کرسی اور اقتدار کی سیاست
لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود شہبازشریف کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا، (ن) لیگ کی رہنما مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ شہبازشریف کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کے کہنے پر روکا گیا ہے، اس معاملے پر وزیراطلاعات فواد چوہدری کاموقف یہ ہے کہ شہباز شریف کا بلیک لسٹ میں نام ڈالنا یا نکالنا ایف آئی اے کا اختیار ہے۔ شہبازشریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے مسئلے پر بحث کا سلسلہ جاری ہے۔ شہباز شریف نے عدالت سے صحت کی بنیاد پر ریلیف لیا اور میاں نواز شریف کو بھی علاج کی غرض سے باہر جانے کی اجازت ملی، نواز شریف نے گارنٹی دی تھی کہ وہ علاج کے بعد واپس آئیں گے، گارنٹر میاں شہباز شریف تھے۔ ہمارے ہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ ملزم عدالت میں پیش نہ ہو تو ضامن کو گرفتار کرلیا جاتا ہے مگر یہ معاملہ غریب کے ساتھ ہوتا ہے۔ میاں شہباز شریف نے نام تو علاج کا لیا ہے مگر وہ کس غرض سے جا رہے ہیں؟ اس کو حکومت بھی سمجھتی ہے۔ یہ بھی دیکھئے پچھلے مقدمے میں شہباز شریف نے عبوری ضمانت حاصل کی بعد میں اُن کے وکیل نے عبوری ضمانت کی درخواست ازخود واپس لے لی جس کی بناء پر وہ جیل چلے گئے، سیاسی حلقوں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ شہبازشریف کی مقتدر قوتوں سے ڈیل ہو گئی ہے۔ کرسی اور اقتدار کی سیاست ہو رہی ہے، ملک اور قوم کی بہتری کے لیے نہیں سوچا جا رہا۔
ایک وقت تھا کہ شہباز شریف نے اپنی ضمانت کی درخواست خود واپس لے لی اور جیل چلے گئے جبکہ جیل سے باہر آئے ہیں تو ان کو باہر جانے کی اتنی جلدی تھی کہ وہ رات و رات نکلنا چاہتے تھے۔ میاں نواز شریف کے پاس وہ اس غرض سے جا رہے ہیں کہ مجھ پر اعتماد کیا جائے اور اگر کوئی عبوری سیٹ اپ بنتا ہے اور مجھے کوئی ذمہ داری دی جاتی ہے تو میں آپ کے اعتماد پر پورا اتروں گا اور تمام معاملات درست ہو جائیں گے۔ ابھی یہ سیاسی کھچڑی پک رہی ہے کہ عبوری سیٹ اپ کے علاوہ بھی آئندہ کے عہدوں کی تقسیم کے لیے لائحہ عمل تیار ہو رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کو یہ باور کرایا جائے گا کہ آئندہ وزیر اعظم مریم نواز اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ حمزہ شہباز کے پاس ہوگی، اس کو کہتے ہیں سیاسی بادشاہت۔ اگر ان کے خاندان نے ہمیشہ کے لیے ملک پر برسراقتدار رہنا ہے تو پھرجمہوریت کی بساط لپیٹ کر ملک میں بادشاہت قائم کر دی جائے، دکھاوے کی جمہوریت کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کا ہر شخص عمران خان کو نا پسند کرنے لگا ہے مگر ایک بات ہے کہ وہ موروثی سیاست نہیں کررہا، عمران خان نے اپنی اولاد کو اپنی سیاست کا وارث نہیں بنایا۔ اس کے اپنے عزیز، رشتے دار بھی اس سے خوش نہیں اور یہ بھی ہے کہ خزانہ لوٹنے کے حوالے سے اس کی ذات کے بارے میں کوئی بڑا اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔
میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف ایک سوچی سمجھی سیاسی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں، ایک بھائی اداروں کو دبائو میں لانے کے لیے ان کے خلاف سخت موقف اختیار کرتا ہے جبکہ دوسرا بھائی گفت وشنید کرتا ہے اوررابطے میں رہتا ہے، اداروں کی بھی دلی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں ان کی خطائیں بھی معاف ہو جاتی ہیں اور ان کو پھر سے بر سر اقتدار لانے کے لیے معاملات طے ہو جاتے ہیں، عمران خان کے پاس غیر سیاسی ذہن کے لوگوں کا ایک ٹولہ ہے جو سیاسی معاملات کو نہیں سمجھتا۔ چند ایک سیاسی لوگ ہیں تو وہ اپنی سیاسی ضرورتوں کے تحت عمران خان کے ساتھ ہیں اور سرائیکی کی ایک کہاوت ہے "ہن بیر تے طوطے او تونڑیں جے تونڑیں بیر تے بیر کھڑن" یہ سب لوگ صرف ایک اشارے کے انتظار میں رہتے ہیں، عمران خان کو اپنی ساکھ بچانی ہے تووہ کچھ ڈیلیور کریں۔
بجٹ کی آمد آمد ہے پچھلے بجٹ میں غریب کو ریلیف کی بجائے تکلیف ملی اب تک وہ عذاب بھگت رہے ہیں، عمران خان نے محروم علاقوں کو ترقی دینے کی بات کی وہ صرف بات ہی رہی اب بھی انڈسٹری کی سہولتیں ان علاقوں کو مل رہی ہیں جہاں پہلے انڈسٹری موجود ہے، 100دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا 1200دنوں میں کمیشن بھی نہیں بن سکا، وسیب کو سول سیکرٹریٹ کے لولی پاپ دیے جارہے ہیں اور اس کے پس پردہ مقاصد بھی وسیب کے اتحاد میں بلکہ وسیب کے درمیان تفریق پیداکرنا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ عمران خان سیاسی سوجھ بوجھ کا مظاہرہ کریں بجٹ کے موقع پر ایسے اقدامات کریں جس سے غریب کو ریلیف ملے اور بجٹ میں اپنے وعدے کے مطابق صوبے کی بنیاد رکھتے ہوئے صوبائی سیکرٹریٹ کے لیے فنڈ مختص کریں۔
اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 10 کروڑ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، وفاقی بجٹ میں کاشتکاروں کو کپاس، گنے اور دیگر اجناس کی کم قیمتوں کا ریلیف نہیں دیا گیا۔ بلدیاتی اداروں کو بھی کوئی فنڈ نہیں ملا، کھیت سے منڈی تک سڑکیں بنانے کیلئے اقدام نہیں ہوئے۔ دیہی معیشت تباہ ہو چکی ہے، غریب کا زندہ رہنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ بجٹ میں بڑے بڑے کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کو ریلیف دیا گیا اور دیہاتوں میں چھوٹی صنعتوں کے قیام کیلئے کوئی اقدام نہ اٹھایاگیا، بے روزگاری سے لوگ دوسرے صوبوں خصوصاً کراچی میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوتے رہے تو اس سے بڑا ستم کوئی نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ بجٹ اور معیشت کا آپس میں چولی دامن کا رشتہ ہے، معیشت مستحکم ہوگی تو بجٹ بھی بہتر بنے گا اور ہر آئے روز نیا بجٹ پیش کرنے کی مجبوری بھی نہ رہے گی، معیشت کا دارومدار ملکی پیداوار کے ساتھ ساتھ ملکی حالات پر بھی ہوتا ہے، کسی بھی ملک میں کوئی بڑا حادثہ یا دھماکہ ہو جائے تو معیشت بیٹھ جاتی ہے یہاں تو صبح و شام دھماکے ہو رہے ہیں، کرنسی کی شرح تبادلہ ہر پل تبدیل ہو رہی ہے، جیب میں پڑا روپیہ ہو یا بینکوں میں پڑے "سیونگز" بے قدر ہو رہے ہیں۔ ملکی معیشت کیسے درست ہوسکتی ہے کہ حکمران اور اشرافیہ اداروں کو مردہ جانورسمجھ کر گدھوں کی طرح نوچ رہے ہیں، عمران خان کچھ کرسکتے ہیں تو اس عمل کو رکوائیں۔