رئیس عدیم اور میر شیر باز خان مزاری کی وفات
ڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے والی دو اہم شخصیات کا انتقال ہوا ہے۔ ایک نامور سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے جاگیردار تھے اور دوسرے نہایت غریب آدمی تھے مگر انہوں نے کام وسیب کے سرداروں، جاگیرداروں، تمنداروں اور بڑے بڑے سیاستدانوں سے بڑھ کر کیا۔ ان کے گھر کی زبان سرائیکی نہ تھی، وہ انڈیا سے پاکستان آئے تھے مگر انہوں نے سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کیلئے وہ گراں قدر ہائے نمایاں خدمات سر انجام دیں جو کسی دوسرے کے حصے میں نہ آئی۔ وہ رئیس عدیم کے نام سے معروف تھے، خود اہل قلم تھے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے " دبستان سحر " کے نام سے علمی ادبی اور اشاعتی ادارہ قائم کیا ہوا تھا۔ کئی سالوں سے علیل چلے آ رہے تھے، کچھ عرصہ پہلے عیادت کیلئے گیا تو انہوں نے یہی شکوہ کیا کہ مجھے اپنی غربت، کسمپرسی اور بیماری کا اتنا دکھ نہیں، اگر دکھ ہے تو اس بات کا ہے کہ جن لوگوں کو میرے ادارے نے نام دیا، وہ مجھے پوچھنے تک نہیں آئے۔ پچھلی رات ڈی جی خان تھا، اکبر خان ملکانی، ریاض عصمت و دیگر موجود تھے، ملک سلیم نے کہا کہ رئیس عدیم کو سب بھول گئے، آج اگر وسیب کا کوئی جاگیردار، تمندار سیاستدان فوت ہو جائے تو سب کالم لکھیں گے۔
سب سے پہلے میں رئیس عدیم کا ذکر کروں گا کہ رئیس عدیم نے اپنی سوچ اور اپنی فکر کے ذریعے وسیب کو بہت کچھ دیا ہے۔ موصوف 24 جولائی 1943ء کو ہندوستان کے شہر کیتھل میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام حفیظ الرحمن تھا اور وہ لکڑی کے بیوپاری تھے۔ قیام پاکستان کے بعد رئیس عدیم کے والدین نے آبائی علاقہ چھوڑا اور دیرہ غازی خان میں آ گے۔ ان کے بچپن میں ہی والد کا انتقال ہو گیا تو گھر معاشی مشکلات کا شکار ہو گیا، معاشی مشکلات کیا ہوتی ہیں؟ یہ بات کوئی غریب یا غریب الوطن سے پوچھے۔ مالی مشکلات کے سبب وقتی طور پر رئیس عدیم کا تعلیمی سلسلہ موقوف کیا اور بڑے بھائی کے ساتھ کام کرنے لگے۔ کچھ مدت بعد اپنی دوکان پاپوش کدہ کے نام سے بنا لی، اسی مقام پر کتابوں کی دوکان دانش کدہ بھی کھول لی۔ کتابوں کی دوکان کیا کھولی گویا پرندے کو اڑنے کا پورا سامان میسر آ گیا، شہر بھر کی علمی و ادبی شخصیات نے دانش کدہ کا رخ کیا اور ادبی محفلیں منعقد ہونے لگیں۔ یہ دیرہ غازی خان کی اپنی نوعیت دوسری ایسی دوکان تھی جہاں پر علمی و ادبی شخصیات جمع ہوتی تھیں۔ رئیس عدیم ترقی پسند حلقہ احباب سے تعلق رکھتے تھے، ان کے پاس بائیں بازو کے ترقی پسندوں کا ہجوم رہتا۔
ادبی محفلوں میں ڈی جی خان کے بڑے بڑے شاعر، ادیب اور دانشور آتے تھے، مضافات کے کچھ اہل قلم انکے ہاں قیام کرتے۔ رئیس عدیم کا محسن نقوی سے تعارف انہی ادبی محفلوں سے ہوا اور یہیں سے رئیس عدیم اور محسن نقوی کی دوستی کا آغاز ہوا، محسن نقوی کی شاعری پر رئیس عدیم کے استاد اعجا ز اکرم نے کی اور کہا کہ محسن بڑا شاعر بنے گا اور ان کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی۔ محسن نقوی حصول تعلیم کیلئے ملتان آ گئے، لیکن ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ کچھ عرصہ بعد محسن نقوی اور رئیس عدیم نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکی اور رئیس عدیم اس وقت کے نمائندہ اخبار مساوات سے منسلک ہو گئے اور صحافت کی دنیا میں قدم رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پبلشنگ کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ انہوں نے دبستان سحر کے نام سے ایسا پودا لگایا جو آج طاقتور ہو چکا ہے اور اسکی چھاؤں میں ادب کے طالب علم راحت محسوس کرتے ہیں۔ رئیس عدیم ایک شخص کا نام نہیں بلکہ صحافت اور ادب کی دنیا میں وسیب کی شناخت اور ایک معتبر حوالے تھے۔ علالت کے باوجود وہ لکھتے رہتے، وہ مجھے اپنی تحریریں بھیجتے اور جھوک کے علاوہ میں دوسرے اخبارات کو بھی بھجوا دیتا، جب کوئی تحریر شائع ہوتی تو بہت خوش ہوتے اور واپسی شکریہ کا مجھے فون بھی کرتے۔
رئیس عدیم کی سرائیکی کے معروف اہل قلم عاشق بزدار، اسلم رسولپوری، اقبال سوکڑی و دیگر سے بہت دوستی تھی، انہوں نے عزیز شاہد سمیت بہت سے سرائیکی شعراء کا کلام شائع کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سرائیکی کے جو شاعر مالی مشکلات کے باعث کتابیں چھاپنے کی قدرت نہیں رکھتے تھے، ان کی کتابیں رئیس عدیم نے چھاپیں اور ان شعراء کو گمنامی کے اندھیروں سے شہرت کی روشنی میں لے آئے۔ اگر یہ کہا جائے کہ رئیس عدیم سرائیکی کے محسن ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنے استاد اعجاز اکرم کی شاعری کی ایک کتاب " گرد و الم " شائع کی اور وہ اس کا بھی اظہار کرتے تھے کہ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اگر میں اپنے کالموں کو اکٹھا کروں تو بہت سی کتابیں شائع ہو سکتی ہیں، لیکن میں اپنی خواہشات کو دوسروں کی خوشی پر قربان کرتا ہوں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ذکر ہو رہا تھا کہ کوئی بڑا آدمی فوت ہو جائے تو سب وہاں پہنچیں گے اور لکھنے والے ان کیلئے کالم بھی لکھیں گے۔ اس دوران اطلاع ملی کہ پاکستان کے معروف سیاستدان اور سابق اپوزیشن لیڈر شیر باز خان مزاری گزشتہ روز انتقال کر گئے، انہوں نے آئین کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی اہم سیاسی شخصیات میں شامل شیر باز خان مزاری سابق نگران وزیراعظم میر بلخ شیر مزاری کے بھائی اوربلوچ قوم پرست رہنما اکبر بگٹی کے بردار نسبتی تھے۔ ان کی عمر 90 سال تھی، وہ طویل عرصے سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور کراچی میں تھے۔ مرحوم کی میت آبائی علاقے روجھان مزاری لائی گئی۔ جہاں ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ سوگوران میں بیوہ، 5 بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑی۔ شیر باز خان مزاری 6 اکتوبر 1930ء کو روجھان سٹی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ڈیرہ دون، بھارت میں اور اعلیٰ تعلیم ایچی سن کالج لاہور سے حاصل کی۔
شیر باز خان نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1970ء میں آزاد حیثیت سے رکن اسمبلی کے الیکشن سے کیا۔ دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ وہ فاطمہ جناح کی ایماء پر سیاست میں داخل ہوئے اور صد ایوب کے خلاف الیکشن میں حصہ لیا۔ وہ 1975ء سے 1977ء تک قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف رہے اور آئین پاکستان بنانے میں ان کا اہم کردار تھا۔ انہوں نے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بھی تشکیل دی تھی، شیر باز اس پارٹی کے صدر رہے، نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما رہے۔