Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Zulfiqar Ahmed Cheema
  3. Afat Zadgan Ke Zakhmo Par Marham Rakhen

Afat Zadgan Ke Zakhmo Par Marham Rakhen

آفت زدگان کے زخموں پر مرہم رکھیں

خیبر پختونخوا کے اضلاع بونیر، شانگلہ باجوڑ اور سوات میں ایسی ہولناک قیامت ٹوٹ پڑی ہے کہ جس کا تصوّر بھی دل دہلادینے والا ہے، سیلاب پہلے بھی آتے رہے ہیں مگر اس بار جو آسمانی عذاب نازل ہوا ہے، یہ نہ کسی نے پہلے دیکھا تھااور نہ ہی اس کی ہولناکیوں کا کوئی اندازہ کرسکتا تھا۔ بادل ٹوٹنے سے پانی ایسے برسا ہے جیسے کسی بہت بڑے ڈیم کے سارے گیٹ ٹوٹ گئے ہوں۔

عینی شاہد بتاتے ہیں کہ صرف پانی نہیں تھا، پانی کے ساتھ پتھروں اور درختوں کے تنوں کا آمیزہ تھا جس کی مقدار اور رفتار اتنی زیادہ تھی کہ وہ آن کی آن میں بستیوں کو بہا کر لے گیا اور وہاں کے رہائشیوں کو کسی محفوظ جگہ پر پہنچنے کی مہلت ہی نہیں مل سکی۔ شمالی علاقوں کے اس سیلاب نے انسانی المیّے کی ایک طویل داستان لکھ دی ہے۔ اس کے لگائے گئے زخموں سے کئی دھائیوں تک ٹیسیں اٹھتی رہیں گی اور المناک کہانیاں سینہ بہ سینہ اگلی نسلوں تک منتقل ہوتی رہیں گی۔

باپ کام پر گیا ہوا ہے، اس نے واپس آکر دیکھا تو نہ اس کا گھر بچا تھا اور نہ گھر والے۔ بے رحم سیلاب کی لہریں سب کچھ بہا کر لے گئی تھیں۔ ماں سودا سلف لینے دکان پر گئی ہے، ایک دم پانی چڑھ آیا تو وہ گھبرا کر دوڑتی ہوئی گھر پہنچی تو اس وقت تک سیلاب کی مہلک لہریں اس کے پانچوں بچوں کو نگل چکی تھیں۔ ہمارے بھائیوں اور بہنوں کو اتنی بڑی آزمائش کا سامنا ہے کہ جس کا ذکر بھی پڑھنے اور سننے سے کلیجے پھٹ جاتے ہیں اور روح تڑپ اٹھتی ہے۔

ایک گھر کے تیرہ افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ جو ایک شخص زندہ بچا ہے۔ وہ بھی کہنے کی حد تک زندہ ہے ورنہ وہ بھی ایک زندہ لاش ہے۔ ایک شخص کی فیمیلی کے 42 ارکان چند منٹو ں میں موت کی وادی میں جا پہنچے ہیں۔ بچ جانے والے کا کچھ بھی نہیں بچا۔ اس لیے زندگی اس کے لیے ایک روگ سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ اس بات پر دکھی ہے کہ میں کیوں بچ گیا۔ میں بھی گھر والوں کے ساتھ ہی کیوں نہیں چلاگیا۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو چل رہی ہے کہ یہ بونیر کا وہ بدقسمت گاؤں ہے جہاں ایک ہی فیمیلی کے 38 افراد عمارت گرنے سے ملبے تلے دب کے ہلاک ہوگئے کچھ کی لاشیں مل گئی ہیں مگر زیادہ تر کی لاشیں بھی نہیں مل سکیں۔ آن کی آن میں سیکڑوں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ کوئی گھر ایسا نہیں جہاں سے لاشیں نہ اٹھائی گئی ہوں۔

بے شمار گھر ایسے ہیں جہاں لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نہیں بچا۔ پختہ مکانات میں رہنے والے خوشحال لوگ اپنی ہر چیز سے محروم ہوکر کنگال ہو گئے ہیں۔ ایک غمزدہ بچّہ ریسکیو کارکن کے گلے لگ گر روتے ہوئے بتارہا ہے کہ "میری امی، والد، بھائی، بہنیں، سب سیلاب میں بہہ گئے ہیں۔ ماں کو آخری بار دیکھا تو کوئی اشارہ کررہی تھی، یا خداحافظ کہہ رہی تھی، یا پانی سے دور چلے جانے کا اشارہ کررہی تھی" یہ کہہ کر وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ربّ العالمین سے التجا ہے کہ ہمارے مصیبت زدہ بھائیوں کے گہرے زخموں پر اپنی رحمت کے مرہم رکھ دے اور ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمادے۔

ملک کے کسی حصّے میں بھی ہمارے ہم وطن مصیبت میں ہوں تو پوری قوم کا فرض ہے کہ ان کا درد محسوس کرے اور انھیں ہر قسم کی امداد فراہم کرے۔ اس ضمن میں"الخدمت فاؤنڈیشن" بلاشبہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کے بے لوث کارکن رحمت کے فرشتوں کی طرح فوری طور پر پہنچتے ہیں اور مصیبت زدگان کے زخموں پر مرہم رکھتے ہیں۔

ملک کی یہ واحد تنظیم ہے جسے نہ ستائش کی تمنّا ہے اور نہ صلے کی خواہش ہے، جس کا ہدف کوئی تمغہ یا میڈل یا عالمی نوبل انعام نہیں بلکہ اس کے کارکن صرف اور صرف ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہوکر کام کرتے ہیں اور ان کا ہدف صرف اللہ کی خوشنودی ہے۔ اگر اس ملک میں کبھی لوگوں کی صحیح خدمات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے میرٹ پر سول ایوارڈ دیے گئے تو الخدمت کے ڈاکٹر حفیظ الرحمن، عبدالشکور اور وقاص جعفری ہلالِ امتیاز کے حقدار قرار پائیں گے اور حکمران خود جا کر انھیں درخواست کریں گے کہ اگر آپ یہ ایوارڈ قبول کرلیں تو ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز ہوگا۔

بونیر، شانگلہ اور باجوڑ میں پاک فوج کے جوان اور 1122 کے کارکن بھی پہنچ چکے ہیں اور ان کے علاوہ الخدمت کے کارکن بھی مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کے لیے پہنچے ہوئے ہیں۔ امدادی آپریشن کے دوران الخدمت کے ایک پرجوش کارکن ظہور احمد خود جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت قبول فرمائیں اور ان کے درجات بلند فرمائیں۔

ہمارے ملک میں قدرتی آفات آتی رہتی ہیں لیکن ہر بار ان سے اس قدر نقصان ہوتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ ان سے نپٹنے یا بچنے کی کوئی تدبیر نہیں کی گئی۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر بے شمار سیمینار ہوتے رہتے ہیں، اس کی ایک علیحدہ اور مکمل وزارت بھی موجود ہے۔ کیا اس وزارت کی طرف سے ان علاقوں کی انتظامیہ کو حفاظتی انتظامات کرنے کے لیے کوئی ہدایت یا وارننگ بھیجی گئی تھی؟ اگر نہیں بھیجی گئی تو اس کوتاہی پر متعلقہ حکام کے خلاف کاروائی ہونی چاہیے۔ اگر بھیجی گئی تھیں تو متعلقہ اضلاع کے حکام کے خلاف بھی تادیبی کاروائی ہونی چاہیے۔

انتظامیہ کی امدادی ٹیموں کی بے سروسامانی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ حکومت نے ہر ضلع کو ضروری سامان سے لیس کیوں نہیں کیا۔ سیلاب میں پھنسے ہوئے لوگوں کو بچانے کے لیے کبھی کوئی کشتی نظر نہیں آتی۔ حالانکہ پھنسے ہوئے افراد کو نکالنے کے لیے سب سے مفید اور موثر ذریعہ کشتی ہے۔

اس کے علاوہ ماہر تیراک بھی لوگوں کی جانیں بچا سکتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور الخدمت جیسی تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ سیلاب سے لوگوں کو بچانے کے لیے جدید قسم کی کشتیاں خریدیں یا اپنی ضرورت کے مطابق تیار کروائیں۔ اس کے علاوہ اپنی ٹیموں میں ماہر تیراک بھرتی کریں۔ جس طرح ڈی سی اور اے سی آفس میں الیکٹریشن یا مالی کی اسامیاں ہوتی ہیں، اسی طرح ماہر Swimmer یا Life saver کی آسامیاں پیدا کی جائیں اور اس کے لیے ایسے Life savers کو بھرتی کیا جائے جو طوفان میں بھی لوگوں کو بچالیں اور کنارے تک پہنچا سکیں۔

ایمرجنسی حالات کے پیشِ نظر اِس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پارلیمنٹ اپنا معمولی کا بزنس معطل کردے اور تمام پارٹیوں کے وفود متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے اُن پر گزرنے والی قیامت کا مشاہدہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ حکومت ہر ایم این اے کے ترقیاتی فنڈوں میں سے پچیس فیصد سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے مخصوص کردے۔ ہر پارٹی اپنا فرض سمجھے کہ وہ ریلیف گڈز اور دوائیوں کے کم از کم پانچ ٹرک متاثرہ علاقوں میں ضرور بھجوائے۔ اس وقت تو لٹے پٹے افراد کی دلجوئی کے لیے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے حافظ نعیم الرّحمن اور ان کے کارکن ہی نظر آتے ہیں، باقی پارٹیاں کہیں نظر نہیں آرہیں۔

ایک صحافی نے بونیر کے ایک غمزدہ شخص سے پوچھا کہ "آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟" تو اپنے تباہ شدہ مکان کے ملبے پر کھڑے غیرت مند پٹھان نے جواب دیا "سوال تو میں صرف اپنے اللہ سے کروں گا۔ باقی حکّام کو خود معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں جن کا کچھ بھی نہیں بچا، انھیں کس چیز کی ضرورت ہے" اس سلسلے میں میں نے اپنے ذرائع سے بھی پتہ کیا ہے اور متعلقہ حکام کا بھی یہی خیال ہے کہ فوری طور پر ان کے لیے خوراک اور راشن، یعنی آٹا، چاول، دالیں، گھی، بسکٹ، کھجوریں اور خشک میوہ جات پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ کئی جگہوں پر آنکھوں کے اور معدے کے امراض پھوٹ پڑے ہیں اس کے لیے دوائیاں بھی بھیجنے کی ضرورت ہے۔ وہ تمام فلاحی تنظیمیں لائقِ تحسین ہیں جو مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے کھانا پکا کر لے جارہی ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر ہیوی مشینری پہنچائے تاکہ پتھروں اور ملبے کو ہٹا کر لاشوں اور زخمیوں کو نکالا جاسکے، اس کے علاوہ بڑے بڑے دعوے کرنے والی حکومتیں اور تنظیمیں آگے آئیں جو ان کے لیے نئے (چاہے سادہ سے ہوں) مکانات کی تعمیر کا کام شروع کریں۔ خوشحال فیمیلیز ایک مہینے میں جتنے پیسے ہوٹلنگ پر خرچ کرتے ہیں، وہی آفت زدہ بھائیوں اور بہنوں کی امداد کے لیے وقف کردیں۔ ہم سب پر لازم ہے کہ ہم بے حسی کی چارد اتاریں اور آگے بڑھ کر آفت زدہ بھائیوں کو گلے لگائیں اور ان کے زخموں پر مرہم رکھیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan