرصے کے لیے سرگودھا میں ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) بھی تعیّنات رہا۔
بھلوال کا دور نوجوانی کا اور سیکھنے (Learning) کا دور تھا۔ مگر جب پولیس کا ڈویژنل سربراہ بن کر آیا تو وہ اپنی پالیسی نافذ کرنے کا وقت تھا کہ تب راقم جرائم کی روک تھام کے رموز سیکھ چکا تھا۔ ایک روز جب جناح ہال میں معززّین کااجتماع رکھا گیا تو ضلعی پولیس افسر نے پوچھا، "سراسٹیج پر کون کون سے ایم این اے اور ایم پی اے بیٹھیں گے۔"
جواب دیا گیا، " اسٹیج پر صرف اس ڈویژن کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ بیٹھیں گے۔" لوگوں نے پولیس کے اجتماع میں سیاستدانوں کے بجائے وائس چانسلر صاحب کو اسٹیج پر جلوہ افروز دیکھا تو انھیں خوشگوار حیرت ہوئی۔
اسلحہ لے کر چلنے پر پابندی لگا دی گئی اور اس ضمن میں ایک فقرہ لوگوں کے دلوں میں بیٹھ گیا، "جس نے گھر سے باہر نکلنا ہے وہ اپنی بندوقوں کو صندوقوں میں بند کرکے نکلے۔" ایک بھی سفارش نہ مانی گئی تو اس پر سو فیصد عمل ہوا۔ ایک مہینے میں ہی پولیس اور تھانوں میں آنے والی تبدیلی، گرِتے ہوئے جرائم اور چُھپتے اور بھاگتے ہوئے مجرموں کو عوام النّاس نے دیکھا اور محسوس کیا۔ اس کے بعد بھی کسی نہ کسی بہانے سرگودھا کے چکر لگتے رہے۔ وقفہ طویل ہوجائے تو سرگودھا خود کھینچتا ہے اور ہم بھی اس کی محبت میں کھنچے چلے جاتے ہیں۔
اِس بار بہانہ میرے جی سی اور لاء کالج کے ہم جماعت اور دوست جاوید چیمہ (جو کمشنر انکم ٹیکس کے طور پر ریٹائر ہوئے)کی کتاب کی تقریبِ رونمائی تھی۔ سرگودھاکے نواحی گاؤں چھتّی چک (چک نمبر 36) سے تعلق رکھنے والا جاوید احمد چیمہ طالب علمی میں بھی بے حدمخلص اور ملنسار تھا، دوسروں کے کام آنا اور دوستوں کے لیے قربانی دینا اس کا شیوہ تھا۔ جس سے ملتا اس کے دل میں اتر جاتا اور وہاں سے نکلنے کا نام نہ لیتا۔ اس کے دل میں کسی کے لیے حسد، کینہ، عناد یا فساد کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔"Malice for none & love for all" اس لیے وہ اس وقت بھی کالج میں سب سے پاپولر تھا۔ جس طرح وہ خود انہونا تھا۔
اسی طرح اس کی کتاب بھی وکھری ٹائپ کی ہے۔"میں اور میرا گاؤں"۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بیوروکریٹ، سیاستدان، جج اور جرنیل کتابیں لکھتے ہیں مگر وہ اپنی عملی زندگی کی بد اعمالیوں اور دامن پر لگے داغوں کو الفاظ کی چادر سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر جاوید نے اپنی کتاب میں اپنی طالب علمی کی تمام تر کوتاہیوں، شرارتوں اور وارداتوں کو کچھ بھی چھپائے بغیر لکھ ڈالا ہے۔
نوجوانی کی ہر کوتاہی اور خامی خود ہی قاری کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے۔ اس کے علاوہ اُس نے کتاب میں دیہاتی زندگی کی بڑے سادہ مگر دلنشین اور موثّر انداز میں عکّاسی کی ہے اور شہری قارئین کو دیہات کی تہذیب اور کلچر سے بخوبی متعارف کرایا ہے۔ اس کی کتاب کی تقریب کے لیے میں اور برادرم جمیل چیمہ اسلام آباد سے روانہ ہوئے۔
سرگودھا پہنچ کر ضلع کے انتہائی شریف النّفس اور باکردار سیاسی لیڈر، سابق ایم این اے جاوید اقبال چیمہ صاحب کی وفات پر اظہارِ افسوس کے لیے ان کی رہائش گاہ پر گئے جہاں ان کے صاحب زادے اور بھائی صاحب سے ملکر مرحوم کے لیے دعا کی۔ وہاں سے کتاب کی تقریب میں پہنچے تو ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور پروفیسر ہارون الرشید تبسّم صاحب مائیک سنبھال چکے تھے، مائیک ہارون صاحب کے پاس ہو تو تقریب کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔
کتاب اور صاحبِ کتاب پر پرانے دوستوں ظفر عباس لک(سابق آئی جی) چوہدری جاوید سلیم، چوہدری افتخار، معروف قانون دان چوہدری نصیر چیمہ، شمس چیمہ، معروف معالج ڈاکٹر عمرحیات بُچّہ اور معروف دانش ور اور ادیب پروفیسر ہارون الرشید تبسّم نے اظہارِ خیال کیا۔ معروف اینکر اور کالم نگار حبیب اکرم (ان کا تعلق بھی چھتّی چک سے ہے) اس تقریب کے لیے لاہور سے آئے تھے۔
