نئے سال کا آغاز
آج نئے سال کا آغاز ہو رہا ہے، بیتے سال کی باتوں سے پہلے یہ بھی بتانا چاہتاہوں کہ نیا سال 2021عیسوی کیلنڈر کے مطابق ہے، ایک ہمارا دیسی کیلنڈر بھی ہے جسے بکرمی کہتے ہیں اور جو عیسیوی سے پہلے کا ہے اور وہ مستند بھی ہے، ایک کیلنڈر ہمارا اسلامی کیلنڈر بھی ہے، جسے ہجری کہتے ہیں، اپنے دیسی کیلنڈر کو ہم نے بلا وجہ طور پر خود ترک کیا ہوا ہے، جبکہ ہجری کیلنڈر اس بناء پر آگے نہیں بڑھ سکا کہ اس کا انحصار چاند کے نظر آنے پر ہے۔ عیسیوی کیلنڈر کو انگریزی کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے، دیگر خطوں کی طرح ہندوستان پر بھی انگریزوں کا راج رہا، اسی بناء پر انگریزی کیلنڈر ہم پر راج کر رہا ہے۔ چین، ایران اور دنیا کے دیگر کیلنڈر یہ ایک الگ موضوع ہے، البتہ گزشتہ رات 12 بجے 2020ء کا اختتام اور 2021ء کا آغاز ہو گیا ہے۔ دنیا امید پر قائم ہے، نئے سال کیلئے اچھی امیدیں رکھنی چاہئیں۔
مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ سال نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کیلئے تباہی کا سال ثابت ہوا، کورونا نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ کورونا نے صرف انسانوں کو ہی نہیں مارا بلکہ کائنات کے سارے سسٹم کو بھی تباہ کر کے رکھ دیا۔ قومی افق کے حوالے سے سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی، سردار شیر باز خان مزاری، تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم رضوی، عبدالقادر حسن، مسعود مفتی، ناصر زیدی، طارق عزیز، طالب جوہری، قاضی جاوید، سید نصرت زیدی، آصف فرخی، گلزار دہلوی، احفاظ الرحمن، ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی، سید اطہر علی ہاشمی سمیت بہت سی شخصیات اس دنیا سے چلی گئیں۔ اسی طرح وسیب کے حوالے سے دیکھیں تو ڈاکٹر طاہر تونسوی، پروفیسر شوکت مغل، صوفی تاج گوپانگ، شفا للہ خان روکھڑی، حافظ محمد اقبال بھٹی، پروفیسر ڈاکٹر مصطفی کمال پاشا، عبدالقیوم خان خوگانی، آصف علی فرخ، حیدر عباس گردیزی، شوکت علی ڈوگر، جاوید حیدر گردیزی، سابق ڈائریکٹر تعلقات عامہ رانا اعجاز محمود، سابق ایم پی اے سید ناظم شاہ، ایم این اے شیخ طاہر رشید، سلیم شہزاد دیروی، ایم پی اے عاطف خان مزاری، اہلیہ محترمہ خواجہ غلام فرید کوریجہ، قیس مسیح دیروی کے علاوہ سینکڑوں شخصیات فوت ہوئیں اور کراچی میں پانچ سرائیکی مزدوروں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ یہ سب تلخ یادیں ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ پروفیسر شوکت مغل نے گزشتہ سال کے آغاز پر کہا تھا کہ کیا اس سال صوبہ بن جائے گا؟ اور کیا ہم اپنی زندگی میں صوبے کا قیام دیکھ سکیں گے؟ یہ حقیقت ہے کہ قوموں کی زندگی میں نیا سال نئی آس اور نئی امنگوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے، لیکن سرائیکی وسیب کے دامن میں ایسی کوئی خوشی نہیں، وفاقی حکومت نے وسیب کوخوشخبری دی کہ اسی اسمبلی سے صوبہ بنوائیں گے، ملتان میں سپریم کورٹ کا بنچ بنے گا، مگر حکومت کی توجہ میگا راوی اربن سٹی پر مذکور ہو گئی، 100دن کا وعدہ ہوا 800 دن گزر گئے، کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا، پنجاب کی صوبائی حکومت نے بھی سرائیکی وسیب کی بہتری کیلئے بڑے بڑے دعوے کئے مگر حکومت کی تمام تر توجہ لاہور پر رہی۔ پسماندہ علاقوں میں اب بھی مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، غربت، بیروزگاری اور مہنگائی سے کروڑوں لوگ سخت مشکلات کا شکار ہیں، ختم ہونے والے سال کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں جرائم کی شرح بڑھی، چوری، ڈاکہ، اغوا کے ساتھ ساتھ عصمت دری کے واقعات بہت ہوئے اور یہ بھی ہوا کہ بقول شاعر:
فاتوں سے تنگ آئے تو پوشاک بیچ دی
عریاں ہوئے تو شب کا اندھیرا اوڑھ لیا
کسی بھی حکومتی جماعت کا تیسرا سال آئندہ الیکشن کی تیاری اور چوتھا سال الیکشن کمپین کا ہوتا ہے، موجودہ حکمرانوں کو اپنے وعدے کے مطابق سرائیکی صوبے کے مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور اس سلسلے میں تاریخ کا مطالعہ بھی ضروری ہے کہ جب سندھ کو بمبئی کا حصہ بنا دیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے ہندوستان کی عدالت عالیہ میں پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کا تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی اعتبار سے کوئی تعلق نہیں مزید برآں لوگوں کی مرضی کے برعکس سندھ کو بمبئے کا حصہ بنایا گیا۔ قائد اعظم کو عدالت سے کامیابی ہوئی اور سندھ کو 1934ء میں بمبئے سے الگ کر کے صوبہ سندھ بحال کر دیا گیا سرائیکی صوبے کا مقدمہ بھی سندھ کی طرح ہے کہ وسیب کو الیکشن، ریفرنڈم یا اسمبلی کے ذریعے دیگر علاقوں کا حصہ نہ بنایا بلکہ اسلحے کے زور پر 1818ء میں صوبہ ملتان پر قبضہ ہوا اور انگریزوں نے صوبہ ملتان کو صوبہ لاہور کا حصہ بنایا اور انگریزوں نے صوبہ پنجاب کا حصہ بنایا اور 1901ء میں انگریز لارڈ کرزن نے سرائیکی خطہ دیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کو نئے بننے والے شمال مغربی سرحدی صوبے کا حصہ بنایا۔ وسیب کا مقدمہ بھی وہی ہے جو قائد اعظم کا تھا۔
صوبے کے مسئلے پر مقتدر قوتوں کو بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے کہ حکومت کی طرف سے صوبے کے مسئلے کو زیر التواء رکھنے کے لئے بہاولپور ریاست کا اشو کھڑا کرایا گیا یہ سمجھنا چاہیے کہ بہاولپور صوبہ بحالی کا مطلب ریاست بحالی ہوگی۔ بہاولپورسرائیکی صوبے سے الگ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بہاولپور صوبہ ہوتا تو اس کا گورنر بھی ہوتا، بہاولپور کے معاملات ون یونٹ کے قیام تک نواب بہاولپور کے پاس تھے۔ ریاست بہاولپور کے ایکٹ دستور عبوری 1952ء میں کسی ایک جگہ بھی بہاولپور صوبے کا نام نہیں ہے اور ہر جگہ لفظ ریاست بہاولپور اور اس کا فرمانروا لکھا ہوا ہے۔ لہٰذا بحالی کا لفظ صوبہ نہیں بلکہ بہاولپور ریاست بحالی کے زمرے میں آئے گا جو کہ غلط اور خطرناک ہے۔