گندم برآمد کی بجائے درآمد
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک کو فوڈ سکیورٹی کے بڑے چیلنجز درپیش ہیں، نوجوانوں کی بیروزگاری بھی ایک مسئلہ ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ ایک وقت تھا کہ پاکستان گندم برآمد کرتا تھا اب دوسال سے درآمد کر رہا ہے۔ زرمبادلہ کے کم ذخائر بھی ہمارے لئے بڑا چیلنج ہیں۔
الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کے رہنما ئوں خصوصاً جہانگیر ترین نے دعویٰ کیا تھا کہ ملک کو زرعی پالیسی کا تحفہ دیا جائے گا، ایسی کسان دوست پالیسیاں بنائی جائیں گی جس سے چھوٹے کاشتکاروں کو ریلیف ملے گا، ہر قصبے اور ہردیہات میں زرعی صنعتیں قائم ہوں گی جس سے کاشتکار کو اُس کی پیداوار کا معاوضہ ملنے کیساتھ ساتھ بیروزگاری ختم ہو گی اور لوگ دیہاتوں سے شہروں کی طرف نہیں جائیں گے۔ مگر کچھ بھی نہ ہوا، جہانگیر کی جگہ فخر امام جاگیردار ہونے کے ساتھ ساتھ مثالی کاشتکار بھی ہیں۔ خانیوال میں نمبردار ایسوسی ایشن کے ضلعی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے تسلیم کیا کہ زرعی پیداوار کم ہوئی ہے، زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم باہر سے منگوانا پڑ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ وزیر اعظم کی طرح فخر امام بھی اعتراف کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ اصل مسئلے کی طرف توجہ دی جائے اور زیادہ سے زیادہ زرعی ادارے قائم کیے جائیں۔ پاکستان میں ہم زرعی اداروں کی طرف دیکھتے ہیں تو بہت کم ادارے نظر آتے ہیں۔
پاکستان زرعی تحقیقی کونسل (پارک) سب سے بڑی اور بنیادی زرعی تحقیقی تنظیم ہے۔ اس کا کام وفاقی و صوبائی حکومتوں کے زیر انتظام چلنے والے تمام اداروں کی سرگرمیوں کے درمیان ربط و ضبط پیدا کرنا ہے۔ علاوہ ازیں یہ کونسل خود بھی قومی اہمیت کے بڑے، زرعی منصوبوں پر طویل المیعاد تحقیقی کام کرتی ہے۔ پارک نے اپنے وسیع تحقیقی کاموں کی بہ سہولت انجام دہی کے لئے چند ذیلی مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ ان میں سب سے اہم نارک ہے یعنی نیشنل زرعی تحقیقی سنٹر، جو اسلام آباد میں ہے۔ دوسرے بڑے تحقیقی اداروں میں سے خاص خاص یہ ہیں: نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ برائے زراعت و حیاتیات، فیصل آباد۔ نیوکلیئر انسٹی ٹیوٹ برائے خوراک و زراعت، ترناب، پشاور۔ ایٹمی انرجی زرعی تحقیقاتی سنٹر ٹنڈو جام۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد۔ زرعی کالج بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان۔ زرعی کالج گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان۔ بارانی زرعی کالج، راولپنڈی۔ زرعی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کوئٹہ۔ نظامت ماہی گیری، پسنی بلوچستان۔
زرعی یونیوسٹی ایشیاء کی سب سے بڑی زرعی یونیورسٹی جو فیصل آباد میں واقع ہے اور صدر ایوب خان کے عہد میں ستمبر1961ء میں قومی زرعی کمیٹی کی ایک سفارش کے مطابق "پنجاب زرعی کالج و ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (قائم شدہ 1906ء)کو زرعی یونیورسٹی کادرجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ زرعی کالج سے ملحقہ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو کالج کی انتظامیہ سے الگ کر کے اس کا نیا نام "ایوب ایگری کلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ"رکھ دیا گیا۔ زرعی تعلیم اور زرعی تحقیقی کو ایک دوسرے سے الگ کر دینے سے زراعت کی ترقی اور ٹیکنالوجی میں توسیع کی گئی۔ نظامت زرعی تحقیق قائم کی گئی۔ ادارئہ تعلیم و توسیع زراعت کا قیام عمل میں آیا۔ زرعی یونیورسٹی کے مضافات میں زرعی اراضی حاصل کر کے مختلف تحقیقی و تجرباتی فارم قائم کئے گئے۔ زرعی یونیورسٹی میں 1976ء سے سمسٹر سسٹم کا طریقہ تعلیم رائج ہے۔ اس میں ایف ایس سی پری میڈیکل کے بعد طلبہ و طالبات کو بی ایس سی آنرز زراعت، بی ایس سی (آنرز)، ڈی وی ایم داخلہ دیا جاتا ہے۔ ہوم اکنامکس، رورل ہوم، اکنامکس، سوشل سائنسز کی تدریس کا بھی انتظام ہے۔ یونیورسٹی کو اعلیٰ ماہرین اور اساتذہ کی سربراہی حاصل رہی ہے۔ ڈاکٹر زیڈ اے ہاشمی اس کے وائس چانسلر تھے۔ موجوہ وائس چانسلر ڈاکٹر احمد ندیم شعری ہیں۔ در میانی عرصے میں ڈاکٹر اسرارالحق، ڈاکٹر امیر محمد خان، ڈاکٹر غلام رسول، میاں ممتاز علی خان، ڈاکٹر عبدالرحمن، ڈاکٹر محمد رفیق خان، ڈاکٹر محمد انوارالحق جیسے عظمائے زرعی سائنس یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں۔ یونیورسٹی کے قیام کے پہلے سال میں اس میں اساتذہ کی تعداد 176 تھی جن میں سے چار پی ایچ ڈی سکالر تھے، اور 55کے پاس ایم ایس سی کی ڈگری تھی۔ آج اساتذہ کی تعداد 500کے لگ بھگ ہے۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے زرعی تعلیم و تحقیق کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ صرف فیصل آباد میں ایک زراعتی کالج کام کر رہا تھا۔ آج پاکستان میں زرعی تعلیم و تحقیق و خدمات کے لئے 163زرعی ادارے قائم ہیں، جن میں سے تین زرعی یونیورسٹیاں، چار زرعی کالج، علاج مویشیاں کے لیے ایک بیطاری کالج، 54 تحقیقی و ترقیاتی و تربیتی ادارے، 5تربیتی مراکز، 36سٹیشن، 10تحقیقی و تفتیشی تجربہ گاہیں، 7تحقیقی و تجرباتی یونٹ، 13تحقیقی پیداواری یونٹ اور 30دیگر متعلقہ ادارے۔ ان 163زرعی اداروں میں سے 54 وفاقی حکومت57 حکومت پنجاب، 21حکومت سندھ، 15حکومت سرحد اور 6حکومت بلوچستان کے زیر انتظام ہیں۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ زرعی ریجن سرائیکی خطہ ہے مگر سب سے کم زرعی ادارے اور زرعی یونیورسٹیاں سرائیکی خطے میں ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ خان پور میں ایک زرعی ریسرچ سنٹر قائم ہوا تھا جو۲ یونیورسٹی بننے کے بجائے تنزلی کا شکار ہے اور اب اس کا بیشتر رقبہ لینڈ مافیا کہ قبضے میں جا چکا ہے۔ زرعی تحقیقاتی مرکز کا رقبہ واگزار کرا یا جائے اور خان پور میں شوگر فارم کے ہزاروں ایکڑ رقبے کو شامل کر کے زرعی یونیورسٹی بنائی جائے، مزید برآں نواز شریف زرعی یونیورسٹی ملتان کو فعال کرنے کے ساتھ ڈی جی خان، جھنگ، میانوالی اور رحیم یار خان میں زرعی یونیورسٹیاں بنائی جائیں۔