اعلیٰ عدلیہ میں تقرری کا بہتر طریقہ کار
مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایک سابق چیف جسٹس کے بارے میں لکھے جانے والے کالم کی اس قدر پذیرائی ہوگی۔ راقم کے پچھلے کالم کو ملک کے اندر اور باہر ہر طبقۂ فکر کے لوگوں نے اتنی گرمجوشی کے ساتھ سراہا کہ جیسے ان کے دل کی بات لفظوں میں ڈھل گئی ہو۔
سپریم کورٹ کے ایک سابق جج صاحب نے فون پرکہا کہ "میں اس بات کی تائید کرتا ہوں کہ میرے کولیگ ثاقب نثار صاحب بطور چیف جسٹس اہم مقدمات میں میزانِ عدل کا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور یہ بھی درست ہے کہ وہ منصبِ قضاء کے معیار پر پورا نہ اُترسکے"۔ بہت سے سینئر وکلاء اور ریٹائرڈ جج صاحبان نے فون پر اور پیغامات کے ذریعے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق چیف جسٹس کا حلف اُٹھا کر اپنی فیمیلی کے ساتھ وزیرِاعظم کے ساتھ تصویریں بنوانا منصبِ قضاء کے تقاضوں اور عدلیہ کی اعلیٰ روایات کے منافی تھا"۔
دو ریٹائرڈ جج صاحبان نے راقم کی توجّہ اس جانب مبذول کرائی کہ آئین کے آرٹیکلز 62اور 63کا اصل مدّعا، بدکاری، شراب نوشی اور رشوت خوری میں ملوّث افراد کو پارلیمنٹ اور امورِ مملکت سے باہر رکھنا تھا۔ کھوسہ صاحب اِن آرٹیکلز کے ویسے ہی خلاف تھے وہ خود اپنے فیصلے میں لکھ چکے تھے کہ انتخابی امیدواروں پر آرٹیکلز 62 اور 63 کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا مگر نوازشریف کے معاملے میں ان کا اپنے ہی فیصلے سے رجوع کرکے غیر معمولی یُو ٹرن لینا اور صرف ایک شخص پر اِن آرٹیکلز کا اطلاق کرکے اُسے کسی خاص مدّت کے لیے نہیں بلکہ پوری عمر کے لیے نااہل قرار دے دینا ایسا حیرت انگیز فیصلہ تھا جس کے پیچھے یقیناً غیر معمولی عوامل کار فرما تھے۔
کچھ قارئین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر وزیرِاعظم کسی غیر حقدار شخص کو ہائیکورٹ کا جج مقرر کرتا ہے تو وہ احسان نہیں بلکہ میرٹ کی خلاف ورزی ہے، میں یہ بات کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں۔ فیصلہ کرنے والے حکمرانوں کا ایسا اقدام beneficiaries پر تو احسان ہوتا ہے مگر میرٹ کے منافی تقرّر کرنا عدلیہ اور ملک کے لیے ضرررساں ثابت ہوتاہے۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مختلف وزرائے اعظم نے اعلیٰ عدلیہ میں تقرّری کے وقت میرٹ کو نظر انداز کرکے قابلیّت کے بجائے سفارش، ذاتی تعلّق اور وفاداری کی بناء پر تقرریاں کیں۔
ملک کے پہلے منتخب وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی اعلیٰ عدلیہ میں تابعدار قسم کے جج چاہتے تھے اور باضمیر اور independent ججز کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ انھوں نے لاہور ہائیکورٹ میں سب سے سینئر جج صاحب کو نظر انداز کرکے ساتویں اور آٹھویں نمبر والے جج کو چیف جسٹس مقرّر کیا اور اپنی آزادانہ رائے استعمال کرنے والے ایک انتہائی قابل جج سردار محمد اقبال کو فارغ کرنے کے لیے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو بدل ڈالا اور اس میں پے دررپے ترامیم کے پیوند لگادیے۔
