آہ!! مخدوم زاہد حسین شمسی
مخدوم زاہد حسین شمسی سجادہ نشین درگاہ شاہ شمسؒ ملتان گزشتہ روز وفات پا گئے، نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ گزشتہ روز ایک روزنامہ میں مرحوم کے صاحبزادے عون رضا کا بیان شائع ہوا کہ مجھے شک ہے کہ میرے والد کو قتل کیا گیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ محکمہ اوقاف سے بھی تنازعات چل رہے تھے اور میرے والد درست حالت میں عدالت گئے اور نشتر چوکی سے پولیس کا فون آیا کہ آپ کے والد فوت ہو چکے ہیں۔ نشتر ایمرجنسی سے ڈیڈ باڈی لے جائیں۔
ہم ڈیڈ باڈی لے آئے لیکن ان کی موت معمہ بنی ہوئی ہے۔ کوئی درست بات نہیں بتائی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ میں شواہد اکٹھے کر رہا ہوں اور اس پر ملتان انتظامیہ کو درخواست دونگا تاکہ شواہد سامنے آ سکیں۔ یہ تھا مرحوم کے بیٹے عون رضا کا بیان، اس بارے تحقیقات ہونی چاہئیں کہ مخدوم زاہد حسین شمسی ملتان کی ایک بڑی درگاہ کے سجادہ نشین ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے قانون دان تھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی وضعدار آدمی تھے۔
دربار حضرت شاہ شمس کا ذکر آیا ہے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم پس منظر سے آگاہی حاصل کریں۔ اس بارے عرض یہ ہے کہ حضرت شاہ شمس سبزواری کی ولادت با سعادت 15 شعبان 560ہجری کو ایران کے شہر سبزوار میں ہوئی۔ آپ کا شجرہ حضرت امام جعفر صادق سے ملتا ہے، اس لئے آپ کو جعفری کہا جاتا ہے، اور آپ آل محمدؐ میں سے ہیں، خاندانی شجرا کے مطابق آپ حسینی ہیں، کیونکہ آپ کی نسبت حضرت امام حسینؓ سے ہے۔ آپ کا شجرہ مبارک حضرت امام جعفر صادق سے ہوتا ہوا 19 ویں پشت پر حضرت علی ؓ سے ملتا ہے۔ حضرت شاہ شمس نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سید صلاح الدین محمد سے حاصل کی۔ 16 سال کی عمر میں آپ نے تمام دینی اور دنیاوی تعلیم مکمل کر لی تھی۔ آپ اپنے والد محترم کے ساتھ سبزوار سے دنیا کے مختلف ملکوں میں تبلیغ کی خاطر تشریف لے گئے، جہاں جا کر آپ نے اسلام کی شمع روشن کی اور ہزاروں غیر مسلم لوگ آپ کے کرم و فیض سے مشرف بہ اسلام ہوئے۔
طویل سفر کے بعد جب شاہ شمس تبریز ملتان پہنچے تو آپکی کشتی بھنور میں آ گئی۔ آپ نے اپنے تمام رفقاء سے فرمایا کہ کسی کے پاس مال دنیا تو نہیں ہے، سب نے کہا کہ ہمارے پاس مال دنیا نہیں ہے۔ شہزادہ محمد نکودار کے پاس چند ہیرے تھے آپ نے حضرت شاہ شمسؒ سے عرض کی کہ میرے پاس ہیرے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ دریا میں پھینک دو، جیسے ہی شہزادے نے ہیرے جواہرات کی پوٹلی دریا میں پھینکی تو کشتی صحیح سمت پر چل پڑی۔ کچھ آگے چل کر آپؒ نے کشتی کو کنارے پر لگانے کا حکم دیا اور دریا سے باہر آ گئے اور فرمایا کہ ہمیں یہیں قیام کا حکم ہوا ہے ( یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ کا مزار اقدس ہے )۔ آپؒ نے اپنے رفقاکو دیکھا تو شہزادے کا چہرہ مایوس نظر آیا۔ آپؒ نے پوچھا شہزادے کیوں مایوس ہو؟ شہزادے نے عرض کی کہ وہ ہیرے جواہرات آپ نے دریا میں پھینکوا دیئے وہ بہت قیمتی تھے۔ یہ بات سن کر آپ نے دریا کی طرف دیکھا اور مچھلیوں کو حکم دیا کہ اپنے منہ میں ہیرے جواہرات لے آؤ، جیسے ہی حکم ہوا تمام مچھلیاں ہیرے جواہرات لے کر دریا کنارے آ گئیں۔ روایت ہے کہ آپ نے شہزادے سے فرمایا کہ اپنے ہیرے پہچان کر لے لو، جب شہزادے نے دریا کی طرف دیکھا تو جہاں تک نظر جاتی مچھلیاں ہیرے جواہرات لے کر کھڑی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر شہزادہ آپؒ کے قدموں میں گر گیا اور کہا کہ مجھے ہیرے جواہرات کی ضرورت نہیں۔
صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی حضرت شاہ شمس کی ولایت کے قائل تھے۔ آپ کی مذہبی رواداری کو دیکھتے ہوئے آپ کے عقیدت مند ہو گئے۔ سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گرو نانک کی کئی معتبر کتب میں تذکرہ موجود ہے کہ وہ حضرت شاہ شمس ؒ کے عقیدت مند تھے اور حضرت شاہ شمس کے مزار پر نہ صرف حاضری دیتے بلکہ چالیس دن تک جاروب کش بھی رہے اور فیض حاصل کرتے رہے۔ آپ کی وفات 28 صفر المظفر 675 ہجری ملتان میں ہوئی۔ آپ کی عمر 115 برس تھی۔ آپ کی اولاد میں دو پسر سید نصیر الدین، سید علاؤ الدین احمد تھے، آپ کا روضہ مبارک کی اول تعمیر 667ھ میں ہوئی۔ دوسری مرتبہ تعمیر 730 ہجری میں کی گئی، آپ کے روضہ کی موجودہ تعمیر 1194ھ میں کرائی گئی۔ آپ کا جشن ولادت ہر سال 14، 15 شعبان المعظم کو منایا جاتا ہے۔ آپ کی سالانہ برسی 28، 29 صفر المظفر کو منائی جاتی ہے۔ جبکہ سالانہ عرس مبارک بسلسلہ کرامت آفتاب 19، 20 جیٹھ بمطابق یکم اور 2 جون کو منایا جاتا ہے۔
بارِ دیگر عرض کروں گا کہ مخدوم سید زاہد حسین شمسی کی وفات کا معمہ حل ہونا چاہئے۔ اگر ان کی موت طبعی ہے تو وارثان کو صبر سے کام لینا چاہئے، اگر خدانخواستہ پر اسرار طریقے سے ان کو قتل کیا گیا ہے تو قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا چاہئے۔ میں نے ایک مرتبہ پہلے بھی لکھا تھا اور آج بھی دہرا رہا ہوں کہ آج کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دور میں صوفیاء کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے، انسان دوستی کی ضرورت ہے، عدم برداشت سے چھٹکارے کی ضرورت ہے، یہ اس وقت ممکن ہے جب صوفیاء کے پیغام کو حقیقی معنوں میں عام کیا جائے۔ صوفیاء انسان دوست تھے اور انہوں نے انسان دوستی کا درس دیا۔ صوفیاء کرام مذہب کے معاملے میں بھی روا دار تھے اور تمام مذاہب کا احترام کرتے تھے مگر آج افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ بزرگان دین کے مزارات کو بھی مسلک اور فرقہ پرستی کے نام پر تقسیم کر دیا گیا ہے، جس سے صوفیاء کرام کا پیغام صحیح معنوں میں عام نہیں ہو رہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ سجادگان یا متولی بزرگانِ دین کے پیغام کو عام کریں، انسان دوستی کو عام کریں، قوم کو مسلک اور فرقہ واریت کے نام پر تقسیم نہ ہونے دیں کہ مذہب بہت ہی اعلیٰ چیز ہے اور مذہب کا سب سے بڑا دشمن فرقہ ہے۔ قوم کو فرقہ واریت سے نجات دلانا ہوگی اور انسانیت، انسان دوستی اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی، یہی صوفیاء کرام کا پیغام ہے۔