25 اگست ۔احمد فراز کی برسی
25 اگست، احمد فراز کا یوم وفات ہے۔ احمد فراز ایک شخص نہیں ایک عہد کا نام ہے۔ وہ بہت بڑے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بھی تھے، ان کے یوم وفات کے موقع پر ان کے پس منظر پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ ہے، قلمی نام احمد فراز، والد صاحب کا نام سید محمد شاہ برق، والدہ محترمہ سیدہ امیر جان اولاد میں تین بیٹے سعدی فراز، شبلی فراز اور سرمد فراز ہیں۔ احمد فراز 12 جنوری 1930ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ فارسی اور اردو میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول کوہاٹ سے حاصل کی، بعد ازاں ایڈورڈ کالج سے گریجویشن اور پشاور یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ ان کا پسندیدہ شعر یہ ہے:
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
احمد فراز کی مطبوعات میں شعری مجموعہ تنہا تنہا، درد آشوب، نایافت، شب خون، میرے خواب ریزہ ریزہ، جاناں جاناں، بے آوارگی گلی کوچوں میں، نابینا شہر میں آئنیہ، سب آوازیں میری ہیں، پس انداز موسم، بودلک ( منظوم ڈرامہ )، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں، شہر سخن آراستہ ہے شامل ہیں۔ احمد فراز کو بہت سے اعزازات حاصل ہوئے، ان میں آدمی جی قومی آیوارڈ، اباسین ایوارڈ برائے ادب، دھنک ایوارڈ، ڈاکٹر محمد اقبال ایوارڈ، نقوش ایوارڈ برائے ادب، ستارہ امتیاز برائے ادب، کمال فن ایوارڈ ( اکادمی ادبیات )، ہلال امتیاز برائے ادب شامل ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ایوارڈ بھی حاصل ہوئے جن میں فراق انٹرنیشنل ایوارڈ، بین الاقوامی ایوارڈ برائے زبان و ادب ٹورنٹو اکادمی ادبیات، جے این ٹاٹا ایوارڈ جمشید نگربرائے امن و انسانی حقوق، ملینیم میڈل آف آرنرز یو ایس اے، پہلا کیفی اعظمی ایوارڈ متحدہ عرب امارات، ای ٹی وی کمال فن ایوارڈ بھارت شامل ہیں۔ اس کے ساتھ احمد فراز مختلف اہم عہدوں پر تعینات رہے جن میں ڈائریکٹر پاکستان نیشنل سنٹر، ڈی جی و چیئرمین اکادمی ادبیات، چیف ایگزیکٹو لوک ورثہ، مینیجنگ ڈائریکٹر نیشنل بک فاؤنڈیشن شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ احمد فراز ایک شخص نہیں ادب کے ایک جہاں کا نام ہے اور ملک و قوم کیلئے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نے جو کچھ لکھا اپنے وطن کے لئے لکھا۔ ایک نظم میں وہ خود لکھتے ہیں
میرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
میرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے
اس لئے جو لکھا تپاکِ جاں سے لکھا
جب ہی تو لوچ کمان کا، زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں یا سلامت رہوں
یقیں ہے مجھے
کہ یہ حصار ستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا
یہ حقیقت ہے کہ حاکم کی کبھی شاعر سے نہیں بن پائی، خصوصاً آمر حکمران تو ہمیشہ شاعر سے خائف رہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کچھ درباری شاعر بھی ہوتے ہیں مگر حقیقی شاعر کو نہ دربار نے پسند کیا اور نہ درباریوں نے۔ البتہ جب شاعر اس دنیا سے رخصت ہوتاہے تو سرکار کی طرف سے تعریفی کلمات جاری ہوتے ہیں۔ شاعر اس جہاں میں نہ بھی ہو تو اس کے حرف بولتے ہیں اور اس کے ہاتھ کی لکھی ہوئی لکیریں باتیں کرتی ہیں۔ احمد فراز کی ایک نظم دیکھئے۔ اس میں آمر کے دربار اور درباریوں کی بات کی ہے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ دربار اور درباری کا ہمیشہ سے چولی دامن کا ساتھ ہے، آج بھی دربار موجود ہے تو احمد فراز کے صاحبزادے شبلی فراز بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ شبلی فراز دھیمے مزاج کے آدمی ہیں اور شرافت ان کا خاندانی ورثہ ہے، وہ سمجھدار بھی ہیں کہ ایک لحاظ سے ان کو اس بات کا علم ہے کہ میں نے کس حد تک جانا ہے، میرا کام کونسا ہے اور مشیر اطلاعات عاصم سلیم باجوہ کے ذمے کیا کام ہیں، یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان اچھے ریلیشن شپ موجود ہے جو کہ ملک و قوم کیلئے بہتر ہے، البتہ شبلی فراز صاحب کے لئے ان کے والد کی ایک نظم پیش کر رہا ہوں تاکہ وہ اس کے مطابق لائحہ عمل تیار کریں گے اور آگے بڑھیں۔ نظم یہ ہے :
حرف اور حکم
شاعر دیوانہ البیلا
بے در بے دربار اکیلا
حرف گری مذہب اس کا ہے
دنیا کا دکھ سب اس کا ہے
سچ کہتا ہے دکھ سہتا ہے
دکھ سہتا ہے سچ کہتا ہے
آمر کے لاکھوں درباری
اس سے خائف خلقت ساری
طبل و علم شمشیر اسی کی
خواب اس کے تعبیر اسی کی
پھر بھی شاعر سے ڈرتا ہے
سچے حرفوں سے مرتا ہے
احمد فراز نے وطن کی محبت میں بہت سی نظمیں لکھیں، ان میں ایک نظم یہ ہے " دائم آباد تیری حسیں انجمن اے وطن اے وطن " جیسی شاہکار نظمیں بھی شامل ہیں۔ بلا شبہ ان کی شاعری میں اپنے وطن کی محبتوں کے پھول بھی ہیں۔ ایک نظم ایسی بھی ہے جو کہ سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے لکھی گئی۔ یہ نظم رلا دینے والی ہے کہ سقوط ڈھاکہ ہماری تاریخ کا بہت بڑا المیہ ہے۔ اس نظم میں شاعر نے مایوسیوں سے بچ کر آگے بڑھنے کی بھی بات کی ہے۔ نظم دیکھئے:
ہر طرف رواں دواں، ظلمتوں کے کارواں
حادثے قدم قدم راستے دھواں دھواں
شعلیں بجھا گئیں روز و شب کی آندھیاں
پھر بھی اے مسافرو تم رہو رواں دواں
روشنی حیات ہے اور تیری ہے موت
پھر نئی امنگ سے گامزن ہو کارواں