اُس وقت جسٹس حمودالرّحمن جیسا بلند قامت شخص چیف جسٹس آف پاکستان تھا، اس لیے وہ عدلیہ کو کسی حد تک بچانے میں کامیاب رہا۔ مگر محترمہ بے نظیر بھٹو نے تو میرٹ کو تہس نہس کرتے ہوئے پارٹی کے جیالوں کو ہائیکورٹ کا جج بنادیا۔ حتّٰی کہ قتل کے مقدمات میں نامزد ملزمان بھی ہائیکورٹ کے جج بن گئے۔
اُس وقت تمام باشعور پاکستانی پریشان تھے کہ منصف تو غیر جانبدار ہونے چاہئیں مگر فیصلوں کا اختیار اگر ایک پارٹی کے ورکروں کے ہاتھ آگیا تو اس کے کس قدر بھیانک نتائج نکلیں گے، مگر خالقِ کائنات کے اپنے منصوبے ہوتے ہیں اور وہ اس کے لیے ایسے راستے نکالتا ہے جو دنیا کے منصوبہ سازوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔
قدرت نے پاکستان کی عدلیہ کو نامناسب عناصر سے پاک کرنے کا کام اُسی پارٹی کے ایک پسندیدہ شخص اور زرداری صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے والے جسٹس سجّاد علی شاہ سے لیا جنھوں نے مرحوم وہاب الخیری کی پیٹیشن پر ایک تاریخ ساز فیصلہ کیا جس کے تحت تمام جیالے جج فارغ کردیے اور یہ بھی طے کردیا کہ متعلقہ عدالت کے سینئر موسٹ جج کو ہی چیف جسٹس مقرّر کیا جاسکے گا۔
1996میں کیے گئے اس فیصلے میں اعلیٰ عدلیہ میں جج مقرر کرنے کے ضمن میں حکومت کا عمل دخل بھی ختم کردیا گیااور گورنر اور وزیرِ اعظم کے اختیارات ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کو تفویض کردیے یعنی چیف جسٹس نے یہ فیصلہ کیا کہ "اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی بھرتی اب ہم خود کیا کریں گے"۔
اگر سابق چیف جسٹس سجّاد علی شاہ ذاتی مفاد سے بلند ہوکر فیصلے کا اطلاق اپنے اوپر بھی کرتے اور خود سبکدوش ہوجاتے (کہ وہ خود سینیاریٹی میں چوتھے نمبر پر تھے) تو ہمیشہ کے لیے اَمر ہوجاتے اور ان کا نام جسٹس کارنیلیس اور جسٹس حمّود الرحمٰن کے ساتھ لیا جاتا مگر وہ ہَوسِ جاہ کے اسیر ہوکر رہ گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے اپنے برادر ججوں نے ہی انھیں نکال پھینکا اور وہ نہ اپنا منصب بچاسکے اور نہ عزّت۔
حکومت سے ججوں کی تقررّی کا اختیار لے لینا کوئی غیرمناسب اقدام نہیں تھا، مگر اس اقدام کی تعریف و تحسین تب کی جاتی، اگر اس فیصلے کے بعد ججوں کی تقرریاں میرٹ اور انصاف کے مطابق کی جاتیں۔ مختلف ہائیکورٹس (خصوصاً پنجاب اور سندھ) میں بھی کہیں کہیں میرٹ کو نظرانداز کیا گیا، اقرباء پروری اور برادری ازم بھی دیکھنے میں آئے۔ کچھ معروف وکلاء کے چیمبرز سے تعلّق رکھنے والے وکلاء کو بھی جج مقرر کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا، جسکے نتیجے میں عدلیہ عوام کا اعتماد کھو بیٹھی۔ آج نہ صرف قانونی حلقے بلکہ عوام بھی اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقررّی کے موجودہ نظام سے بھی نالاں نظر آتے ہیں اور اس میں فوری تبدیلی چاہتے ہیں۔
اس ملک کے باشعور شہری یہ سمجھتے ہیں کہ یہ غریب قوم اپنا پیٹ کاٹ کر سب سے زیادہ تنخواہیں اور مراعات جج صاحبان کو دے رہی ہے اس لیے جج صاحبان کے فیصلے اتنے شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں کہ کوئی اُن پر انگلی نہ اُٹھا سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہائیکورٹس میں ججز کے تقرری کا ایک ایسا شفاف طریقۂ کار ہو جس کے تحت مالی اور اخلاقی طور پر بے داغ اور اعلیٰ ترین ذہانت و کردار کے حامل افراد ہی منصبِ قضا پرفائز ہوسکیں کیونکہ ان کے فیصلوں کے اتنے دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں کہ جس سے ملک کی چولیں بھی ہِل سکتی ہیں اور قوم کی تقدیر سنور بھی سکتی ہے۔
