خواجہ فرید یونیورسٹی کا معیار
وسیب میں انجینئرنگ یونیورسٹی کی ضرورت کو سالہا سال سے محسوس کیا جا رہا تھا اور جو کام وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی سے نہ ہوا وہ کام میاں نواز شریف کے ہاتھوں سے ہوا اور رحیم یارخان میں عالیشان یونیورسٹی قائم ہوگئی۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی رحیم یارخان وسیب کے طلبہ کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ خواب کی طرح مختصر عرصے میں اس یونیورسٹی نے تکمیل کے مراحل طے کئے، یہی وجہ ہے کہ اس وقت وسیب کے ہزاروں طلباء ڈگری حاصل کرنے کے بعد پورے ملک میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ رحیم یارخان میرا ہوم ڈسٹرکٹ ہے، مجھے خوشی ہوئی ہے کہ خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی رینکنگ میں شامل ہوئی، پنجاب میں اس کا پانچواں اور پاکستان میں 9واں نمبر آیا ہے۔ یونیورسٹی کی مزید بہتری کیلئے کوششیں کی جا رہی ہیں، ہمارا خواب یہ ہے کہ پاکستانی یونیورسٹیوں کو ورلڈ رینکنگ میں آنا چاہئے کہ آج اگر یورپ و دیگر ترقی یافتہ ممالک دنیا پر راج کر رہے ہیں تو اس کا باعث علم و ہنر ہے اور یہ مقصد بہترین یونیورسٹیوں کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔
میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر فاروق احمد دھریجہ ہالینڈ سے زویالوجی میں پی ایچ ڈی کر کے آئے تو میں نے پوچھا کہ آپ جس یونیورسٹی میں پڑھتے تھے وہ نئی یونیورسٹی تھی یا پرانی؟ تو ان کے جواب نے مجھے چونکا دیا کہ میری یونیورسٹی پانچ سو سال پہلے قائم ہوئی۔ میں نے استعجاب سے پوچھا کہ پانچ سو سال؟ تو انہوں نے مجھے اور بھی چونکا دیا کہ یورپ میں آٹھ سو سے ایک ہزار سال تک پرانی یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں۔ ہمیں تاریخ عالم کا مطالعہ کرنا چاہئے اور اسی کی بناء پر اپنی تعلیمی پالیسیاں ترتیب دینا ہونگی۔ جہاں میں نے سید یوسف رضا گیلانی کی بات کی، وہاں میں یہ بھی کہوں گا کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار ابھی تک وسیب کو کوئی اچھی یونیورسٹی نہیں دے سکے اور نہ ہی کوئی کیڈٹ یا میڈیکل کالج قائم کر سکے۔ حکومت کو اس طرف فوری توجہ دینا ہوگی۔
خواجہ فرید یونیورسٹی کو رینکنگ میں لے آنے میں موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر اور ان کی ٹیم کی کوششیں بھی شامل ہیں مگر اس کا سہرا بانی وائس چانسلر کو جاتا ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ خواجہ فرید یونیورسٹی کا ایکٹ 29 مئی 2014ء کو پاس ہوا، یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب تھے، جنہوں نے یونیورسٹی کی کامیابی کیلئے دن رات کام کیا۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ یونیورسٹی ایکٹ پاس ہونے کے قریباً چار ماہ بعد یکم ستمبر 2014ء کو چار ڈگریوں میں کلاسز کا آغاز کر دیا گیا۔ خواجہ فرید یونیورسٹی کے قیام سے قبل وسیب میں کوئی یونیورسٹی نہ تھی، یہ ٹھیک ہے کہ اس سے پہلے ملتان میں نواز شریف انجینئرنگ یونیورسٹی 2012ء میں قائم کی گئی مگر ابھی تک یہ مکمل یونیورسٹی نہیں بن سکی اور نہ ہی اس کی عمارت بنی ہے۔ جونہی خواجہ فرید یونیورسٹی بنی تو دیکھتے ہی دیکھتے طلباء کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی۔ ایک نئی یونیورسٹی میں سات آٹھ ہزار طلباء کے داخلے حیران کن بات تھی۔ خواجہ فرید یونیورسٹی کی خوش قسمتی یہ بھی تھی کہ حکومت کی طرف سے دل کھول کر فنڈز دیئے گئے۔
