شہدائے نیوزی لینڈ کی برسی
شہدائے نیوزی لینڈ کی برسی کے موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم محترمہ جیسنڈا آرڈرن نے کہا ہے کہ ہمیں مسلم برادری کا ساتھ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ نیوزی لینڈ میں ایک پاگل دہشت گرد کے ہاتھوں مسلمانوں پر جو ظلم ہواوہ کبھی نہیں بھولے گا، میرے الفاظ ہمدردی کے لئے نا کافی ہیں، وہ زخموں کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ مجھے افسوس ہے کہ یہ واقعہ نیوزی لینڈ میں ہوا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کے خیالات قابل قدر ہیں اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ جب یہ حادثہ ہوا اُس وقت امریکہ کے صدر ٹرمپ تھے اور نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے ان کو فون کر کے کہا تھا کہ آپ مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار کریں، اُن کا کہنا اس بناء پر بھی ضروری تھا کہ ٹرمپ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتا تھا، حالانکہ دہشت گردی کا اصل مرکز امریکہ ہے اور دہشت گرد اپنے مخصوص مقاصد کے تحت وہیں پر پیدا کئے جاتے ہیں اوریہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردفیکٹریاں بھی امریکہ میں پائی جاتی ہیں اوردہشت گردی کے سارے تانے بانے امریکہ جا کر ملتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انسانیت پر رحم کیا جائے، امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے مخصوص مقاصد کے تحت انسانوں کو قتل کے لئے استعمال نہ کریں۔
شہدائے نیوزی لینڈ کی برسی کے موقع پر مسجد النور کے سامنے میموریل ڈے کے حوالے سے مرکزی قومی تقریب ہوئی جس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا گیا۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن ایک بار پھر سیاہ لباس میں نظر آئیں، جس کے اوپر انہوں نے روائتی لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔ سامعین سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم آرڈرن نے کہا کہ ہم پر ذمہ داری ہے کہ ہم ایک ایسی جگہ بنیں جیسی ہماری خواہش۔ ایسا نہیں کہ ہم نفرت، خوف اور دوسروں سے ڈر سے متاثر نہ ہوں۔ لیکن ہم ایک ایسا ملک بن سکتے ہیں جو اس بیماری کا علاج ڈھونڈ سکے۔ کیوی وزیراعظم نے کہا کہ دنیا ایک ایسے ہولناک چکر میں پھنس گئی جس سے انتہا پسندی مزید انتہا پسندی کو فروغ دے رہی ہے لیکن اس کا مقابلہ انسانیت سے ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتی تھی کہ کہنے کو کچھ باقی نہیں رہا مگر یہاں السلام و علیکم سننے کو ملا۔ یہ عمل مذاہب کے درمیان خیر سگالی تھا، اچھا شگون تھا۔
یہ بات اپنی جگہ قابل فخر اور قابلِ تعریف ہے، نیوزی لینڈ کی سرکاری تقریب میں قرآن پڑھا گیا، مگر زخم اتنے زیادہ ہیں کہ واقعے کی معمولی یاد سے بھی زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔ تقریب میں سانحہ کے تمام شہداء کے نام پکارے گئے جس سے فضا مزید سوگوار ہو گئی۔ وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کے علاوہ مجمع سے بچ جانیوالے فرید احمد نے بھی خطاب کیا جس کی اہلیہ حسنہ اس حملے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ فرید احمد نے اپنی تقریر میں امن کی اپیل کی اور کہا کہ انہوں نے حملہ آور کو معاف کر دیا۔ میرا ایسا دل نہیں جو آتش فشاں کی طرح پھٹنے کیلئے بے چین ہو۔ مجھے ایسا دل چاہئے جو پیار، محبت، نرمی اور خیال رکھنے والا ہو۔ مسلم کونسل آف کینٹربری کے صدر شگاف خان نے خطاب میں نیوزی لینڈ حکومت کے رد عمل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کے دل میں امید کی کرن ہے۔ اس موقع پربرطانوی گلوکار یوسف اسلام نے نیوزی لینڈ کیلئے امن کا گیت بھی گایا۔ تقریب کے اختتام پر سب نے مل کر کرائسٹ چرچ گیت گا کر شہدا سے اظہارِ یکجہتی کیا۔
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے مثبت طرز عمل نے سب کو متاثر کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے لوگ نیوزی لینڈ کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ نیوزی لینڈ ایک جزیرہ نما ملک ہے جس کا دارالحکومت ویلنگٹن اور سرکاری زبان انگریزی ہے۔ اس کو کیسے تلاش کیا گیا تو تاریخ بتاتی ہے کہ نیوزی لینڈ قوم کی ابتدا اس تلاش کی نظر سے ہوئی جو جیمز کک کے جہاز ایچ ایم بارک اینڈ یورپر تھی جسے جیمز کک کی کمان کے تحت سائنسی دریافت کے پہلے کمیشن سفر پر برطانیہ سے روانہ کیا گیا۔ 7 اکتوبر 1769ء قریب دوپہر دو بجے جیمز کک کے جہاز کے ایک لڑکے نکولس ینگ نے اونچی پہاڑیاں دیکھیں اور کک کو بتایا، اس دریافت پر کک نے اس جگہ کا نام ینگ نک ہیڈ رکھ دیا۔ 9 اکتوبر 1769ء کو کک اور اس کے آدمیوں نے اس نئے دریافت شدہ مقام پر قدم رکھا جو آج کا نیوزی لینڈ کہلاتا ہے۔ وہان مقامی طور پرمائوری بستے ہیں جنہیں نئی زندگی کی ہوا نہیں لگی تھی۔ کک دو دن اپنے آدمیوں کے ساتھ اپنے جہاز کے راشن اور پانی کیلئے اس علاقے میں گھومتا رہا۔ یہاں اس کی ملاقات مائوری سردار سے ہوئی لیکن کچھ غلط فہمی کی بنیاد پر کک کے آدمیوں کی جانب سے مائوری قتل کر دیئے گئے اور کک کو راشن کے بغیر یہاں سے جانا پڑا۔ یہ واقعہ ایک خلیج میں پیش آیا جس کے باعث اس کانام پاورٹی بے پڑا۔ اس کے بعد کک نے اپنا جہاز دائرے کی صورت میں اس زمینی علاقے کے گرد گھمایا اور اس ملک کا پہلا سمندری نقشہ مرتب کیا۔ 6 ماہ کی مدت میں بنایا گیا تفصیلی نقشہ آج بھی مانا جاتا ہے اور دنیا کے نقشے پر نیوزی لینڈ کو ظاہر کرتا ہے۔
پچھلے دنوں سرمایہ کاری بورڈ کے چیئرمین سردار تنویر الیاس ملتان آئے ہوئے تھے، ایک تقریب میں گفتگو کے دوران کہاکہ جب تک انتہا پسندی، دہشت گردی اور عدم برداشت ختم نہ ہو گی دنیا میں امن قائم نہ ہو سکے گا، اس موقع پر انہوں نے دنیا کے حکمرانوں میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو موجودہ عہد میں دنیا کی خاتون اول قرار دیتے ہوئے ریسرچ سکالروں کو دعوت دی کہ وہ ایسی خاتون کے بارے میں جانیں کہ وہ کیا ہیں کہ آج دنیا کو امن اور امن پسند حکمرانوں کی ضرورت ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے ذاتی کوائف جاننے سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسنڈا آرڈن کا پورا نام جیسنڈا کیٹ لاریل آرڈن ہے۔ 26 جولائی 1980ء میں ہیملٹن میں پیدا ہوئیں۔ جیسنڈا خود کو سماجی جمہوری اور ترقی پسند مانتی ہے، وہ دنیا کی سب سے کم عمر خاتون سربراہ ریاست رہیں، انہوں نے 37 سال کی عمر میں وزارت عظمی کی کرسی سنبھالی۔ اگر سیاسی تاریخ پر غور کریں تو وہ یکم اگست 2017ء سے لیبر پارٹی کی رہنما ہیں۔ آرڈن 8 مارچ 2017ء کو انتخابی حلقے ماؤنٹ البرٹ سے رکن پارلیمان منتخب ہوئی تھیں۔ 2018ء کے عام انتخابات کے بعد وہ ایوان نمائندگان میں لسٹ رکن پارلیمان کے پر منتخب ہونیوالی پہلی فرد ہیں۔۔ انسانیت سے پیار کرنے والے سب لوگ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی انسان دوستی سے خوش ہیں اور اُن کو سلام پیش کرتے ہیں۔