دیسی سال کا پہلا مہینہ
دیسی مہینے کا آغاز ہو چکا ہے، وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے اس دن کو پنجاب کلچر ڈے کا نام دیا اور اس سلسلے میں صوبے کے تمام انتظامی افسران کو ہدایات جاری کی گئیں کہ پوٹھوہار کے علاقے میں پوٹھوہاری، پنجاب میں پنجابی اور سرائیکی وسیب میں سرائیکی ثقافتی لباس زیب تن کر کے دفتروں میں آئیں۔ پنجاب کلچر ڈے کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے تاریخی حوالے سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مہاراجہ بکر ماجیت نے آریائی حکمرانی کے دور میں بھارت کو بکرمی کیلنڈر دیا جو کہ 14مارچ سے شروع ہوتا ہے۔ بکرمی کلینڈر کا پہلا مہینہ شمسی تقویم کے حساب سے چیت ہے۔ دوسرا بیساکھ پھر جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادوں، اسوج، کاتک، مگھر، پوہ، ماگھ اور پھاگن کے مہینے ہیں۔ پہلا مہینہ چیت30دن کا، دوسرا بیساکھ 31دن، پھر جیٹھ31، اساڑھ 32، ساون32، بھادوں 31، اسوج30، کاتک29، مگھر 29، پوہ 30، اور پھاگن کے بھی 30دن شمار ہوتے ہیں۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ نیا دیسی سال شروع ہوتا ہے تو وسیب میں آموں کا بور ہر طرف خوشبوئیں بکھیر دیتا ہے، گندم کا دانہ پکنا شروع ہو جاتا ہے اور ہر طرف پھولوں کی بہار ہوتی ہے، اسی بناء پر وسیب میں نئے ولولے، نئی امنگ اور نئی خوشیوں کے شادیانے بجتے ہیں۔
ہم ذکر کر رہے تھے پنجاب کلچر ڈے کا تو وسیب کے بہت سے اضلاع میں ڈپٹی کمشنر صاحبان نے سرائیکی پگڑی اور گلے میں سرائیکی اجرک ڈال کر یہ دن منایا، بلا شبہ انسانی زندگی میں وقت کی بہت اہمیت ہے۔ جب انسان کو شعور آیا تو اُس نے اپنی سہولت کے مطابق سیکنڈوں کو منٹ، منٹوں کو گھنٹہ اور گھنٹوں کو دن اور دنوں کو مہینوں اور مہینوں کو سالوں میں تقسیم کیا۔ سائنسدان بتاتے ہیں کہ دنوں کی کمی بیشی سورج کی گردش اور موسموں پر منحصر رہی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سورج کے ساتھ ساتھ مہینوں کادورانیہ چاند کے طلوع اور غروب کے ساتھ بھی منحصر رہا ہے وسیب میں بکرمی سن کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے اسے وسیب میں دیسی مہینے کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کا آغاز یکم چیت سے ہوتا ہے۔ جب یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو مارچ کی 14تاریخ ہوتی ہے۔ ہندوستان میں جب تک انگریز قابض نہ ہوئے تھے تو تمام نظام دیسی مہینے سے چلتا تھا، وسیب میں شادی و دیگر تقریبات آج بھی انہی مہینوں کی مناسبت سے منعقد کی جاتی ہیں۔ جب دیسی مہینے کا آغاز ہوتا ہے تو موسم بہار شروع ہونے کے ساتھ ساتھ تقریبات کی بھی بہار آ جاتی ہے۔ وسیب کے اکثر تاریخی میلے اور شادیاں اس ماہ منعقد ہوتی ہیں کہ یہ مہینہ موسمی اعتبار سے معتدل مہینہ ہے۔