یہ اچھی بات ہے کہ یونیورسٹی میں سائنسی تعلیم کے ساتھ ساتھ آرٹس کی تعلیم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور اردو ڈیپارٹمنٹ قائم ہونے جا رہا ہے، انگلش، فائن آرٹس اسلامک اسٹڈیز، پاکستان اسٹڈیز، فیزیکل ایجوکیشن، انٹرنیشنل ریلیشنز، بی ایڈ کی تعلیم دی جا رہی ہے، اس کے ساتھ ضروری ہے کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ اور سندھیالوجی طرز کا ادارہ بھی خواجہ فرید یونیورسٹی میں قائم ہونا چاہئے کہ کسی بھی یونیورسٹی کے قیام کا مقصد مقامی آرٹ کلچر اور لینگویج کے ساتھ ساتھ مقامی آثار پر تحقیق ہوتا ہے۔ اگر سائنس کے ساتھ آرٹس نہ ہو تو اس معاشرے میں انسان نہیں روبوٹ پیدا ہوتے ہیں۔ وائس چانسلر اس بارے توجہ کریں کہ سرائیکی ڈیپارٹمنٹ اور سرائیکیالوجی کا قدم ایک ایسا قدم ہوگا جس سے نہ صرف یہ کہ مقامی ادب و ثقافت فروغ پذیر ہوگا بلکہ اس سے مقامی زبان سائنسی علوم سے بھی منسلک ہو جائے گی۔ اور جس نام سے یہ یونیورسٹی قائم کی گئی ہے اس کا مقصد بھی پورا ہو گا کہ رحیم یارخان یونیورسٹی خواجہ فرید کے نام سے قائم ہوئی کہ خواجہ فرید ڈسٹرکٹ رحیم یارخان کے قصبہ چاچڑاں میں پیدا ہوئے، یہ ان کا ہوم ڈسٹرکٹ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ خواجہ فرید کی وقف اراضی جو کہ ساڑھے بارہ ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے، کا بہت بڑا حصہ ڈسٹرکٹ رحیم یارخان میں ہے۔ خواجہ فرید کے نام سے یونیورسٹی بنائی گئی تھی تو اس میں سرائیکی ڈیپارٹمنٹ اور خواجہ فرید چیئر کا بننا بھی ضروری تھا۔
خواجہ فرید یونیورسٹی تین صوبوں کے سنگم پر ہونے کے باعث نہ صرف سرائیکی وسیب بلکہ پورے ملک کیلئے اہم ہے۔ یونیورسٹی 220 ایکڑ پر مشتمل تھی، اس میں 55 ایکڑ مزید لئے گئے۔ اچھی بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کی ترقی میں صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت دلچسپی لے رہے ہیں، یونیورسٹی کے پی آر او انور فاروق نے بتایا کہ خواجہ فرید یونیورسٹی کفایت شعاری و سادگی، اعلی تعلیم، کوالٹی تدریس و تحقیق، اور ٹیکنیکل سکل کے فروغ سے متعلق جن پالسیز پر عمل پیرا ہے ان کے اعلیٰ تعلیم کے فروغ، ہیومن کیپیٹل ڈویلپمنٹ، غربت میں کمی اور علاقے کی تعمیر وترقی کے حوالے سے خاطر خواہ نتائج برامد ہوں گے۔ یونیورسٹی حکومت پنجاب کی سرپرستی میں پرائم منسٹر عمران خان کے وژن کے مطابق ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں ہے جس پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلیمان طاہر، ڈین آف آل فیکلٹیز اصغر ہاشمی اور ان کی ٹیم خراج تحسین کی مستحق ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کے ساتھ ساتھ فنانس منسٹر ہاشم جواں بخت کو یاد نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ انہوں نے دل کھول کر فنڈز دیئے۔ اس خبر پر کمشنر بہاولپور کیپٹن (ر) ظفر اقبال، ڈپٹی کمشنر علی شہزاد، ایم پی اے چودھری شفیق، ایم پی اے میاں شفیع محمد اور صدر چیمبر آف کامرس خواجہ بشیر احمد آف خان پور کے علاوہ سندھ بلوچستان اور وسیب بھر کی اہم شخصیات نے یونیورسٹی کی کارکردگی کو سراہا ہے، اب وہ وقت دور نہیں جب خواجہ فرید یونیورسٹی کا شمار دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں ہوگا۔