Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Zahir Akhter Bedi/
  3. Bijli

Bijli

بجلی

بعض اہم اور ضروری مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ اگر حکمران چاہیں تو دنوں، ہفتوں، مہینوں میں آسانی سے حل کرسکتے ہیں، اگر حکمران نااہلی نکمے پن کا مظاہرہ کریں تو مہینوں یا زیادہ سے زیادہ تین چار سال میں حل ہونے والے مسائل برسوں بلکہ عشرے گزرنے کے باوجود اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتے۔

بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک ایسا ہی مسئلے ہے جو عشروں سے لٹکا ہوا ہے اور اس لٹکے ہونے کی پوری پوری ذمے داری حکمران طبقات پر آرہی ہے۔ پیپلز پارٹی، (ن) لیگ کی حکومتیں دو دو بار اقتدار میں آئیں، اقتدار کے دس سالوں میں ان کے کانوں پر جوں رینگی نہ مکوڑا۔ عوام مسلسل احتجاج کرتے رہے لیکن حکمرانوں کا ایک ہی چلن تھا "بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست۔"

احساس ذمے داری نامی ایک چیز ہر ملک کے حکمرانوں میں ہوتی ہے، کسی میں کم کسی میں زیادہ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ چیز ہمارے حکمرانوں کو چھو کر بھی نہیں گئی، حکومتیں آتی جاتی رہیں لیکن بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ وہیں کا وہیں رہا۔ ملک کے نوابین کے دور میں عوام لوڈ شیڈنگ ختم کرو کہ نعروں کے ساتھ سڑکوں پر آتے تھے اور ڈنڈے کھاتے اور آنسو پیتے تھے اور لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے مزے لوٹ کر ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ گھروں کو جاتے اور حکومت کے نکمے پن کا غصہ بیوی بچوں پر اتارتے تھے۔ یہ سلسلہ برسوں چلتا رہا نہ حکومتوں کو احساس ہوا نہ عوام کے صبر میں کوئی کمی آئی۔

اشرافیہ کی بادشاہی کم و بیش 70 سال رہی، اشرافیہ عرف مافیا اس لمبے چوڑے دور بلکہ آج بھی خوب کھل کر کھیلتی رہی، بے چارے عوام سڑکوں پر رلتے رہے۔ اشرافیہ دنیا میں جنت کے مزے لوٹتی رہی۔ اشرافیہ کی ایک عادت یا خصوصیت یہ ہے کہ وہ جمع بندی پر اتر آتی ہے تو آنے والی نسلوں کا خواہ وہ اپنی ہو یا پرائی ایمانداری سے حصہ نکال کر رکھتی ہے، آج آپ اشرافیہ کی اولاد کو دیکھیں وہ لندن، پیریس، نیویارک میں چھٹیاں گزار رہی ہے۔ دن رات فائیو اسٹار ہوٹلوں میں پاکستان کے غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی کو باپ دادا کی دولت کی طرح لٹا رہی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں عوام کے حقوق کی حفاظت حاکم ایلیٹ کرتی ہے، بے چارے عوام سوکھی روٹی کے حصول کے لیے تڑپتے رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے جب کہ عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے بے شمار ادارے، بے شمار ایجنسیاں رات دن ایک کر دیتی ہیں۔ بے چارے عوام ساری عمر اسی غلط فہمی میں گزار دیتے ہیں کہ پاکستان غریب عوام کے لیے خدا کا عطیہ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس عطیہ پر خواص نے پاکستان بننے کے فوری بعد قبضہ بالجبر کرلیا تھا۔

کسی گاؤں میں ایک حاکم تھا۔ بڑا ظالم، عیار، مکار، گاؤں کے عوام رو رو کر یہ دعا کرتے رہے کہ اے ساری دنیا کے مالک تو اس موذی سے ہماری جان چھڑا۔ قبولیت کا وقت تھا دعا قبول ہوگئی اور نئے حاکم نے عہدہ سنبھال لیا۔ بڑا خوبصورت منڈا تھا، چاق و چوبند رہتا تھا، ہر وقت عوام کی فلاح و بہبود کی باتیں کرتا۔ عوام رو رو کر اس نئے حاکم کو ماضی کے ظالم حاکموں کی داستانیں سناتے۔ وہ ہوں ہاں کرتا اور سر ہلاتا رہتا۔ ایک دن دو دن چار ماہ سال ڈیڑھ سال نئے حاکم کے مزاج میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

پتا چلا کہ ماضی میں یہ حاکم ایک بار کوئی گیم کھیل رہا تھا۔ ایک گیند بھائی حاکم سابق بولر کے سیدھے کان پر لگی بلکہ اس زور سے لگی کہ اس بے چارے کی سماعت جاتی رہی، عوام کی بدقسمتی یہ کہ ایک کان سے حاکم پہلے ہی بہرا تھا اب دوسرا بھی گیا۔ حاکم اس قدر ذہین تھا کہ سماعت سے محروم ہونے کے باوجود ہر ایک کی بات سنتا اور بات کرنے والے کو تسلی بھی دیتا کہ فکر "ماکاوا" تمہارا کام ہو جائے گا۔ بے چاری عوام کو پتا چل گیا تھا کہ نیا حاکم عوام کا بہت ہمدرد ہے لیکن سماعت سے محروم ہونے کی وجہ وہ عوام کے کام یوں نہیں آسکتا تھا کہ اسے عوام کے مسائل کی معلومات ہی نہیں تھیں اب رعایا عرف عوام کسی سننے والے حاکم کے لیے دعا گو تھی۔

حاکم وقت کی سماعت سے محرومی کی خطرناک بیماری کی وجہ لوٹ مار کے بار بار ریکارڈ توڑنے والی سابق حکمران اشرافیہ کے منہ سے رال ٹپک رہی ہے۔ ان لٹیروں کی مافیا میں ایسے ایسے نیک اور صالح سیاستان کم مذہبی رہنما ایک بار پھر لنگر لنگوٹ کس کر میدان سیاست میں اترنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہماری اپوزیشن نے اپنا ریکارڈ اتنا خراب کرلیا ہے کہ اب کم ازکم عوام اس اپوزیشن کو گھاس ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔ ورنہ کب کے نئے سماعت سے محروم رہنما کا تیا پانچہ کر ڈالتی اور ممکن ہے ایرے غیروں کی مدد سے سہ بار اقتدار کے سنگھاسن پر پدھارتی۔

بہرحال بات سماعت پر (عدالتی نہیں ) رکی ہوئی ہے، ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہمیں اپنے حقوق کا ہی احساس نہیں مثلاً جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت، جمہوریت کی اس تعریف سے کتابیں بھری ہوئی ہیں لیکن عوام کو تو کام کی کتابوں سے بیر ہے۔ ایک زمانہ تھا ملک میں ’ ڈائجسٹ نکلا کرتے تھے، عوام خواص سب اس میں بزی رہتے تھے اب چونکہ وقت گزارنے کے لیے عوام کے پاس کچھ نہیں اور ساتھ ساتھ جمہوریت بے زاری بھی چل رہی ہے دیکھیں خدا کیا کرتا ہے اور سماعت سے محروم حکمرانوں کی سماعت بحال ہوتی ہے یا نہیں، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

Check Also

Colombo Mein Guzra Aik Din

By Altaf Ahmad Aamir