وزیر اعظم کی ملتان آمد
وزیر اعظم عمران خان 26 اپریل کو ملتان تشریف لا رہے ہیں، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور وفاقی وزراء بھی ان کے ساتھ ہوں گے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق وزیر اعظم وفود سے ملاقات کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کریں گے۔ اچھی بات ہے کہ تین سال بعد سہی وزیر اعظم کو ملتان یاد آیا، جہاں تک ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کی بات ہے تو اب تک ملتان کو کوئی ایک بھی قابل ذکر ترقیاتی منصوبہ نہیں ملا، اقتدار سے پہلے وزیر اعظم نے وسیب کو 100دن میں صوبہ بنانے اور محرومیوں کے خاتمے کے لیے اعلان کیا تھا کہ وسیب میں ٹیکس فری انڈسٹریل زون، موٹرویز اور یونیورسٹیاں قائم کی جائیں گی مگر افسوس کہ نہ ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنا اور نہ موٹروے۔ ستم تو یہ ہے کہ نئی موٹروے کیا بننی تھی پہلے سے موجود سڑکوں کی حالت ابتر ہو چکی ہے جیسا کہ ایم ایم یعنی مظفر گڑھ میانوالی روڈ عمران خان کے اپنے علاقے کی سڑک ہے مگر یہ سڑک لیہ سے کہروڑ اور بھکر سے دریا خان موہنجو دڑو کے کھنڈرات کا نقشہ پیش کرتی ہے، بہت سے حادثات اور بہت سے مریضوں کے ہسپتال پہنچنے سے پہلے فوت ہونے کے واقعات ریکارڈ پر درج ہیں۔
وزیر اعظم نے پچھلے دنوں فاٹا کا دورہ کیا اور سیاحت کے لیے اربوں کے منصوبوں کا اعلان کیا، اسی طرح مری کو بھی یونیورسٹی دی ہے، اچھی بات ہے کہ تمام علاقوں کی ترقی ہونی چاہیے مگر وزیر اعظم کی طرف سے پو رے ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ملک کوکپاس کی صورت میں زرمبادلہ کی صورت میں کثیر آمدنی دینے والے خطہ کو نظر انداز کرنا کسی صورت درست نہیں ہے۔ وزیر اعظم وسیب کی محرومی کی حوالہ خود دیتے رہے ہیں اوریہ بھی کہتے رہے ہیں کہ وسیب کا ہر دوسرا شخص خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ اب وزیر اعظم تشریف لا رہے ہیں تو وسیب کو ٹیکس فری انڈسٹریل زون، موٹرویز اور تحریک انصاف کے منشور کے مطابق صوبے کا اعلان کریں کہ وسیب کے مسائل بڑھ چکے ہیں، لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں، غریب کا پیٹ بیانات سے نہیں روزگار سے بھرے گا اور جہاں تک سول سیکرٹریٹ کی بات ہے تو یہ بھی دیکھئے کہ سول سیکرٹریٹ کے تین سال لولی پاپ دے دئیے گئے اب بھی حالت یہ ہے کہ پچھلے دنوں سول سیکرٹریٹ کے ایک ایڈیشنل سیکرٹری صاحب سے ان کے اختیارات کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے برملا کہا کہ اختیارات تو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔
سول سیکرٹریٹ وسیب کے لوگوں کے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنا ہوا ہے کہ اس سے تحریک انصاف کی نیک نامی میں بھی اضافہ نہیں ہوا۔ ایک بات تو یہ ہے کہ سول سیکرٹریٹ کے پاس نہ تو اختیارات ہیں اور نہ ہی فنڈز۔ مزید یہ کہ سول سیکرٹریٹ کے لیے تعینات ہونے والے افسران بے توقیر ی کا شکار ہیں اور اختیارات کے بغیر ان کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو رہی ہیں، اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ سول سیکرٹریٹ کو ملتان، بہاولپور کے درمیان تقسیم کر کے نہ صرف یہ کہ تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ "آدھا تیتر آدھا بٹیر" والا معاملہ بھی ہوا۔ مزید یہ کہ وسیب سے بہت سے علاقے اس سے کاٹ دئیے گئے۔ جھنگ ملتان کا ملحقہ ضلع ہے، ساہیوال، پاکپتن، ابھی کل کی بات ہے کہ ملتان کے ساتھ تھے اور سرکاری اصطلاح میں ان اضلاع کو بھی جنوبی پنجاب کہا جاتا تھا، میانوالی اور بھکر پہلے علاقے تھے جہاں سرائیکی صوبے کی قراردادیں پاس ہوئیں۔ بغیر سوچے سمجھے ان تمام علاقوں کونکال دیا گیا یہ کہاں کا انصاف ہے؟
خیبر پختونخواہ کے اضلاع ڈی آئی خان اور ٹانک صدیوں سے سرائیکی وسیب کا حصہ ہیں، تہذیبی، ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے ان کا خیبر پختونخواہ سے کوئی تعلق نہیں انگریزوں نے اپنی ضرورت کے تحت ان علاقوں کو صوبہ سرحد کا حصہ بنایا، مولانافضل الرحمن ہر مرتبہ سرائیکی صوبے کے نام پر فریب دیتے رہے اور اب وہاں تحریک انصاف کے امیدوار صوبے کے نعرے پر کامیاب ہوئے، کیا حکومت نے جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ کامنصوبہ پیش کرتے وقت ان کو اعتماد میں لیا؟ یہ معاملات حساس نوعیت کے ہیں اب وزیر اعظم ملتان تشریف لا رہے ہیں تو ان تمام معاملات پر سنجیدگی دکھانے اور ان معاملات کو صوبہ کمیشن کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے۔ صوبہ کمیشن کا یہ کام ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرزسے مشاورت اور مجوزہ صوبے کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کرتا ہے کہ صوبے کا نام کیا ہونا چاہیے اور اس کی حدود کیا ہوں۔ صوبے کو جزوی طور پر آئینی تحفظ بھی حاصل ہے کہ پچھلے دور حکومت میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ صوبے کا بل پاس ہو چکا ہے۔ اب اس کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم کے ساتھ وزیر اعلیٰ بھی تشریف لا رہے ہیں تو میں عرض کرنا چاہتاہوں کہ شاید وزیر مشیر وسیب کے اصل مسائل سے ان کو آگاہ نہ کریں اسی بناء پر کہتا ہوں کہ اعلانات بہت ہوئے مگر حقیقت یہ ہے کہ اب تک وسیب کو کوئی بڑا منصوبہ نہیں ملا، ملتان سکھر موٹروے، پچھلے دور میں مکمل ہوئی، صوبائی حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ 33فیصد بجٹ اور صوبائی ملازمتوں کا حصہ وسیب کو ملے گا مگر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ گزشتہ روز وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اور وزیراعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ اب جنوبی پنجاب کا استحصال نہ ہو گا اور اس کو اُس کی آبادی کے مطابق حصہ ملے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ باتیں سن سن کر کان پک گئے۔ مخدوم ہاشم جواں بخت جن کا تعلق رحیم یار خان سے ہے نے یہ بھی کہا کہ ملازمتوں کے سلسلے میں جنوبی پنجاب کا استحصال ہوا کہ اتنا بڑا صوبہ ایک زون ہے جبکہ سندھ کے دو، کے پی کے کے پانچ، اور بلوچستان کے سات زون ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ملازمتوں کے لیے جنوبی پنجاب کے الگ کوٹے کا قانون پاس کرا رہے ہیں، جب ان سے صحافی نے سوال کیا کہ قانون بنانے میں کتنا عرصہ لگے گا؟ تو ہاشم جواں بخت نے کہاکہ پانچ سال۔