دربار خواجہ محمد یار فریدی ؒ کی سجادگی کا مسئلہ
بزرگان دین کے آستانے محبتوں کے مراکز اور نفاق کی بجائے اتفاق کی علامت ہیں۔ خان پور کے نواحی قصبہ گڑھی اختیار خان میں صوفی شاعر حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کا دربار مرجع خلائق ہے۔
آستانہ کے گدی نشین خواجہ غلام قطب الدین فریدی بہت اچھے اور صاحب بصیرت انسان ہیں، انہوں نے خانقاہی نظام کو روایتی طریقہ کار سے ہٹ کے جدید اور سائنٹیفک انداز میں دیکھنے کی کوشش کی ہے اور دربار کے ساتھ مکتب کو جوڑا ہے اور وہ بھی جدید تعلیم کے حوالے سے، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کے مشائخ کو ایک چھتری کے نیچے جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حاسدین ہر جگہ موجود ہوتے ہیں اور اچھائی کے کام میں روکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں، اس پر مریدین اور عقیدت مندوں کی طرف سے سخت رد عمل سامنے آیا اور وسیب کے اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر اس کا مسلسل تذکرہ ہو رہا ہے۔
اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق عقیدت مندوں کا کہنا ہے کہ سجادہ نشین غلام قطب الدین فریدی تین دہائیوں سے حضرت خواجہ محمد یار فریدی کے عظیم مشن کو فروغ دے رہے ہیں، ملکی و غیر ملکی سطح پر مشائخ و صوفیاء کے اتحاد کیلئے کام کیا، یہی وجہ ہے کہ ان کو مشائخ کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔
صوفی کا مقصد انسانوں کو انسانوں سے جوڑنا ہوتاہے، تفریق پیدا کرنے والے کسی صورت اس مشن کے پیروکار نہیں ہو سکتے۔ صاحب روضہ حضرت خواجہ محمد یار فریدی ؒ بھی اسی مشن کے پیروکار تھے۔ تصوف کے طالبعلموں کی آگاہی کیلئے ضروری ہے کہ ہم بزرگان دین کی حیات اور تعلیمات بارے زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کریں۔
تاریخی حوالے سے عرض کروں کہ حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ 1300ھ بمطابق 1883ء خان پور کے نواحی قصبے گڑھی اختیار خان میں پیدا ہوئے۔ اپنے وقت کے چند علماء مولانا رحمت اللہ، مولانا محمد حیات اور مولانا تاج محمود سے دینی تعلیم حاصل کی اورتحصیل علم کے بعد اپنے مرشد کی پیروی میں رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کر دیا۔
آپ کی تبلیغ کا بنیادی مقصد انسان دوستی اور مخلوق خدا سے پیار تھا۔ 1915ء میں آپ کو حج کی سعادت حاصل ہوئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے چاہنے والوں کا سلسلہ سے وسیع تر ہوتا گیا۔ وسیب کے ساتھ ساتھ آپ کے عقیدت مندوں اور ارادتمندوں میں پورے ہندوستان تک کے لوگ شامل تھے۔
خصوصاً لاہور میں آپ کے عقیدت مند کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ ایک روایت کے مطابق علامہ اقبالؒ بھی آپ سے متاثر تھے اور ایک مرتبہ علامہ اقبال نے خواجہ محمد یار فریدی ؒسے سرائیکی کلام سنا اور بہت گریہ فرمایا۔
حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کا وصال 14رجب المرجب 1367ھ بمطابق مئی 1947ء لاہور میں ہوا۔ لاہور میں آپ کے عقیدت مند لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔
خواجہ محمد یار فریدیؒ ایک بڑے صوفی شاعر تھے۔ آپ نے فارسی اردو اور سرائیکی میں شاعری فرمائی۔ سرائیکی وسیب میں ان کی شاعری خواجہ فریدؒ کی شاعری کی طرح بہت زیادہ مقبول ہے اور مذہبی اجتماعات اور تصوف کی محافل میں بہت زیادہ محبت سے پڑھی اور سنی جاتی ہے۔ سرائیکی شاعری بارے الگ سے ایک مضمون اور ایک کتاب کی ضرورت ہے۔ آپ کے کلام میں مرشد کا رنگ اتنا گہرا ہے کہ بعض اوقات سامعین خواجہ محمد یارؒ کے کلام کو خواجہ فریدؒ کا کلام سمجھ لیتے ہیں۔ خواجہ فرید کی طرح خواجہ محمد یار فریدی نے بھی تصوف میں اپنی شاعری کے رنگ بکھیرے۔ ملک کے معروف ادیب و ڈرامہ رائٹر اشفاق احمد بجا طور لکھتے ہیں خواجہ محمد یار فریدیؒ کا کلام پڑھتے ہوئے حیرانی ہوتی ہے کہ اس میں حضرت خواجہ فریدؒ کا لحن کہاں سے آگیا۔ معروف مذہبی سکالر سید محمد فاروق القادری لکھتے ہیں کہ ایک محفل میں مولانا محمد یار فریدی ؒسچے فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان بریلویؒ کی موجودگی میں منبر پر بٹھایا گیا۔ آپ نے خطبہ شروع کیا تو فاضل بریلوی نے اٹھ کر آپ کے گلے میں ہار ڈالا اور شاندار الفاظ میں آپ کی تحسین فرمائی۔ معروف دانشور اور نعت گو شاعر حفیظ تائب لکھتے ہیں کہ خواجہ باقی باللہؒ، بابا بلھے شاہؒ، شاہ لطیفؒ، رحمان باباؒ اور خواجہ فریدؒ جیسے بزرگوں نے "احمد بلامیم" کی بھی بات کی ہے مگر نعت و منقبت میں نظریہ وحدت الوجود کا برملا اظہار خواجہ محمد یار فریدیؒ نے فرمایا ہے۔
خان پور کی سرزمین ذرخیز اور مردم خیز ہونے کے ساتھ ساتھ محبتوں کی سرزمین بھی ہے، دریائے سندھ کے کنارے چاچڑاں شریف کا قصبہ ہے، جہاں حضرت خواجہ غلام فرید ؒ پیدا ہوئے، اس سے پہلے دین پور شریف آتا ہے جہاں عالمی حریت پسند مولانا عبید اللہ سندھی ؒ، حضرت خلیفہ میاں غلام محمددین پوری، مولانا عبداللہ درخواستی جیسی شخصیات آسودۂ خاک ہیں، شیخ عبدالستار ؒ کی درگاہ شریف ہے اور حضرت جیٹھہ بھٹہ کا مقبرہ بھی ہے۔ یہ صاحب مزار کی کرامت ہے یا خطے کی خوش قسمتی کہ اسی جگہ پاکستان کی سب سے بڑی شوگر مل قائم ہے، یہ وسیب کے کاشتکاروں کو عرصہ قریباً 60 سال سے معاشی فائدہ دے رہی ہے۔ سرائیکی وسیب جہاں انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے، وہاں اس صنعتی یونٹ کا وجود کسی نعمت سے کم نہیں، خانپور سے آپ مغرب کی طرف جائیں تو ایک قصبہ گڑھی اختیار خان آتا ہے جو کہ روحانی پیشوا حضرت خواجہ دُر محمد کوریجہ کا مسکن ہونے کے ساتھ ساتھ عاشق رسول حضرت خواجہ محمد یار فریدی کا آستانہ بھی ہے۔ جہاں ہزاروں لوگ اپنی روحانی پیاس بجھاتے ہیں۔ دربار خواجہ محمد یار فریدی گڑھی اختیار خان کے سجادہ نشین خواجہ غلام قطب الدین فریدی دربار سے ملحق لائبریری کمپیوٹر اکیڈمی، کنونشن ہال، ڈسپنسری ہاسٹل اور پل کی تعمیر کے منصوبے جاری کئے ہوئے ہیں، تصوف یونیورسٹی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خواجہ غلام قطب الدین فریدی کے کام میں برکت ڈالے اور یہ منصوبہ خواجہ محمد یار فریدی یونیورسٹی کی شکل میں سامنے آئے۔