پی ڈی ایم بحران کی شکار
اسمبلیوں سے استعفیٰ کے مسئلے پر پی ڈی ایم بحران کا شکار ہو گئی اورحکومت کے خلاف لانگ مارچ ملتوی کر دیا گیا۔ گزشتہ روز پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اسلام آباد پریس کانفرنس چھوڑ کر چلے گئے۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ ہمارا شروع سے موقف یہ رہا ہے کہ اسمبلیوں کے اندر رہ کر جنگ لڑی جائے۔ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے ہیں اور حکومت کے خلاف جنگ کا آغاز کرنا ہے تو نواز شریف کو وطن واپس آنا ہو گا اور گرفتاری سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ اس پر مریم نواز نے کہا کہ میرے والد کی زندگی کی گارنٹی کون دے گا؟ اس کا جواب آصف زرداری نے تو نہیں دیا البتہ وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نے کہاکہ زندگی کی گارنٹی تو اللہ کے پاس ہے البتہ نواز شریف واپس آئیں اور مقدمات کا سامنا کریں اُن کے ساتھ انصاف ہو گا۔ سیاسی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہے ہیں، اپوزیشن جماعتوں کا موجودہ بحران پی ڈی ایم کے لیے نیک شگون نہیں ویسے بھی ملک وقوم کی بہتری کے لئے طاقتور اپوزیشن کا ہونا ضروری ہے۔
بحران کی دیگر وجوہات کے ساتھ سینٹ کا الیکشن بھی اند رخانہ وجہ تنازع بنا ہے۔ اتحاد کی وجہ سے سید یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہوئے اور اتحاد نے ہی اُن کو چیئرمین سینٹ کا اُمیدوار نامزد کیا، اس کے باوجود کہ سینٹ نے عددی برتری نہ تھی تاہم سید یوسف رضا گیلانی سینیٹر منتخب ہو گئے، اس پر وزیر اعظم عمران خان نے واضح طور پر الیکشن کمیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہاکہ الیکشن کمیشن ووٹوں کی خرید و فروخت کو روکنے میں ناکام رہا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہاکہ اس غیر آئینی اقدام کو انصاف کے ادارے بھی دیکھتے رہے۔ جب چیئرمین سینٹ کا الیکشن آیا تو سینٹ میں پی ڈی ایم کی عدد برتری کے باوجود یوسف رضا گیلانی کی شکست ناقابل فہم نہیں، حقیقت یہ ہے کہ جو حربے سینیٹر بننے کے موقع پر اپوزیشن نے حکومت کے خلاف استعمال کئے وہی حربے پی ڈی ایم کے خلاف تحریک انصاف نے استعمال کرکے پانسہ پلٹ دیا۔ سیاسی حوالے سے یہ بھی د یکھئے کہ جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق نے پچھلے دنوں بیان دیا کہ یوسف رضا گیلانی کو ن لیگ نے شکست سے دوچارکرایا۔
ابھی آج کے اخبارات میں اعجاز الحق کا یہ بیان بھی شائع ہوا کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ نہ دینے کے معاملے پر آصف زرداری کا موقف درست ہے۔ اعجاز الحق کی طرف سے آصف زرداری کے موقف کی تائید اور ن لیگ کی مخالفت بلا شبہ نئی بات ہے جس پر تبصرے کا حق محفوظ رکھتے ہوئے ہم آگے بڑھتے ہیں کہ جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ ن لیگ نے سید یوسف رضا گیلانی کو شکست سے دوچار کرایا تو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سینٹ کے الیکشن کے موقع پر ن لیگ کی ایک خاتون امیدوار سینیٹر بننے سے رہ گئی، اندر خانہ اس کا الزام ن لیگ نے پیپلز پارٹی پر دھرا۔ سیاست میں اس طرح کے شکوک و شبہات کا سلسلہ چلتا رہتا ہے مگر اپوزیشن کو چیئرمین سینٹ کے مسئلے پر عدالت میں جانا چاہیے کہ یوسف رضا گیلانی کے 7ووٹ مسترد ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے۔ 1997ء میں وسیم سجاد کے 18ووٹ مسترد ہوئے مگر اس کے باوجود وہ چیئرمین سینٹ بن گئے تھے۔ میں نے گزشتہ روز بھی لکھا تھا کہ پرائزئیڈنگ آفیسر سید مظفر حسین شاہ نے موقع پر یہ کہہ کر کہ آپ عدالت جا سکتے ہیں ایک راستہ دکھا دیا ہے، اپوزیشن کو عدالت جانا چاہیے۔ وہاں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
گزشتہ روز شفقت محمود، شبلی فراز اور فواد چوہدری نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہاکہ الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں وہ مستعفی ہو جائے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود الیکشن کمیشن سینٹ انتخابات شفاف اور آزادانہ کرانے میں مکمل ناکام رہا۔ اسی طرح وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار کا بھی یہ بیان شائع ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن کو ڈسکہ الیکشن نظر آ گیا سینٹ میں جو ہوا نظر کیوں نہیں آیا؟ ایسا نظر آتا ہے کہ الیکشن کمیشن پر تحریک انصاف کا تازہ دبائو محض سینٹ الیکشن کی وجہ سے نہیں بلکہ فارن فنڈنگ کیس اور اس طرح کے دیگر معاملات تحریک انصاف کے لئے سردرد بنے ہوئے ہیں اور یہ بھی دیکھئے کہ الیکشن کمشنر موجودہ حکومت نے مقرر کیا اس بناء پر تحریک انصاف یہ کہنے سے قاصر ہے کہ سابقہ حکمرانوں نے جانبدار الیکشن کمشنر مقرر کیا۔ تحریک انصاف اور اپوزیشن شروع دن سے حالات جنگ میں ہیں پہلا موقع ہے کہ حکومت کی طرف سے بیان آیا کہ احتجاج اور لانگ مارچ کی بجائے مذکرات کئے جائیں۔ حکومت کو خوش ہونا چاہیے کہ اُن کی پیشکش کو قبول نہ کر کے بھی پی ڈی ایم کے اختلافات نے احتجاج اور لانگ مارچ کے غبار ے سے ہوا نکال دی ہے۔
گزشتہ روز ن لیگ کے ایک رکن لطیف جاوید نے قومی سلامتی کے حساس ادارے کے خلاف دھواں دھار تقریر کی، حالانکہ میاں نواز شریف سمجھوتہ ایکسپریس پرسوار ہو کر لندن چلے گئے، اگر اس طرح کی تقریریں مزید مراعات حاصل کرنے کے لئے ہیں تو یہ انداز فکر مناسب نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کے لئے اسمبلی میں بل لایا جائے گا سوال اتنا ہے کہ سرائیکی صوبے کا بل جو کہ سینٹ سے دو تہائی اکثریت سے پاس ہو چکا ہے اور سرائیکی صوبہ جو کہ وسیب میں بسنے والے کروڑوں انسانوں کے ساتھ ساتھ خود پاکستان کی بھی ضرورت ہے کو آگے کیوں نہیں بڑھایا جاتا؟ جبکہ عمران خان نے 100دن میں صوبہ بنانے کا تحریری معاہدہ کیا ہوا ہے، اب بات کریں تو کہا جاتا ہے کہ اسمبلی میں ہمارے پاس اکثریت نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے اسمبلیوں سے فاٹا نشستوں میں اضافے اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا آئینی بل اپوزیشن کی حمایت حاصل کرکے اکثریت سے پاس کرایا، حکومت کے ساتھ صوبے کے مسئلے پر تمام اداروں کو سنجیدگی اور ہمدردی کے ساتھ غور کرنا ہو گا۔ وسیب کے لوگوں کو دیوار کے ساتھ لگانا یا بند گلی کی طرف دھکیلنا قطعی طور پر نامناسب ہے۔