آج بھی پاکستان کے مختلف علاقوں بالخصوص سرائیکی وسیب میں کسان فصلوں کی کٹائی اور بوائی کے لئے یعنی دیسی کیلنڈر استعمال کرتے ہیں اگر آپ کو چولستان جانا ہو تو وہاں انگریزی تاریخوں سے کوئی واقف نہیں سب دیسی تاریخوں کو جانتے ہیں۔ پاکستان کے تمام اُردو اخبارات میں اسلامی اور مغربی کیلنڈر کے ساتھ ایک اور تاریخ وسن بھی لکھا ہوتا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ نہ صرف اس کیلنڈر سے واقف ہیں بلکہ اس کا تاریخی پس منظر بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ البتہ دیہات میں آج بھی مذہبی رسومات، موسم کی تبدیلی کا اندازہ چاند کی گردش، بارش کی پیش گوئی حتیٰ کے بچے کی پیدائش بھی اسی کیلنڈ ر سے یاد رکھی جاتی ہے۔ بالخصوص جو بوڑھے اسی نوے سال کے لگ بھگ ہیں۔ نیپال میں تویہ سرکاری کلینڈر کے طورپر استعمال ہوتا ہے گوکہ وہاں مغربی کلینڈر کیلنڈر بھی استعمال ہوتا ہے مگر لوگوں کی اکثریت انڈین سول کیلنڈر استعمال کرتی ہے۔ یہ شمسی کیلنڈر ہے جو کہ قدیم روایات پر مشتمل ہے۔ یہ مشرقی کیلنڈر 56.7سال مغربی کیلنڈر سے آگے ہے۔ بکرماجیت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کے علاقہ اُجان کا بادشاہ تھا جبکہ تاریخ ڈیرہ غازی خان کے مصنف ڈاکٹر احسان احمد چنگوانی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ بکرماجیت ڈیرہ غازی خان کے علاقے میں پیدا ہوا۔ بکرماجیت کہاں پیدا ہوا؟ اس بحث سے ہٹ کر ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ دیسی کیلنڈر آج بھی قابل عمل اور کامیاب ہے۔
عالمی سطح پر کیلنڈروں کی تاریخ پر غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا میں سب سے کامیاب سمجھا جانے والا راجہ بکرماجیت کا دیسی کیلنڈر شمسی ہے۔ ایران اور بہائی اور کیفائی کیلنڈر بھی شمسی ہیں۔ مصری، عبرانی، عراقی، لبنانی کیلنڈر بھی قمری ہیں۔ عبرانی کیلنڈر کی تاریخ 3760بتائی جاتی ہے۔ اس کا آغاز یکم اپریل سے ہوتا ہے۔ عیسوی کیلنڈر حضرت عیسیٰ کے مصلوب ہونے کے بعد بنا تھا۔ یہ بھی شمسی کیلنڈر ہے۔ عیسوی کیلنڈر میں ہر چوتھا سال لیپ کا سال ہوتا ہے اس میں 366دن ہوتے ہیں۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مسلم مخالف ناقدین ہجری کیلنڈر کو ناکام کیلنڈر کا نام دیتے ہیں اور یہاں تک بڑے بول بول جاتے ہیں کہ مسلمانوں میں نامور سائنسدان پیدا نہیں ہوا، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یورپ نے جو ترقی کی اُس کا اصل مسلم سائنسدانوں کی میراث ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمان مذہب سے ہٹ کر کرسی اور اقتدار کے پیچھے پڑ گئے اور مذہبی رہنمائوں نے معاشی مقاصد کے تحت مسلمانوں کو مسلک کے چکر میں ڈال دیا اور مسلم اُمہ فرقوں میں بٹ گئی۔
ایک مسلم سائنسدان کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ ابو عبد اللہ محمد بن جابر بن سنان الحرانی البتانی پہلے مسلم سائنسدان تھے جنہوں نے شمسی سال کا درست دورانیہ بتایا۔ وہ ایک بڑے ماہر فلکیات اور ماہر نجوم تھے۔ ریاضی میں انہوں نے بہت کام کیا۔ یہ حران(ترکی)میں پیدا ہوئے لیکن خود عرب نژاد تھے۔ اُن کے قدیم آبائو اجداد کا تعلق صابی مذہب سے تھا جو ستاروں کی پوجا کرتا تھا۔ ان کے والد بھی ایک مشہور سائنسدان تھے اور ابتدائی تعلیم البتانی سے انہوں نے حاصل کی۔ وہ عظیم تر مسلمان ماہر فلکیات قرار دئیے جاتے ہیں، اور اس شعبے میں انہوں نے بہت سی اہم دریافتیں کیں۔ بلاشبہ علم مسلمانوں کا ورثہ ہے۔ آج بھی ہم اپنی اولاد کو علم پڑھائیں، دینی مدارس میں مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ سائنس بھی پڑھائی جائے کہ سائنس اور مذہب دو الگ الگ چیزیں نہیں بلکہ مسلمانوں کی اصل میراث سائنسی علوم ہیں۔