سیاسی افق پہ چھائے بادل
پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر تیزرفتار تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ حالیہ ضمنی اور سینیٹ انتخابات اس کے مظہر ہیں۔ زیادہ تر تجزیہ کار یہ جاننے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں کہ آنے والے دنوں میں مزید کون سے چونکا دینے والے واقعات رونماہونے والے ہیں۔
حالیہ صورت اور بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے پر بحث اور گفتگو اپنی جگہ لیکن جس امر پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان اس نوعیت کی صورت حال سے بار بارکیوں دوچار ہوتا ہے۔ ہم اپنے ماضی کے تجربات سے کوئی سبق سیکھنے پر تیارکیوں نہیں ہوتے اور یہ سلسلہ اسی طرح کب تک جاری رہے گا۔
گزرے دنوں کے معاملات دیگر تھے۔ بالخصوص سرد جنگ کے زمانے میں کسی بھی ملک کے حکمرانوں پر کوئی مشکل وقت آیا کرتا تھا توسابق سوویت یونین، امریکا اور چین میں سے کوئی نہ کوئی ان کی مدد کرنے کے لیے موجود ہوتا تھا۔ میرا تو کہنا ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں دنیا کے لوگوں کو بے پناہ نقصانات اٹھانے پڑے لیکن مختلف ملکوں میں برسر اقتدار طبقات کوکبھی کسی مشکل سے دوچار نہیں ہوناپڑا۔ حکمرانوں کو اپنے ملکوں کے عوام یا ان کی جمہوری امنگوں کا کوئی پاس نہیں ہوتا تھا کیوں کہ ان کو حکومت کرنے کے لیے عوام کی نہیں بلکہ کسی عالمی طاقت کے سہارے کی ضرورت ہوتی تھی۔
سرد جنگ کے خاتمے نے حالات یکسر تبدیل کر دیے ہیں۔ وہ ملک بالخصوص زیادہ بحران کا شکار ہوگئے ہیں جو اپنی معاشی ترقی کے لیے مکمل طور پر امریکا یا سابق سوویت یونین کی امداد پر انحصارکیا کرتے تھے۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک بھی ایسے ہی ملکوں میں شامل تھا۔
ہم نے امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر کام کیا، اس کے جوفوائد حاصل ہوئے وہ عوام کو نہیں ملے بلکہ حکمرانوں نے اس سے بھرپور مالی اور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ 1990 کے بعد جب ترجیحات تبدیل ہوگئیں اور سرد جنگ میں امریکا فتح یاب ہوا تو اس نے تیسری دنیا میں موجود اپنی اتحادی بلکہ طفیلی ریاستوں کی مدد سے ہاتھ کھینچنا شروع کردیا۔ یہ دنیا کی بدقسمتی تھی کہ 9/11 کا سانحہ رونما ہوگیا۔ دنیا کو اس کا جو نقصان اٹھانا پڑا وہ اپنی جگہ لیکن اس کی غیر معمولی قیمت پاکستان اور اس کے عوام کو ادا کرنی پڑی۔ اس کے برعکس ہمارے حکمرانوں کو اس واقعہ کا خوب فائدہ ہوا۔
امریکا اور مغرب کی نظر میں پاکستان دوبارہ اہمیت اختیارکرگیا اور جنرل پرویز مشرف نے اپنے ملک کے لیے کوئی بڑا معاشی پیکیج لینے کے بجائے امریکا کی تمام شرائط قبول کرلیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو امریکا کا غیر مشروط اتحادی بنا دیا۔ ان کے نزدیک صرف اس بات کی اہمیت تھی کہ امریکا اور مغرب ان کی غیر آئینی فوجی آمریت کو قبول کر لے۔ اب کہ جب دہشت گردی کا بڑی حد تک قلع قمع ہوگیا ہے تو امریکا نے ایک بار پھر ہمارے حکمرانوں سے نظریں پھیرلیں اور پاکستان کے لیے مشکل وقت دوبارہ آگیا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مشکل وقت کا سامنا ہمیں کس طرح کرنا چاہیے تھا اور مستقبل کے بارے میں کس طرح کی منصوبہ بندی کی جانی چاہیے تھی؟
آج پاکستان جس معاشی اور سیاسی بحران میں مبتلا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقات بالخصوص وہ طاقت ور حلقے جو ماضی میں پاکستان کی معاشی اور سیاسی قسمت کے تعین میں فیصلہ کن کردار ادا کیا کرتے تھے انھوں نے خود کو تبدیل کرنے کی کوئی شعوری اور سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ انھوں نے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا کہ سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد اب دنیا جمہوریت کی طرف بڑھ رہی ہے، وہ اس لیے جمہوریت کی طرف پیش قدمی نہیں کررہی ہے کہ اچانک اور راتوں رات جمہوریت سے عشق ہوگیا ہے۔
