مولانا عبیداللہ سندھی کا یوم پیدائش
گزشتہ روزعالمی شہرت یافتہ عظیم حریت پسند مولانا عبید اللہ سندھیؒکایوم پیدائش منایا گیا۔ سندھ کے مختلف شہروں کے علاوہ وسیب میں تقریبات ہوئیں۔ جھوک ملتان میں فکری نشست میں بتایا گیا کہ مولانا عبیداللہ سندھی سیالکوٹ کے ایک سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے، مادری زبان پنجابی تھی قریبی رشتے دار جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں رہتے تھے، ابھی عمر چند سال ہی تھی کہ والدہ کے ساتھ جام پور آئے یہاں کا ماحول انہیں بھا گیا، وسیب کی مسلم معاشرت، زبان کی مٹھاس میل جول میں عاجزی انکساری اور انسانوں کے ساتھ انسانوں کی ہمدردی و غمگساری کے جذبات نے اُنہیں بے حد متاثر کیا، اور سکھ مذہب سے طبیعت اُچاٹ ہو گئی اور آپ مائل بہ اسلام ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد سکھ مذہب سے بغاوت کر کے مسلمان ہو گئے اورآپ کا نام عبید اللہ رکھا گیا۔
مولانا عبید اللہ سندھی نے بھرچونڈھی سے واپس خانپور آ کر دین پور شریف کو تحریک آزادی کا مرکز بنایا اور یہیں سے انگریزوں کے خلاف مشہور زمانہ "ریشمی رومال"کی تحریک شروع کی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں آج ہم آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔ یہ آزادی کسی نے پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی بلکہ آزادی کیلئے ہمارے اکابرین نے بے پناہ جدوجہد کی، جلاوطنی اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں اور انگریز اقتدار سے نجات کیلئے انہیں لہو کے دریا عبور کرنے پڑے۔ زندگیاں وقف کرنے والے تحریک آزادی کے ان اکابرین میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا نام سر فہرست ہے۔
جلا وطنی کے دوران آپ نے افغانستان کا سیاسی تعلق برطانیہ سے ختم کرا کے سوویت یونین سے کرا دیا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ 1920ء میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی تحریک پر افغانستان کے امیر امان اللہ خان نے سوویت یونین سے دوستی کامعاہدہ کرلیا۔ اور ہندوستان کی انگریز سرکار کو ماننے سے انکار کر دیا اور سب سے اہم یہ کہ برطانیہ کی شدید مخالفت کے باوجود افغان حکومت نے اعلان کیا کہ ہم ہندوستان میں انگریز کے قبضے کو تسلیم نہیں کرتے اور جلا وطن حکومت کے فرمانروا مولانا عبید اللہ سندھی کو ہندوستان کا اصل وارث او رتخت نشین تسلیم کرتے ہیں۔ جلا وطنی کے دوران مولانا سندھی نے روس اٹلی اور ترکی میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کی اور پوری دنیا میں انگریزوں کے خلاف نفرت کا طوفان کھڑا کر دیا اور انگریزوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیا۔
25سال جلا وطنی کے دوران آپ حجاز مقدس بھی گئے۔ مکہ میں بیت اللہ اورمدینہ میں روضہ رسول ﷺپر حاضری دی، واپسی پر آپ 1939ء میں بذریعہ بحری جہازکراچی بندرگاہ پر پہنچے تو آپ کے استقبال کے لیے آزادی کے پروانے سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے۔ کراچی کارپوریشن کی طرف سے استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی سپاسنامے کے جواب میں آپ نے خطاب فرمایا جو تاریخ کا حصہ ہے۔ انہوں نے فرمایا:
"میں چراغ سحری ہوں بجھا چاہتا ہوں، مگرمرنے سے پہلے آپ کوبتانا چاہتاہوں کہ انگریز بہت مکار ہیں۔ وہ اب بھاگ رہا ہے، مگر بھاگنے سے پہلے اس خطے کو اس طرح تقسیم کر جائے گا کہ تم ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے مرتے رہو، اس کی سازش ہو گی کہ بنگال کو دو حصوں میں تقسیم کر دے، پنجاب، سندھ، پشتون علاقے اور بلوچ علاقوں کو دو دو حصوں میں تقسیم کر دے، تم اس کی مکاری میں نہ آنا، امریکہ اور سوویت یونین کی طرز پر ہندوستان کی خود مختار ریاستیں مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ثقافت کی بنیاد پر قائم ہونی چاہئیں اور جہاں جہاں کوئی قوم آباد ہے اور اس کا اپنا خطہ زمین ہے الگ تہذیب، ثقافت و زبان رکھتا ہے اس کی اپنی ریاست ہونی چاہیے۔ ہندوستان کے لوگو! انگریز مکار کی چالوں سے ہوشیار رہو، انقلابی بنو، طوفان نوح آیا ہوا ہے گھٹائیں اُٹھ چکی ہیں، بادل برسنے کو ہے، وقت اور وقت کی رفتار کو دیکھو" یاد رکھنا چاہیئے، تورات اور انجیل کی غلط تاویلیں کرنے والے یہودی اور عیسائی کا فر ہیں۔ قرآن حق کی بات کرتا ہے، انصاف کی بات کرتا ہے، ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی بات کرتا ہے۔ غریب، محنت کش مزدور اور دہقان کی بات کرتا ہے روٹی کپڑے اور مکان کی بات کرتا ہے کسی کو بھوکا نہ رہنے دینے کی بات کرتا ہے، بخارہ کی ایک یونیورسٹی میں 70لاکھ انسانوں نے عربی علوم پڑھے مگر ظلم زیادتی کے سامنینہ ٹھہر سکے، ترکی کی سیاست نہ ٹھہر سکی تم کس باغ کی مولی ہو، دوسروں کی کمائی سے اپنے حرام پیٹ نہ بھرو، محنت کش بن جائو انقلاب کی راہ ہموار کرو، غریبوں کے خون پسینے سے محلات بنانے والوں کو جھنجھوڑو، غریب کی جھونپڑی سے انقلاب اٹھتا ہے تو امراء کے محلات کو نیست و نابود کر دیتا ہے۔ (بحوالہ رسالہ ترجمان الاسلام 1969ئ)۔
مولانا عبید اللہ سندھی کیا اور کس نظریے کے مالک تھے؟ جاننے کیلئے ان کی زندگی کا مطالعہ ضروری ہے۔ حضرت سندھی کے نام کے ساتھ "مولانا" لکھا جاتا ہے مگر وہ وہ اپنے ملک کیلئے لڑتے رہے مگر ان کا اس سر زمین ایک بھی مکان نہ تھا، جب وہ فوت ہوئے تو کپڑوں کا ایک ہی جوڑاتھا جو وہ زیب تن کئے ہوئے تھے، ان کے پاس جو کچھ آتا خرچ کر دیتے، وہ انسانی اقدار کے نگہبان اور پاسدار تھے، جاگیرداری اور سرمایہ داری کے سخت خلاف تھے، وہ مزارعت کو حرام قرار دیتے تھے ان کا کہنا تھا کہ زمین اللہ کی ہے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق اسے حاصل ہے جو اسے کاشت کرتا ہے۔ مولانا سندھی مکر وفریب اور ریاکاری کے سخت خلاف تھے، آپ جب جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئے تو آپ نے پنڈت جواہر لال نہرو کو للکار کر کہا کہ غریبوں سے فریب بند کرو، تم ایک لاکھ کی جیپ پر سفر کرتے ہو اور ایک ٹکے کی ٹوپی پہن کر غریبوں کو دھوکہ دیتے ہو۔ فرقہ واریت، تعصب، تنگ نظری، عدم برداشت، نفسانفسی، ہوس پرستی اور دہشت گردی کے اس دور میں جبکہ برطانیہ کے بعد ایک اور استعمار امریکہ کی شکل میں سامنے آ چکا ہے اور اکثر مسلم زعما اس کے طابع مہمل اور آلہ کار بنے ہوئے ہیں، ہمیں ایک اور مولانا عبیداللہ سندھی کی ضرورت ہے۔