سینیٹ میں سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی
سابق وزیر ا عظم سید یوسف رضا گیلانی اسلام آباد کی سینیٹ نشست سے کامیاب ہوگئے۔ پی ڈی ایم کے امیدوارسید یوسف رضا گیلانی کو169 اور حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کو 164ووٹ ملے۔ سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا جونہی اعلان ہوا ملتان میں جشن منایا گیا، کامیابی پر منائے گئے جشن میں جیالوں نے ڈبل پھاٹک چوک اور دیگر چوراہوں پر بھنگڑے ڈالے، گیلانی ہائوس میں آتش بازی کا مظاہرہ کیا۔ کامیابی کا جشن منانے میں (ن) لیگ پیش پیش تھی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور اُن کے بیٹے کا اغواء ہوا تو وسیب کے لوگ مایوسی کا شکار تھے، غم اور سوگ کی کیفیت تھی، عرصے بعد اہل ملتان اور وسیب کو ایک اچھی خبر ملی، جس پر وسیب کے لوگوں کی شادمانی اور خوشی دیدنی تھی۔ سید یوسف رضا گیلانی اپوزیشن کے امیدوار تھے لیکن میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ ملتان کے بہت سے نوجوان جنہوں نے تحریک انصاف کوووٹ دیا اور اب بھی اُن کی ہمدردیاں عمران خان کے ساتھ ہیں، مجھے آف دی ریکارڈ بتایا کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی سے دلی خوشی اور راحت ہوئی ہے اور روحانی سکون ملا ہے۔ یہ وسیب کی عمومی کیفیت تھی جس کے بارے میں بتانا ضروری تھا۔ اب یوسف رضاگیلانی کا امتحان شروع ہے کہ وہ ان خوشیوں کو کس طرح حقیقت کا روپ دیتے ہیں اور لوگوں کی امیدوں پرکس طرح پورا اترتے ہیں۔
سید یوسف رضاگیلانی کی کامیابی پر وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہاکہ نوٹوں کی چمک جیت گئی جمہوریت ہار گئی، اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کو چیلنج کیا جائے گا، جبکہ اپوزیشن کا یہ کہنا ہے کہ اس الیکشن میں ووٹ کو عزت ملی اور غیر جمہوری قوتوں کو شکست ملی۔ حفیظ شیخ کے پاس خزانے کا منصب ہے اور وہ اہم حکومتی عہدیدار ہیں۔ مخالفین اُن کو آئی ایم ایف کا نمائندہ بھی کہتے ہیں جبکہ اعتراض کرنے والے یہ حقیقت فراموش کر دیتے ہیں کہ حفیظ شیخ پیپلز پارٹی کے دور میں بھی حکومت کے اہم منصب پر فائز تھے۔ ان کا شمار معاشی ماہرین میں ہوتا ہے، یہ ٹھیک ہے کہ اُن کا بہت بڑا سیاسی پس منظر نہیں ہے مگر وہ ذاتی طور پربہت قابل اور اچھے انسان ہیں۔ ان کو سندھ اور سرائیکی وسیب میں بہت احترام حاصل ہے کہ وہ شریف اور خاندانی آدمی ہیں، میرے شہر خان پور سے بھی ان کی رشتے داریاں ہیں اُن کی لیاقت اور شرافت کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ کامیابی کے بعد وہ مبارکباد دینے کے لئے سید یوسف رضا گیلانی کے پاس چل کر گئے اُن کو جھک کر سلام کیا اور اُن سے بغل گیر ہوئے۔ جمہوریت میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے اور اس کو کسی بھی صورت انا کا مسئلہ نہیں بنا نا چاہیے۔
سید یوسف رضا گیلانی کامیابی کا کریڈٹ یقینا پی ڈی ایم کے پاس ہے مگر اس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے سیاسی کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ آصف زرداری کی کامیابی میں مفاہمت کی سیاست کو بہت دخل حاصل ہے، بذات خود یوسف رضا گیلانی بھی مفاہمت کی سیاست کرتے ہیں اور اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی انہوں نے مفاہمت کی سیاست کو پروان چڑھایا، اور آج یہی بات ان کے کام آئی اگر برا محسوس نہ کریں تو عمران خان آج بھی مزاحمت کی سیاست کر رہے ہیں وہ آج بھی کنٹینر پر ہیں اور شاید ابھی تک ان کو اس بات پر یقین نہیں آ سکا کہ وہ ریاست کے سب سے بڑے منصب پرفائز ہو چکے ہیں، اُن کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ ضمنی الیکشن میں وہ خیبرپختونخواہ اپنی جماعت کی نشست لوز کر گئے اور سینیٹ میں برتری کے باوجود اپنے امیدوار کو شکست سے دوچار کر ا بیٹھے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ عمران خان کو برسراقتدار لانے میں جہانگیر ترین نے اہم کردار ادا کیا، شوگر سکینڈل کے کچھ کردار اپنی کرسیوں پر براجمان رہے مگر جہانگیر ترین کو ملک چھوڑنا پڑا، حالات کی نرمی کے بعد وہ واپس آئے اور خبروں میں کہا گیا کہ وہ حفیظ شیخ کی حمایت کررہے ہیں مگر ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ یوسف رضا گیلانی کی کامیابی میں جہانگیر ترین کے 12ووٹوں نے اہم کردار ادا کیا۔
عمران خان کو اس پر بھی غور کرنا ہو گا کہ وہ اپنوں کی حمایت سے کیوں محروم ہو تے جا رہے ہیں؟ پاکستان کے 22کروڑ لوگوں کو ریلیف چاہیے آپ کی تلخ باتیں ریلیف نہیں تکلیف کا باعث ہیں، اب باتو ں کی نہیں عمل کی ضرورت ہے۔ غریب کو ریلیف ملنا چاہیے، معاشی پالیسیاں غریب دوست ہونی چاہئیں، پی ڈی ایم کی طرف سے کہا جارہاہے کہ حکومت کی شکست دراصل اقتصادی پالیسیوں کی شکست ہے، حکومت کو اپنے وعدوں کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی، عمران خان بحیثیت اپوزیشن لیڈر جو تقریریں کرتے تھے ان تقریروں پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ عمران خان نے وسیب کے ساتھ 100دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا مگر 900دن گذرنے کے باوجود ابھی تک صوبے کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔ پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب سول سیکرٹریٹ بنایااور ایک سال تک بلند و بانگ دعوے کئے جاتے رہے کہ 16محکمے سول سیکرٹریٹ کو دے کر ان کو با اختیار بنا دیا گیا ہے مگر حال ہی میں محکمہ داخلہ، محکمہ خزانہ، سروسز اینڈ جرنل ایڈمنسٹریشن، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ریگولیشن، قانون اینڈ پارلیمانی اور محکمہ پراسیکیوشن کو ختم کر دیا گیا۔ عمران خان اور عثمان خان بزدار خود بتائیں کہ وسیب کے لوگوں کے ساتھ یہ مذاق نہیں تو کیا ہے؟
سول سیکرٹریٹ کی ایک قباحت یہ بھی تھی کہ اسے ملتان اور بہاولپور کے درمیان تقسیم کرکے ایک طرح سے وسیب میں تفریق پیدا کی گئی جس سے ذہنی فاصلے بڑھے۔ ریاست ماں ہوتی ہے، ریاست کا کام جوڑنا ہے توڑنا نہیں مگر کتنے ستم کی بات ہے کہ ریاست خود ہی صوبوں اور خطوں کے درمیان تفریق پیدا کررہی ہے۔ 6مارچ کو وسیب کا ثقافتی دن ہے مگر حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ سرائیکی بلوچستان کی قدیم زبان ہے اور اب بھی بلوچستا ن کے بہت سے اضلاع اور ڈویژن میں سرائیکی بولی جاتی ہے۔