سانحہ مچھ کے لواحقین کی کون سنے گا؟
سانحہ مچھ پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ عجب بات ہے کہ ہزارہ مزدوروں پر قیامت گزر گئی مگر وزیر اعظم کے پاس پرسہ دینے کا وقت نہیں۔ ایک صدمہ غریب نوجوانوں کو بے دردی کے ساتھ ذبح کر دیئے جانے کا ہے دوسرا یہ کہ وہ پانچ دن سے سردی میں ٹھٹھر رہے ہیں اُن کی کوئی فریاد سننے والا نہیں اور لواحقین کا مطالبہ کوئی اتنا بڑا مطالبہ بھی نہیں اور نہ ہی یہ مطالبہ ناجائز ہے وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم آکر ہمیں یقین دہانی کرائیں کہ انصاف ملے گا۔ وزیر اعظم کا آج کے اخبارات میں بیان شائع ہوا ہے کہ "اپنے پیاروں کی تدفین کریں جلد آئوں گا"۔ اس سے پہلے وزیر مواصلات شیخ رشید نے اس سے بھی بڑا مذاق کیا اور دھرنے میں شامل لواحقین سے جا کر کہا کہ آپ دھرنا ختم کرکے اسلام آباد آئیں اور وزیرا عظم کو ملیں وہ آپ سے تعزیت بھی کریں گے اور آپ کے مطالبے بھی تسلیم کریں گے۔
بلوچستان میں دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں، اس سے پہلے بھی غریب ہزارہ مزدور دہشت گردوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ہزارہ آسان ہدف ہیں اس لیے وہ دہشت گردوں کی زد میں آکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ جس قدر ظلم و زیادتی ہوئی ہے اگر وزیر اعظم کے سینے میں پتھر کا دل نہ ہوتا تو نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم کی طرح پہلے دن جائے حادثہ پر پہنچ چکے ہوتے۔ مچھ میں جو نوجوان بے دردی کے ساتھ ذبح کئے گئے وہ بھی کسی کی اولاد تھے۔ عمران خان کے بھی بیٹے ہیں اُن کو سوچنا چاہئے کہ خدانخواستہ یہ حادثہ ان کے ساتھ پیش آیا ہوتا تو ان کی کیا کیفیت ہوتی؟
ایک بات یہ بھی ہے کہ ہزارہ کی طرح گزشتہ سالوں میں جو جنوبی پنجاب کے مزدور مختلف واقعات میں دہشت گردوں کا نشانہ بنے وہ بھی کسی ماں کے لخت جگر تھے مگر آج تک اُن کو انصاف نہیں ملا اور نہ ہی شنوائی ہوئی۔ اگر اس وقت ایکشن لے لیا گیا ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی۔ ہزارہ والوں کی ہمت ہے کہ وہ احتجاج کرتے ہیں۔ سرائیکی مزدوروں کے قتل پر تو اتنا بھی نہ ہوا۔ اس میں قصور وسیب کی قیادت کا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں غیر بلوچی مزدوروں کے قتل کے واقعات ہوتے آرہے ہیں۔ چند برسوں کے دوران صادق آباد، خانیوال، شہر سلطان، میاں چنوں، راجن پور، ڈی جی خان، روجھان، مظفر گڑھ، خان پورکے سینکڑوں مزدوروں کو پنجابی کا نام دیکر قتل کیا گیا۔ اتنے بڑے ظلم اور بربریت پر وفاقی حکومت، پنجاب اور بلوچستان کی صوبائی حکومتیں بھی خاموش رہیں۔ بلوچستان حکومت مزدوروں کے قتل عام کی براہ راست ذمہ دار ہے، اس پر فرض تھا کہ وہ قاتلوں کو گرفتار کرتی اور مقتولوں کے لواحقین کو انصاف دیتی لیکن چونکہ وسیب کے سیاستدان چاہے وہ جاگیردار ہیں، گدی نشین ہیں یہ کبھی ایوانوں میں بات نہیں کرتے۔ ان لوگوں نے ما سوا جمائی(اُباسی) ایوان میں منہ نہیں کھولا، کبھی انہوں نے ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کی۔ جب کوئی بولے گا نہیں اور احتجاج نہیں ہوگا تو کون کسی کی سنتا ہے؟
گزشتہ شب سرائیکی جماعتوں کی طرف سے سانحہ مچھ میں شہید ہونیوالے ہزارہ مزدوروں کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔ اس موقع پر سرائیکی رہنمائوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل بلوچستان میں ہونیوالی دہشت گردی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور ہزارہ و سرائیکی مزدوروں کے قتل پر کمیشن تحقیقات کرے اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ حکمرانوں کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات کی ذمہ داری بھارت و افغانستان پر ڈال کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ غیر ملکی طاقتیں ملوث ہو سکتی ہیں۔ مودی کے آنے کے بعد پاکستان کے خلاف بھارت کی مذموم کاروائیاں بڑھ چکی ہیں۔ افغانستان کے راستے بھارت ڈبل گیم کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ افغانستان سے صدیوں پرانا بدلہ لے رہا ہے۔ نہرو نے ایک بار کہا تھا کہ افغانستان کے لوگ کرائے کے قاتل ہیں، پیسے لے کر ہر حملہ آور کے ساتھ شامل ہو کر ہندوستان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ پاکستان بنے گا تو ہندوستان کی جان چھوٹ جائے گی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ بھارت افغانیوں کو پاکستان سے الجھا کر ایک طرف افغانستان سے پرانا بدلہ چکا رہا ہے اور دوسری طرف وہ پاکستان سے دشمنی پر کمر بستہ ہے۔
پچھلے دنوں بلوچستان جانا ہوا کوئٹہ میں دوسروں کے علاوہ بزرگ سیاستدان ڈاکٹر عبدالحئی خان بلوچ سے ملاقات ہوئی، میں نے اُن سے دوسرے امور کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں شہید ہونیوالے مزدوروں کی بھی بات کی اس پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ غریب مزدوروں نے کسی کا کیا بیگاڑہ ہے اُن کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے مسئلے پر دانشمند سیاسی رہنماؤں سے مشاورت کرنے اور ان جیسے رہنماؤں کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ بلوچ قوم پرست رہنما ہونے کے ساتھ پسماندہ طبقات کی بھی بات کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ استحکام پاکستان ان جیسے لوگوں کا بنیادی نظریہ ہے کہ یہ لوگ اپنے صوبے کی بات بھی کرتے ہیں، اپنے صوبے کے وسائل صوبے کیلئے مانگتے ہیں، اس کے ساتھ فیڈریشن کو بھی مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ ملاقات میں بتایا کہ بلوچستان میں سرائیکی مزدوروں کو قتل کرنے والے نہ صرف بلوچستان بلکہ انسانیت کے بھی دشمن ہیں۔ بلوچستان نے ہمیشہ کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا اور سب کو اپنی آغوش میں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مزدور، محنت کش ہونا جرم نہیں بلکہ مجرم وہ ہیں جو دولت کی ہوس میں وطن سے غداری کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچوں کو اُن کے وسائل پر اُن کا حق دینے کی ضرورت ہے۔
دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ اپوزیشن قیادت پرسہ دینے کیلئے وہاں گئی، اختر خان مینگل وہاں پہنچے، مگر سوال یہ ہے کہ عمران خان نے کی کوئٹہ آمد میں کیا امر مانع ہے۔