حضرت بہائو الدین زکریا ملتانی ؒکا عرس مبارک
شیخ الاسلام حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کا781واں عرس مبارک آج 23 ستمبر بروز بدھ 5 صفر المظفر سے ملتان میں شروع ہو رہا ہے، زائرین کے قافلے جوق در جوق ملتان پہنچ رہے ہیں۔ عرس کے سلسلے میں درگاہ کے احاطے میں زکریا کانفرنس بھی ہوگی جس کی صدارت سجادہ نشین دربار شریف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کریں گے۔ غوث العارفین حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی 27رمضان 566ھ حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد قریشی کے ہاں پیدا ہوئے، صغیر سنی میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا، یتیمی کی حالت میں تعلیم اور تربیت کے مراحل طے کئے اور عین جوانی میں عازم سفر سلوک بنے۔ بغداد پہنچ کر حضرت شہاب الدین سہروردی ؒ سے روحانی فیض حاصل کیا۔ سہروردی سئیں نے خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کو ملتان پہنچ کر دین کیلئے کام کرنے کی تلقین فرمائی۔ ملتان پہنچ کر آپ نے تبلیغ شروع کر دی، غیر مسلم امراء کے غیر انسانی رویوں سے نالاں لوگ جو ق در جوق حضرت کی خدمت میں پہنچ کر حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے، آپ نے شروع میں مدرسۃ الاسلام قائم کیا اور بعد میں اسے دنیا کے سب سے بڑی اقامتی یونیورسٹی کی حیثیت دے دی۔ اسی زمانے میں دریائے راوی ملتان کے قدیم قلعے کے ساتھ بہتا تھا اور اسے بندرگاہ کی حیثیت حاصل تھی۔ کشتیوں کے ذریعے صرف سکھر یا بکھر ہی نہیں منصورہ، عراق، ایران، مصر، کابل، دلی اور دکن کی تجارت ہوتی۔ اسی طرح ملتان کو دنیا کے بہت بڑے علمی، تجارتی اور مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی اور صرف ہندوستان سے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کا نام اور پیغام پہنچا۔ آپ نے لوگوں کے دلوں میں اس طرح گھر بنایا کہ 8صدیاں گذرنے کے باوجود آج بھی لاکھوں انسان ننگے پاؤں اور سر کے بل چل کر آپ کے آستانے پر حاضری دیتے ہیں اور عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔
حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ نے اپنی اقامتی یونیورسٹی میں مقامی زبان ملتانی میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ مختلف عالمی زبانوں مثلاً سنسکرت، بنگالی، سندھی، فارسی، عربی، جادی، برمی، مر ہٹی وغیرہ کے شعبے قائم کیے اور مذکورہ زبانوں کے طلباء کو تعلیم سے آراستہ کر کے وفود تشکیل دیئے اور ان وفود کو جماعتوں کی شکل میں تجارت اور تبلیغ کی غرض سے مختلف ممالک کیلئے روانہ کیا۔ تجارت کیلئے ہزاروں اشرفیوں کی صورت میں خود سرمایہ مہیا فرماتے اور ہدایت فرماتے رزق حلال کے حصول کیلئے تجارت کرنی ہے اور خدا کی خوشنودی کیلئے لوگوں کی خدمت۔ تبلیغی وفود کو روانگی سے پہلے پانچ باتوں کی نصیحت فرماتے۔
1۔ تجارت میں اسلام کے زریں اصول کو فراموش نہ کرنا۔
2۔ چیزوں کو کم قیمت منافع پر فروخت کرنا۔
3۔ خراب چیزیں ہر گز فروخت نہ کرنا اور مقامی زبان اور رسم و رواج اختیار کرنا۔
4۔ خریدار سے انتہائی شرافت اور اخلاق سے پیش آنا۔
5۔ جب تک لوگ آپ کے قول و کردار کے گرویدہ نہ ہوجائیں انہیں اسلام پیش نہ کرنا۔
حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ کے مدرسہ بہائیہ میں دنیا کی سب سے بڑی لائبیریری موجود تھی، لاکھوں کی تعداد میں کتابیں اس لائبیریری کی زینت تھیں، ایک روائت کے مطابق اس لائبیریری میں سینکڑوں قرآنی نسخے ایسے تھے جو " آب زر " یعنی سونے کے پانی سے لکھے گئے تھے مگر یہ صدیوں پرانی روائت چلی آ رہی ہے کہ ہر " ہلاکو " حملہ آور کا پہلا نشانہ وہاں کی کتابیں، وہاں کے علمی ادارے ہوتے ہیں، حملہ آوروں نے لائبیریوں اور کتب کو جلادیا، دربار شریف پر عظیم الشان لائبیریری کے قیام سے یقینا زکریا سئیں ؒ کی روح خوش ہو گی، حضرت بہاؤ الدین زکریا ؒ کو اپنی (ملتانی) سرائیکی زبان سے اس قدر پیار تھا کہ وہ خط و کتابت سرائیکی میں فرماتے تھے۔ اس سلسلے میں مخدوم حمید الدین حاکم اور بہاؤ الدین زکریا سئیں ؒ کے درمیان ہونے والی منظوم سرائیکی خط و کتابت " تئیں نہ مُتیاں گاجراں اساں نہ بھیجے بیر " نہایت ہی اہم حوالہ ہے اس سے یہ ثابت ہوا کہ آج سے آٹھ سو سال پہلے نہ صرف سرائیکی شاعری بلکہ سرائیکی کی مقبول ترین صنف " ڈٖوہڑہ " بھی مقبول اور دلپذیر تھا، آج حضرت بہاؤ الدین زکریا سئیں ؒ کی اُسی سرائیکی زبان کی عظمت بلند کرنے کی ضرورت ہے۔
ملتان کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ، ملتان کی قدامت پر غور کریں تو اس میں پورا جہان سما سکتا ہے، موہنجودڑو اور ہڑپہ، ایسے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں آباد شہر آباد گردش ایام کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے لیکن ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے، ملتان کو صفحہ ہستی سے ختم کرنے کی کوشش کرنے والے سینکڑوں حملہ آور خود نیست و نابود ہو گئے، آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں مگر ملتان آج بھی اپنے پورے قد کے ساتھ زندہ ہے۔ ملتان ہمیشہ سے حرفت و صنعت کا مرکز رہا۔ ملتان کے کاریگروں نے تاج محل جیسی عظیم الشان عمارت تعمیر کی تو ہندی میں کہاوت شامل ہوئی کہ "آگرہ اگر، دلی مگر، ملتان سب کا پدر" اسی طرح ملتان کے بارے سرائیکی کہاوت بھی مشہو رہے کہ " جئیں نہ ڈٹھا ملتان، او نہ ہندو نہ مسلمان" اسی طرح ملتان کی عظمت کے بارے اشعار کا خزانہ ہر جگہ موجود ہے۔ شیخ الاسلام حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کو اپنے شہر سے کتنی محبت تھی؟ وہ فرماتے ہیں:
ملتان ماء بجنت اعلیٰ برابر است
آہستہ پابنہ کہ ملک سجدہ می کنند
ملتان کے بارے جس ہستی نے یہ لافانی شعر کہا وہ ہستی خود کیا تھی؟ اس کا اپنا مقام اور مرتبہ کیا تھا؟ اور اس نے انسانیت کیلئے کیا کیا خدمت سر انجام دیں؟ اس بات کی تفصیل ایک مضمون میں نہیں بلکہ کئی کتابوں کی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے، آج زکریا سئیں کو نئے سرے سے جاننے اور دریافت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام تحقیقی اداروں، محکمہ اوقاف خصوصاً زکریا سئیں کے نام سے موسوم بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کو سر انجام دینا چاہئے مگر اس ستم ظریفی کو کیا کہا جائے کہ زکریا یونیورسٹی نے آج سے بہت عرصہ پہلے ایک زکریا چیئر قائم کی اور اسے غلاف پہنا کر الماری میں رکھ دیا، نہ فنڈ نہ سٹاف اور نہ کوئی کام، اردو میں اسے کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا، محکمہ اوقاف داتا دربار کی طرزپر سہولتیں مہیا کرنا تو کجا رہا زائرین کی رہائش کیلئے ایک کمرہ، ایک غسل خانہ یا ایک ٹینکی پانی کا انتظام بھی نہیں کر سکا۔