Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Zahoor Dhareja
  3. Bulleh Shah Asan Marna Naahi

Bulleh Shah Asan Marna Naahi

بلھےؒ شاہ اساں مرنا ناہیں

عظیم صوفی بزرگ شاعر حضرت بابا بلھے شاہؒ نے فرمایا تھا کہ " بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں، گور پیا کوئی ہور " ان کی بات سو فیصد سچ ہے، وہ آج بھی زندہ ہیں۔ آپ کے 263 ویں سالانہ عرس کی تقریبات قصور میں جاری ہیں۔ آپ کے حالات زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؒ 1692ء ( 1103ھ ) میں اوچ شریف ضلع بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبداللہ تھا۔ ان کے والد کا نام سخی محمد درویش تھا۔ آپ چھ سال کی عمر کو پہنچے تو گھر والے اوچ شریف سے پہلے ملک وال اور پھر موضع پانڈو کے (قصور ) آ گئے۔ بلھے شاہ جوانی میں قصور آ گئے اور مولوی غلام مرتضیٰ سے فیض حاصل کیا۔ بابا بلھے شاہ حضرت شاہ عنایت قادری کے ہاتھ پر بیعت کی اور ان کو اپنا مرشد بنا لیا۔ 1141ھ میں جب حضرت شاہ عنایت قادری انتقال کر گئے تو بابا بلھے شاہ ان کے خلیفہ بن گئے اور قریباً 20 سال تک معرفت اور سلوک کی تعلیم دیتے رہے اور باقی عمر قلندری میں گزار دی۔ آپ 1757ء (1171ھ ) قصور میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ بابا بلھے شاہ بہت بڑے صوفی شاعر اور بزرگ ہیں، انکی کافیاں ایک صوفی پر وجد طاری کر دیتی ہیں، ان کی کافیاں پُر تاثیر ہیں، بابا بلھے شاہ کی کافیاں اور عارفانہ کلام قریباً ہر خطے میں پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ اپنی جائے پیدائش اوچ شریف کا ذکر آپ فرماتے ہیں:

تساں اُچے تہاڈی ذات وی اُچی

تُساں وچ اُوچ دے رہندے

اساں قصوری ساڈی ذات قصوری

اساں وچ قصور دے رہندے

بابا بلھے شاہ ؒ ایک بہت بڑے عالم فاضل تھے، ان کے حالات زندگی سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے والد سخی شاہ محمد درویش مسجد کے امام تھے اور مدرسے میں بچوں کو پڑھاتے تھے۔ بلّہے شاہ نے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ قصور جا کر قرآن، حدیث، فقہ اور منطق میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ قرآن ناظرہ کے علاوہ گلستان بوستان بھی پڑھی اور منطق، نحو، معانی، کنز قدوری، شرح وقایہ، سبقاء اور بحراطبواۃ بھی پڑھا۔ شطاریہ خیالات سے بھی مستفید ہو ئے۔ ایک خاص سطح تک حصولِ علم کے بعد ان پر انکشاف ہوا کہ دنیا بھر کے علم کو حاصل کر کے بھی انسان کا دل مطمئن نہیں ہوسکتا۔ سکونِ قلب کے لیے صرف اللہ کا تصور ہی کافی ہے۔ اسے اپنی ایک کافی میں یوں بیان کیا۔ علموں بس کریں او یار۔ اکّو الف تیرے درکار وہ خود سیّد زادے تھے لیکن انہوں نے شاہ عنایت کے ہاتھ پر بیعت کی جو ذات کے آرائیں تھے اس طرح بلھے شاہ نے ذات پات، فرقے اور عقیدے کے سب بندھن توڑ کر صلح کل کا راستہ اپنایا۔ مرشد کی حیثیت سے شاہ عنایت کے ساتھ ان کا جنون آمیز رشتہ ان کی مابعد الطبیعات سے پیدا ہوا تھا۔ وہ پکے وحدت الو جودی تھے، اس لیے ہر شے کو مظہر خدا جانتے تھے۔ مرشد کے لیے انسان کامل کا درجہ رکھتے تھے۔