میں جانتا ہوں کہ موجودہ حکومت اپنے تمام وسائل اور ساری توانائیاں صرف اپنی بقاء (survival) کے لیے صرف کررہی ہے، اسے عدلیہ یا پولیس میں کسی قسم کی اصلاحات میں کوئی دلچسپی نہیں مگر میں دردِ دل رکھنے والے پاکستانیوں، قانونی حلقوں اور پڑھے لکھے قارئین کو Sensitise کرنے کے لیے اعلیٰ عدلیہ میں تقررّی کی تجاویز پیش کررہا ہوں۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری صاحب سمجھتے تھے کہ وکلاء نے تحریک چلا کر انھیں اپنے عہدے پر بحال کرایا تھا لہٰذا وہ وکلاء کو اپنا محسن سمجھتے تھے۔ اس لیے ان کے دور میں بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلوں کے عہدیداروں کو جج مقرر کرنے کا رجحان بڑھا تھا مگر اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جو وکلاء الیکشن کے لیے دوسرے وکلاء سے ووٹ مانگتے ہیں اور ان کے زیرِ احسان ہوتے ہیں، ان کے لیے جج بن کر اپنے تعلقات اور دوستیوں کو فراموش کرنا اور غیر جانبدار بننا ممکن نہیں ہوتا۔
اس لیے سیاست میں حصّہ لینے والے وکیل کبھی اعلیٰ پائے کے جج ثابت نہیں ہوئے، وہ جج صاحبان جو آمریّت کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہوئے، جنھوں نے عوام کے بنیادی حقوق کی پاسداری کی اور landmark فیصلے لکھے، جن میں جسٹس کارنیلیس، ایم آر کیانی، شفیع الرحمان اور جسٹس صمدانی جیسے قابل اور باضمیر جج قابلِ ذکر ہیں، وکلاء میں سے نہیں تھے بلکہ وہ ICSیا سول سروس آف پاکستان میں سیلیکٹ ہوئے اور بعد میں اُس وقت کے قانون کے مطابق عدلیہ میں شامل ہوگئے۔
لہٰذا اِن حقائق اور شواہد کے پیشِ نظر میری دانست میں سول سروس اور پولیس سروس آف پاکستان کی طرز پر جوڈیشل سروس آف پاکستان قائم کی جائے، جس کے لیے قانون کی ڈگری رکھنے والے نوجوان مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد سینئر سول جج کے طور پر منتخب کیے جائیں اور بیس بائیس سال کی نوکری کے بعد انھیں ہائیکورٹ کا جج مقرر کیاجائے۔ ہائیکورٹس میں پچاس فیصد اسامیاں جوڈیشل سروس آف پاکستان کے ذریعے پُر کی جائیں۔
سول ججز کے لیے بھی امتحانات کا سلسلہ جاری رہے اور ان میں سے اُن سیشن ججز کو ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا جائے جن کی دیانتداری مسلّمہ ہو۔ ان کا کوٹہ پچّیس فیصد رکھّا جائے اور پچّیس فیصد ججزاُن سینئر اور نیک نام وکلاء میں سے لیے جائیں جنھوں نے کبھی کسی الیکشن میں حصّہ نہ لیا ہو۔ منصبِ قضا پر تعیّناتی کے لیے برطانیہ کے لَیجنڈری جج لارڈ ڈیننگ کے بقول سب سے زیادہ اہمیّت بے داغ اور مضبوط کردار کو دی جانی چاہیے۔
اگر قوم چاہتی ہے کہ ہماری عدالتوں سے انصاف کی کِرنیں پھوٹیں، اور اعلیٰ عدالتیں موثر انداز میں آئین کی پاسبانی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی نگہابی کریں تو پھروکلاء اور جج صاحبان کو کھلے دل کے ساتھ یہ تجاویز قبول کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ پرانی ڈگر سے ہٹنا ذرا مشکل تو ہوتا ہے کہ دانائے راز نے کہا ہے
آئین نَو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں