ملتان ۔ جلسے سے پہلے جلسہ کامیاب
خدشات کے باوجود ملتان میں تاریخی سیاسی جلسہ ہوا، سید یوسف رضا گیلانی سرخرو ٹھہرے، ملتان میں ایک ہفتے سے سیاسی ماحول گرم تھا اور قلعہ کہنہ قاسم باغ کا علاقہ گزشتہ چار دنوں سے سیل تھا، اس دوران پولیس اور پی ڈی ایم کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوتی رہیں، سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے گرفتار ہو کر عدالتوں سے ضمانتوں پر رہا ہو کر جلسہ گاہ پہنچے۔ تین دن قبل مقامی انتظامیہ نے جلسے کی مجوزہ جگہ قلعہ کہنہ قاسم باغ کے چہار اعتراف رکاوٹیں اور کنٹینرز کھڑے کئے تو پی ڈی ایم کے کارکنوں نے علی موسیٰ گیلانی کی قیادت میں زبردستی رکاوٹیں ہٹا دیں اور گیٹ توڑ دیئے۔ انتظامیہ نے دوسری رات گراؤنڈ میں پانی چھوڑ دیا، قلعہ کہنہ قاسم باغ کے علاقے میں کرفیو کی صورتحال تھی، جلسے کے روز موبائل سروس کے ساتھ ساتھ پہلی مرتبہ پی ٹی سی ایل انٹرنیٹ سروس بھی بند تھی، لوگ پریشان تھے کہ 30 نومبر کو کیا ہوتا ہے؟ جلسے سے دو دن قبل سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے عمران خان پر لطیف طنز کیا کہ عمران خان شکریہ! جلسے سے پہلے آپ نے ہمارا جلسہ کامیاب کرا دیا، جلسے کیلئے کنٹینر اور کھانا بھجوانے کا وعدہ کیا تھا، کنٹینر پہنچ گئے، کھانا نہیں آیا اور ایک جلسے کی اجازت نہ دے کر حکومت نے کئی جلسے کرا دیئے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہزاروں افراد کی شرکت نے ملتان کے جلسے کو کامیاب جلسہ بنا دیا۔ جلسے سے میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے سرائیکی میں خطاب کرنے کی کوشش کر کے اچھا تاثر قائم کیا۔ محمود خان اچکزئی اور اختر مینگل نے تقریریں کی، اے این پی کے میاں افتخار نے سرائیکی صوبے کے حق میں تقریر کی، اس موقع پر عوام کے ساتھ ساتھ سٹیج بھی زندہ باد زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھا، البتہ یہ بات سیاسی تجزیہ نگاروں نے نوٹ کی کہ سرائیکی صوبے کی بات پر جہاں اسٹیج پر بیٹھے ہوئے عمائدین بھی عوام کے نعروں کا جواب دے رہے تھے تو مولانا فضل الرحمن خاموش نظر آئے۔ اس کے ساتھ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا زیادہ تر خطاب صوبے کے حوالے سے تھا، انہوں نے عمران خان کو سو دن کا وعدہ یاد دلایا اور صوبے کی بات کی تو فضا ایک بار پھر نعروں سے گونج اٹھی، مگر اس موقع پر بھی مولانا خاموش نظر آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ جلسہ رکوانے کے لئے ظلم کے پہاڑ توڑے گئے، میرے بیٹوں کو گرفتار کیا گیا مگر ہم گھبرائے نہیں اور وسیب کے لوگوں نے ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ مریم نواز نے کہا کہ عمران کو جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ لاہور کے جلسے کو روکنے کی کوشش کی گئی تو آہنی ہاتھ سے نمٹیں گے اور ہماری اگلی منزل اسلام آباد ہوگی۔
کوریج کرنے والے رپورٹروں کے مطابق جلسے میں عوام کی سب سے زیادہ دلچسپی کا باعث آصفہ بھٹو کی آمد تھی، جلسہ گاہ پہنچنے پر ان کو سرائیکی اجرک پہنائی گئی، آصفہ نے نیلے اور فیروزی کلر کے پھولوں والا سوٹ پہن رکھا تھا اور خوش نظر آ رہی تھیں۔ ان کے خطاب میں محترمہ بے نظیر بھٹو کاانداز جھلک رہا تھا، گو کہ ان کا پہلا سیاسی جلسہ تھا مگر انہوں نے اعتماد کے ساتھ بات کی اور کہا کہ بے نظیر کے مشن کو پورا کریں گے۔ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، زرداری نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ کو مضبوط کیا۔ آصفہ بھٹو نے پہلی مرتبہ خطاب کیا جو کہ مختصر مگر جاندار تھا۔ آصفہ بھٹو کی ملتان آمد کو وسیب کے لوگوں نے خوش آئند قرار دیا ہے۔ جلسے کو کنٹرول کرنے کیلئے صوبے کے مختلف اضلاع سے پولیس کی بھاری تعداد ملتان پہنچی مگر پی ڈی ایم جلسہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ گوکہ وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے جلسے کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ خوفزدہ عناصر چوکوں اور چوراہوں پر شو کر رہے ہیں، دیگر وزراء نے بھی ملتان کے جلسے کو ابو بچاؤ مہم کا نام دیا۔ البتہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا کہ ہم نے رکاوٹیں ہٹا کر جلسے کی اجازت دی اور پی ڈی ایم والے چند ہزار لوگ جمع نہ کر سکے۔
دیگر وزراء کے مقابلے میں مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنی ہی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملتان جلسے کو صحیح ہینڈل نہیں کیا گیا، گرفتاریوں کا کوئی جواز نہ تھا، حکومت اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرے۔ پی ڈی ایم کے جلسے سے قبل کراچی میں وسیب کے پانچ اشخاص کو سرائیکی ڈاکو گینگ کا نام دیکر پولیس نے ماورائے عدالت قتل کیا۔ جس کی بناء پر وسیب کی قوم پرست جماعتوں میں پیپلز پارٹی کے خلاف سخت اشتعال پیدا ہوا اور کراچی پولیس کے خلاف مظاہرے ہوئے، جلسے سے ایک دن قبل ممبر سندھ اسمبلی غزالہ سیال کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا وفد ہمارے ہاں جھوک کے دفتر آیا، ماورائے عدالت قتل پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ میں وزیراعلیٰ اور آئی جی سے مل کر اس مسئلے پر انکوائری کراؤں گی، یہ پولیس کی مس ہینڈلنگ ہو سکتی ہے، اس میں پیپلز پارٹی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ہم معذرت بھی کرتے ہیں اور آپ کو پی ڈی ایم ملتان کے جلسے میں شرکت کی دعوت بھی دیتے ہیں، میں نے ان کو تفصیل سے بتایا کہ قوم پرست جماعتوں کی طرف سے یہی فیصلہ ہوا ہے کہ جب تک مطالبات تسلیم نہیں ہونگے جلسے میں شرکت نہیں ہوگی۔
30 نومبر پاکستان پیپلز پارٹی کا یوم تاسیس بھی تھا، اس دن کو ملتان کے جلسے کے حوالے سے بھی ایک تاریخی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، جلسے کی مجوزہ جگہ قلعہ کہنہ قاسم باغ کے گراؤنڈ میں پانی ہونے کی وجہ سے پی ڈی ایم نے گھنٹہ گھر چوک پر جلسہ منعقدکر ڈالا، قلعہ کہنہ کی طرح ملتان کا گھنٹہ گھر تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ قدیم قلعہ کے پاس ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ جنگوں کی زد میں رہا۔ رنجیت سنگھ اور بعد ازاں انگریزوں سے جنگ کے موقع پر اس علاقے کو بہت نقصان ہوا، بر سر اقتدار آنے کے بعد انگریزوں نے اس علاقے میں تعمیرات کرائیں اور 1883ء میں گھنٹہ گھر بھی تعمیر کیا۔ گھنٹہ گھر کے چہار اطراف خوبصورت بازاریں اور کشادہ سڑکیں تھیں، تقسیم کے بعد گھنٹہ گھر تجاوزات کی زد میں آیا، تاہم اب بھی وسیع جگہ موجود ہے، سابق ڈی سی او نسیم صادق نے کچھ تجاوزات ہٹائیں جسکی بناء پر کافی گنجائش پیدا ہو چکی ہے۔ چوک گھنٹہ گھر میں پی ڈی ایم کے جلسے نے گھنٹہ گھر کو ایک بار پھر تاریخی حیثیت دیدی ہے۔