انھوں نے اپنے آبائی گاؤں کا جذبات میں ڈوب کر ذکر کیا اور اپنے بچپن کی یادیں شیئر کیں۔ تقریب کے اختتام پر ہر طبقۂ فکر کے لوگوں سے ملاقات بھی ہوئی اور تصویروں کا سیشن بھی چلتا رہا۔ عشایئے کا اہتمام سرگودھا کے نو تعمیر شدہ جم خانہ میں کیا گیا تھا وہاں بھی اور اس سے پہلے کتاب کی تقریب کے اختتام پر بھی درجنوں باخبر افراد ملے جودو تین چیزوں کا بطورِ خاص ذکر کرتے رہے۔ سب نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ جم خانہ کی تعمیر کے نام پر ضلعی انتظامیہ کے افسران کروڑوں روپیہ کھا گئے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔
افسروں کا ذکر چھڑا تو وہیں کچھ کاروباری حضرات نے سرگودھا سے تبدیل ہونے والے کئی مرد اور کئی خواتین افسروں کے قصّے سنانا شروع کردیے کہ ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کی فائلیں نکالنے کے لیے کروڑوں روپے وصول کیے گئے۔ خیال یہ تھا کہ خواتین کرپشن کی طرف راغب نہیں ہوتیں اور مردوں سے زیادہ ایماندار ہوتی ہیں۔ مگران میں سے کئی تو اس میدان میں بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں، بلکہ مردوں کو پچھاڑ کر ان سے آگے نکلنے کے لیے بیتاب ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے۔ سرگودھا کا ہر باشعور شخص ضلع کی کرپشن زدہ پولیس کے بارے میں پریشان نظر آیا۔
ہر شخص کو تشویش تھی کہ عوام اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ ضلع میں تھانے بکنے لگے ہیں۔ لاکھوں روپیہ رشوت دیکر ایس ایچ او تھانوں میں تعینات ہوتے ہیں، اس لیے مظلوموں کی کسی تھانے میں یا پولیس کے کسی دفتر میں کوئی شنوائی نہیں۔ ایک ایس ایچ او کوکسی شخص نے ہمّت کر کے کہہ دیاکہ "آپ نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے، نہ کسی کو انصاف ملتا ہے، نہ تفتیش میرٹ پر ہوتی ہے۔
جرائم کا گراف تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ ہم آپ کی شکایت حکومت سے کرینگے اور میڈیا میں آپکی کرتوتوں کو Highlight کرینگے"تواس نے گھبرانے کے بجائے بڑے جارحانہ لہجے میں جواب دیا کہ ""جو چاہو کر لو میں اتنے لاکھ دے کر ایس ایچ او لگاہوں، مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں "۔
سنا ہے کہ عوام نے اس صورتِحال سے تنگ آکر جب حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کا گریبان پکڑا تو کچھ اچھی سوچ کے لوگ آگے بڑھے اور جاکر وزیرِاعلیٰ پنجاب سے ملے اور انھیں پولیس کی لوٹ مار سے آگاہ کیا مگروزیرِاعلیٰ صاحب نے جواباً ہاتھ باندھ لیے اور کوئی کارروائی کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ میں نے پوچھا کہ آر پی او تو شریف بھی ہے اور ایماندار بھی، وہ اپنے ماتحت افسروں کی جواب طلبی کرسکتا ہے۔
آئی جی (جو ایک ایماندار اور باضمیر افسر ہے) کو شکایت کرسکتا ہے، کیا وہ ماتحت افسروں کی بداعمالیوں پر کوئی ایکشن نہیں لیتا؟ اس پر تمام حضرات کی متفقہ رائے تھی کہ آر پی او ایماندار ہے مگر وہ بالکل خا موش رہتا ہے۔ لاہور اور پشاور میں تعیّنات سینئرسول سرونٹس کی یہ باتیں بلا جواز نہیں ہیں کہ دونوں صوبوں میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں ہے سرکاری محکموں میں نہ آج تک اتنی کرپشن دیکھی ہے اور نہ ہی اس طرح کی بدترین گورننس آج تک دیکھنے میں آئی ہے۔
دھرنا اور معاہدہ
آقائے دو جہاں نبی کریمﷺ کے حیاتِ طیّبہ پر بے شُمار کتابیں پڑھی ہیں، ان کی روشنی میں یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ راستے بند کرکے لاکھوں انسانوں کی مشکلات اور تکالیف میں اضافہ کرنے والے رسالت مآبؐ کے عاشق تو کیا، سچّے پیروکار بھی نہیں ہیں۔
بے گناہ مسافروں کی کاریں اور موٹر سائیکل تباہ کرنے والے، دکانداروں کی پراپرٹی جلانے والے اور اپنے فرائض سرانجام دینے والے پولیس اہلکاروں پر سیدھی فائرنگ کرکے انھیں شہید کرنے والے رحمت اللعالمینؐ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کرتے رہے مگر کسی بڑے نے انھیں روکا تک نہیں۔ اگر پولیس کے شہداء کا خون بیچا گیا تو آیندہ کوئی پولیس افسر کھڑا نہیں ہوگااور لڑکھڑاتی ہوئی ریاست مزید کمزور ہوکر اپنا جواز کھودے گی۔
پولیس ملازمین کے قاتلوں کو عبرتناک سزا ملنی چاہیے اور تباہ کی جانے والی پراپرٹی کا معاوضہ فسادیوں سے وصول کیا جاناچاہیے مگر وہ نااہل حکومت سے کیا امیّد کی جاسکتی ہے۔