ریڈیو ملازمین کے مسائل
ریڈیو پاکستان ملتان کے ملازمین کی تین ماہ قبل عدالت عالیہ کے فیصلہ کے مطابق بحالی کے باوجود انتظامیہ نے جوائننگ نہیں لی اور ملازمین در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ریڈیو پاکستان ملتان میں مختلف کیڈر کے 16ملازمین کو عدالت عالیہ نے 2جولائی 2021ء کو بحال کرنے کے احکامات جاری کئے تھے اور ڈائریکٹر جنرل پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کو ملازمین کو ڈیوٹی پر لینے کے احکامات جاری کئے گئے تھے۔
ملازمین کا کہنا ہے کہ عدالت کے فیصلے کے مطابق ریڈیو پاکستان بہاولپور، راولپنڈی اور سندھ کے مختلف ریڈیو سٹیشنز سے نکالے گئے ملازمین کو وہاں کی انتظامیہ نے جوائننگ لیتے ہوئے انہیں ڈیوٹی پر لے لیا تھا لیکن ریڈیوپاکستان ملتان کی انتظامیہ نے عدالتی فیصلے پر عملدرآمد کی بجائے ملازمین کے ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی۔ ریڈیو پاکستان ملتان کے ملازمین نے عدالت کے فیصلے اور واضح ہدایات کے باوجو د ریڈیو ملتان کی انتظامیہ کی طرف سے انہیں ڈیوٹی پر نہ لئے جانے پر احتجاج کیا ہے۔ حکومت کو عدالت عالیہ کا حکم ماننا چاہئے اور ایک کروڑ ملازمتوں کا وعدہ پورا نہیں کیا جا سکا تو کم از کم لاکھوں ملازمین جو ریڈیو پاکستان سمیت دیگر محکمہ جات سے موجودہ دور حکومت میں برطرف ہوئے کو بحال کیا جانا ضروری ہے۔
ریڈیو کی اہمیت آج بھی برقرار ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں جہاں دوسرے ادارے تنزلی کا شکار ہوئے وہاں ریڈیو پاکستان کی حالت بھی خوشگوار نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ موجودہ ڈائریکٹر جنرل پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کی آمد کے بعد صورتحال کچھ بہتر ہوئی ہے، موصوف ریڈیو ملازمین سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں اور مسائل بھی حل کرنا چاہتے ہیں، ملازمین کے ساتھ ان کا رویہ دوستانہ ہے مگر جب تک وزیر اعظم، وزیر اطلاعات، سیکرٹری اطلاعات اور وزارت اطلاعات کے افسران مل بیٹھ کر ریڈیو پاکستان کی بحالی کا فیصلہ نہیں کریں گے اور ریڈیو پاکستان کو فنڈز حاصل نہیں ہوں گے تب تک مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ پی ٹی وی کی مدد کیلئے لائسنس فیس مقرر ہے اور پی ٹی وی کو ہر ماہ ایک ارب کے لگ بھگ رقم ٹیکس کی مد میں حاصل ہو جاتی ہے مگر ریڈیو کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ ریڈیو کے مقابلے میں پی ٹی وی میں کرپشن اور اقربا پروری کی شکایات زیادہ ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ناظرین پی ٹی وی کی بجائے پرائیویٹ چینلز دیکھتے ہیں۔
میں پرانے وقت کی بات کروں گا کہ سرائیکی وسیب میں ایک بھی ریڈیو اسٹیشن نہ تھا، وسیب کے لوگ ریڈیو کی آواز کو ترستے تھے۔ ان کی تشنگی ریڈیو پاکستان لاہور یا پھر آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے پوری ہوتی۔ وسیب کے ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کے مطالبے پر 1970ء کو ریڈیو پاکستان ملتان کا آغاز ہوا۔ ریڈیو کی پالیسی کے مطابق پروگراموں کی شرح 60 فیصد مقامی زبان میں اور 40 فیصد قومی زبان میں۔ سرائیکی پروگرام کی نشریات سے وسیب میں انقلاب آ گیا۔ پہلے ہم لسنر تھے، دور سے ریڈیو کی آواز سنتے تھے۔ ملتان میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا تو ریڈیو سے وابستگی اور بھی بڑھ گئی، مختلف ادبی پروگراموں کا حصہ بنتے آ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حالت جنگ یا حالت امن میں ریڈیو کی خدمات دیگر ذرائع ابلاغ سے بہت زیادہ ہیں۔ سرائیکی خطہ دریاؤں کی سرزمین ہے، سیلاب اور وسیب کا ایک دوسرے سے چولی دامن کا ساتھ ہے، سیلاب کے دوران جب آبادیاں صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں، لوگ بے گھر اور بے سروساماں ہو کر دور دراز ٹیلوں پر پہنچتے ہیں تو وہاں نہ اخبار ہوتا ہے اور نہ ٹیلی ویژن، وہاں ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے، وہ ہے ریڈیو۔ آج تو سوشل میڈیا کے ذریعے کچھ سہولت ہوئی ہے ورنہ آج سے ایک دو عشرے پہلے یہی کیفیت تھی۔
آج ریڈیو پاکستان کی ابتر حالت ہے۔ ریڈیو ملتان آنے جانے سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ بہت سی چیزوں کی جانکاری ملتی ہے۔ 70ء کے عشرے میں ریڈیو پاکستان ملتان میڈیم ویوز 1035 ایک اسٹیشن تھا اور جملہ سٹاف کی تعداد تقریباً 200 تھی۔ جبکہ آج میڈیم ویوز 1035 کے ساتھ ساتھ ایف ایم 103، ایف ایم 93، ایف ایم صوت القرآن 93.4 یعنی چار اسٹیشن کام کر رہے ہیں اور سٹاف کی تعداد 45 ہے۔ ریڈیو کے چار بنیادی شعبے ہیں جن میں پروگرامز، انجینئرنگ، نیوز سیکشن اور ایڈمن سیکشن شامل ہے۔ حالت یہ ہے کہ چاروں شعبوں میں سٹاف نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریڈیو پاکستان ملتان کے تین اسٹیشن علیحدہ علیحدہ مقامی طور پر پروگرام پروڈیوس اور نشر کرتے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے، تمام کام صدر دفتر کی ہدایات کے مطابق سر انجام دیئے جاتے ہیں۔ صدر دفتر نے ریڈیو پاکستان ملتان میں 30 ملازم کنٹریکٹ پر رکھے ہیں مگر ان کا علیحدہ سے بجٹ نہیں دیا ان کو تنخواہیں پروگراموں کے بجٹ سے کاٹ کر دی جاتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ریڈیو کی پورے ملک میں صورتحال ابتر ہے مگر سرائیکی وسیب کے تمام ریڈیو اسٹیشن سخت مالی مشکلات اور زبوں حالی کا شکار ہیں اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ریڈیو پاکستان ملتان کا قیام انقلاب تھا، ریڈیو پاکستان ملتان نے قومی اور عالمی سطح پر وسیب کے شاعروں کو متعارف کرایا۔ ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کی آواز بنا۔ ریڈیو سے وابستہ بہت سے لوگوں کو روزگار حاصل تھا مگر ریڈیو پاکستان ملتان میں ایک عرصے سے شعبہ موسیقی بند ہے، ادبی پروگرام دھکے سے چلایا جا رہا ہے۔ مشاعرہ، ڈرامہ وغیرہ آج بھی بند ہے۔ پہلے حکومت لاہور کے میاں برادران کی تھی مگرآج مرکز اور صوبے کا اقتدار وسیب کے پاس ہے، مگر سرائیکی وسیب کے اسٹیشنوں میانوالی، بہاولپور، دیرہ اسماعیل خان، سرگودھا اور ملتان وغیرہ پر کوئی توجہ نہیں ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ گزشتہ دورِ حکومت میں ریڈیو پاکستان دیرہ اسماعیل خان کو اپ گریڈ کیا گیا اور ریڈیو پاکستان ملتان میں بھی نئی مشینری لانچ کی گئی مگر فنڈز کی عدم دستیابی سے یہ سب کچھ ناکارہ ثابت ہو رہا ہے۔ آل انڈیا ریڈیو کے پروپیگنڈے کو شکست دینے کیلئے رحیم یار خان میں ریڈیو اسٹیشن کے قیام کی پی پی دور میں منظوری ہوئی تھی مگر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی، گزشتہ شب رحیم یار خان میں وسیب اتحاد کا بہت بڑا جلسہ تھا۔ اس جلسے میں ہزاروں افراد شریک تھے، قرار دادوں میں جہاں وسیب کی شناخت اور حدود پر مشتمل صوبے کا مطالبہ شامل تھا وہاں درجنوں دیگر قرار دادوں کے ساتھ رحیم یار خان میں ریڈیو اسٹیشن کے قیام کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ کیا حکمران اس طرف توجہ دیں گے؟