دنیا کے ملکوں میں جمہوری نظام اس لیے طاقت ور ہو رہا ہے کہ اب غیر جمہوری نظاموں اور آمرانہ طاقتوں کی عالمی سطح پر کوئی حمایت باقی نہیں رہی ہے۔ اب نہ سابق سوویت یونین کو فوجی یا شخصی آمروں اور نہ ہی امریکا اور اس کے اتحادیوں کو آمرانہ اور بادشاہی حکومتوں کی کوئی ضرورت ہے۔ جمہوریت اب ملکوں کی مجبوری اور ضرورت دونوں بن چکی ہے۔
پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد پاکستان میں جمہوری عمل دوبارہ بحال ہوا۔ ماضی کے مقابلے میں نئی جمہوری حکومتوں کو اندازہ تھا کہ اب ان کی مخالف قوتوں کو پہلے کی طرح پرجوش حمایت اور پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ لہٰذا انھوں نے انداز حکمرانی تبدیل کی اور اطاعت گزاری کے بجائے بعض اہم امور پر اپنے موقف کو منوانے پر اصرارکیا۔ یہی وہ وقت تھا جب بدلتے ہوئے پاکستان اوراس کی نوزائیدہ جمہوری حکومتوں کو مدد اور تعاون کی شدید ضرورت تھی۔ بدنصیبی یہ ہوئی کہ ایسا نہ ہوسکا اور پاکستان کے جمہوری عمل میں وہ تسلسل جاری نہیں رہ سکا جس کی اسے شدید ضرورت تھی۔
پچھلے 12 برسوں سے سیاسی طور پر بے یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ سیاسی افق سے غیر یقینی کے یہ بادل کب چھٹیں گے۔ بہرحال یہ کام جس قدر جلد ممکن ہے کرلیا جائے کیوں کہ اس میں کسی ایک فرد، ادارے، سیاسی جماعت کا نہیں بلکہ سب کا مفاد مضمر ہے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں سب کو اس کے مضمرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غلطیوں سے جس قوم نے جلد سبق سیکھا وہ خطرناک بحرانوں سے محفوظ رہی۔
ہم کو ماضی کی نفسیات سے باہر نکلنا ہوگا۔ سات دہائیوں سے ہم نے بیرونی امداد پر انحصار کیا ہے۔ اب بھی ہمارے اندر کہیں یہ خواہش چھپی بیٹھی رہتی ہے کہ دنیا یا ہمارے خطے میں کوئی بحران پیدا ہوجائے اور مغرب یا چین کو دوبارہ ہماری ضرورت پیش آجائے اور ان کی مدد کے عوض ہم خود کو معاشی بحران سے باہر نکال لیں۔ اب یہ سمجھ لینا ہوگا کہ دنیا ایک معاشی اکائی میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اب بڑے ملکوں کو فوجی اتحاد سے زیادہ معاشی تعاون اور رابطوں کی ضرورت ہے۔ دنیا کا ہر ملک سب کے لیے کھلا ہے۔ سرمائے اور ٹیکنالوجی کی ضرورت سب کو ہے۔ جس ملک میں سیاسی اور جمہوری استحکام ہوگا سرمایہ اور ٹیکنالوجی اسی ملک کا رخ کرے گی۔
اس حوالے سے ہمیں اپنی ماضی کی نفسیات بدلنی ہوگی۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ جو ملک معاشی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ہوگا، اس کی بات اتنی ہی زیادہ مانی جائے گی۔ اب ملکوں کے درمیان دوستوں کی تشریح کے لیے پہاڑوں کی بلندیوں، سمندروں کی گہرائیوں یا مذہبی یکجہتی جیسے استعاروں کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ جب تک کسی ملک کا معاشی مفاد ہم سے وابستہ نہیں ہوگا اس وقت تک کوئی ہماری طرف نگاہ اٹھاکر بھی نہیں دیکھے گا۔ پرانے تنازعات کو معاشی ترقی کے عمل، علاقائی اور بین الاقوامی روابط کی راہ میں حائل رہے تو ہم دنیا میں تنہا رہ جائیں گے۔
پاکستان بار بار اس نوعیت کے سیاسی و معاشی بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بہتر ہوگا کہ حکمت کی راہ اختیارکی جائے، مثبت نوعیت کی جمہوری اقدار کو فروغ دیا جائے اور ماضی کی تصوراتی دنیا سے باہر نکل کر مستقبل کی حقیقت پسندانہ دنیا میں پہلا قدم رکھ دیا جائے۔ اس کے لیے کچھ اور نہیں بلکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور آج کی دنیا کے تقاضوں کو سمجھنا ضروری ہے۔
یہ کام اب کرہی لیا جائے تو اچھا ہے۔