حضرت بابا بلھے شاہؒ کی شاعری انسان دوستی کی شاعری ہے۔ انہوں نے انسان کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ آپؒ کی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ کی شاعری دراصل دلیرانہ اسلوب اور طاقتور خطاب ہے۔ عشق مجازی کے ساتھ ساتھ عشق حقیقی کے مضامین آپ کی شاعری میں کثرت سے ملتے ہیں۔ وہ اسلام کے مبلغ تھے مگر انہوں نے نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کی اجارہ داری کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے حاکم وقت کے سامنے بھی کلمہ حق کہا۔ آپ کی صوفیانہ شاعری انسان دوستی کا ایک ایسا حوالہ ہے جو کہ تین صدیاں بیتنے کے باوجود بھی آج کی بات لگتی ہے۔ انسان دوستی کے حوالے سے آپ فرماتے ہیں :

مسجد ڈھادے مندر ڈھا دے

ڈھا دے جو کجھ ڈھیندا

اک بندے دا دل نہ ڈھاویں

رب دلاں وچ رہندا

آپ کا عہد مغلیہ سلطنت کا عالمگیری عہد ہے، ان دنوں درباری لوگ بہت تھے، دربار میں خوشامد پسند پڑھے لکھے لوگوں کی بھی کمی نہ تھی۔ بڑے بڑے منصب دار خوشامدوں میں لگے ہوئے تھے۔ ان میں سے علمائے وقت بھی شامل تھے وہ مذہب کے پابند تھے مگر مذہب کے نام پر جن لوگوں نے مذہب کو نقصان پہنچایا ان کے خلاف بابا بلھے شاہ نے کھل کر لکھا۔ وہ علم کے ساتھ ساتھ عمل پر بھی زور دیتےتھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمل کے بغیر علم کچھ نہیں۔ وہ فرقوں کے بہت خلاف تھے اور اس وقت دربار کی عالمگیری سوچ بھی عقیدے اور فرقے کی طرح بن گئی تھی۔ اس وقت لاقانونیت، خانہ جنگی، انتشار اور افغانستان کے توسیع پسندانہ عزائم پورے علاقے کو متاثر کر رہے تھے۔ ایسے موقع پر بابا بلھے شاہ ؒ نام نہاد درباری مبلغین کو للکارا اور جو لوگ بہروپ بناتے ہیں اور دکھاوے کے عمل کرتے ہیں ان کے متعلق فرمایا :

پڑھ پڑھ علم کتاباں والا نام رکھایا قاضی

ہتھ وچ پھڑ کے تلوار نام رکھایا غازی

مکے مدینے گھوم آیا تے نام رکھایا حاجی

او بلھے آ حاصل کی کیتا؟ جے توں رب نہ کیتا راضی

بہت سے سرمایہ داروں اور طالع آزما مذہب کے ٹھیکیدار مذہب کی آڑ لیکر غریبوں کا استحصال کرتے ہیں، سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کیلئے دولت کے انبار لگاتے ہیں اور پھر ہاتھ میں تسبیح، ماتھے پر محراب اور ہر سال حج کے علاوہ سال میں کئی بار عمرے، یہ سب دکھاوے کے عمل ہیں۔ ہم بابا بلھے شاہ ؒ کے دور کو دیکھتے ہیں اور آج کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو دکھاوے کی عبادت کرنے والوں کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ غریب سے کوئی ہمدردی اور غمگساری نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ سب لوگ ایسے نہیں، ان میں سے بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جن کو اللہ نے توفیق دی ہے، وہ غریبوں کو کھانا بھی کھلاتے ہیں، غریبوں کی مدد بھی کرتے ہیں اور اللہ کی دی ہوئی توفیق سے حج عمرے بھی کرتے ہیں، مگر بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے پاس دولت کے انبار ہیں، وہ غریبوں کی مدد نہیں کرتے، البتہ دکھاوے کے لئے سب کچھ کرتے ہیں۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib