منٹو سے کیا ہوا وعدہ
چند دنوں پہلے میرے ایک عزیز دوست اور پاکستان کے مشہور سیاسی تجزیہ نگار شاہین صہبائی کا امریکا سے یہ پیغام آیا کہ وہ مجھے ایک کتاب بھجوا رہے ہیں جو ان کے والد قدوس صہبائی مرحوم کی زندگی کی کہانی ہے۔ یہ کتاب جس کا نام "میری رانی، میری کہانی"ہے، چند دنوں بعد مجھے مل گئی۔
ایک نہایت دلچسپ اور اداس کردینے والی محبت کی کہانی۔ اپنی زندگی کا قصہ قدوس صہبائی صاحب نے 50 کی دہائی میں سعادت حسن منٹوکو سنایا تو ان کا کہنا تھا کہ اس قصے کو لکھ ڈالو، یہ لوگوں کو بہت متاثر کرے گا اور برطانوی راج کے زمانے کی زندگی بھی لوگوں کی سمجھ میں آجائے گی۔ اس کے فوراً بعد ہی منٹوکی زندگی شراب خانہ خراب کے دریا میں ڈوب گئی۔
قدوس صہبائی اپنی بیوی اور بچوں کی زندگی کو سنوارنے میں مصروف ہوگئے۔ ان کا بہت ہولناک کار ایکسیڈنٹ ہوا، مر مرکے بچے اور لگ بھگ دو برس بعد جب طبیعت کچھ سنبھلی تو انھوں نے کاغذ، قلم سنبھالا اور اپنی زندگی کے بارے میں لکھنے بیٹھ گئے۔ خود نوشت 1973 میں مکمل ہوئی، انھوں نے جن صفحات پر اپنا حال دل لکھا تھا، اس کی جلد بند کرائی اور اسے گھرکی ایک الماری میں رکھ کر یوں مطمئن ہوگئے جیسے منٹو سے کیا ہوا وعدہ پورا ہوگیا ہو۔ صہبائی خاندان کا تعلق افغانستان سے تھا۔
ہندوستان آکر بھی یہ لوگ فوج سے ہی وابستہ رہے لیکن قدوس صہبائی کو پڑھنے اور لکھنے سے ایسی گہری دلچسپی ہوئی کہ خاندان والوں کے خیال میں انھوں نے اپنے گھر والوں کی ناک کٹوا دی۔ اس زمانے میں صحافت ایک ایسا پیشہ تھی جس کا مطلب مولانا حسرت موہانی اور دوسرے قوم پرست ادیبوں کی طرح چکی پیسنا اور جیل جانا تھا۔ قدوس صہبائی کارل مارکس کے فلسفۂ معاشیات کے پیروکار تھے اورکمیونزم کو ساری دنیا کے غریبوں کے مسائل کا حل سمجھتے تھے۔
یہ ایسے خیالات تھے جس سے ان کے والد اور خاندان کے بزرگ خوش نہ تھے، لیکن قدوس کو بزرگوں کی ناراضی کی پروا نہ تھی۔ وہ اپنے پیشے میں دل وجان سے ڈوبے ہوئے تھے کہ بیمار ہوئے اور ایک صحت افزا مقام پر بھیج دیے گئے، یہ علاقہ چھتیس گڑھ کے نام سے مشہور تھا۔ اس کے راجا ایک روشن خیال راجپوت حکمران تھے۔ ان کی تین بیٹیاں تھیں جنھیں انھوں نے انگریزی تعلیم دلائی تھی اور ہر سال یورپ لے کر جاتے تھے۔ ان کی چھوٹی بیٹی رانی وجے روپ کی شادی ایک راج کمار سے ہوئی۔
یہ پسند کی شادی تھی اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش تھے لیکن تقدیر سے انسانوں کی خوشی بھلا کب دیکھی جاتی ہے چنانچہ راجکمار ایک کار ایکسیڈنٹ میں ختم ہوگیا اور حسین و نوجوان راجکماری وجے روپ بیوہ ہوگئی۔ اس نے سال بھر راج کمار کے سوگ میں سیاہ لباس اورپھر سفید رنگ اختیارکر لیا۔ وہ دودھیا سفید رنگ کی ساڑی میں اپنی سفید بیوک گاڑی میں نکلتی اور سنسان پہاڑیوں، گھنے جنگلوں میں گھومتی رہتی۔
اس کی ریاست جنگلی اور خونخوار درندوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان درندوں کے سامنے انگریز افسروں کی ٹانگیں کانپتی تھیں لیکن راجکماری وجے روپ کا حسنِ بے پروا ان خونخوار جانوروں کو بھی خاطر میں نہ لاتا۔ وہ ریاست کی آن اور شان تھی اسی لیے بیوہ ہونے کے باوجود لوگ اسے تقریباً دیوی سمجھتے اور بہت سی رعایا تو اس کے سامنے ماتھا ٹیکتی۔ ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ آسمان سے اتری ہوئی اپسرا ہے اور اسی لیے شیر، چیتے اور بھیڑیے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔
ایک ایسی رومانی اور افسانوی فضا میں قدوس صہبائی اور راجکماری وجے روپ ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہوئے لیکن شدید خواہش کے باوجود دونوں شادی کے بندھن میں نہیں بندھ سکتے تھے۔ دونوں کی راہ میں کیسی رکاوٹیں آئیں، اس کا اندازہ قدوس صہبائی کی خود نوشت "میری رانی، میری کہانی" سے ہوتا ہے۔ مذہب ان دونوں کے راستے کی دیوار رہا اور پھر ہندوستان تقسیم ہوگیا۔
قدوس صہبائی اس دوران ایک لڑکی سے شادی کرچکے تھے، جس سے ان کے بچے تھے۔ راج کماری سے ان کی آخری ملاقات ممبئی میں ہوئی۔ اس ملاقات میں قدوس صہبائی کی بیوی بھی موجود تھیں۔ راجکماری نے دونوں کو شادی کی بدھائی دی، چند تحفے صہبائی کی بیوی اور ان کے بچوں کو دیے اور پھر دونوں ہمیشہ کے لیے جدا ہوگئے۔
اپنی اس خود نوشت میں انھوں نے راج کماری وجے روپ سے صرف عشق کا قصہ اور مرگِ محبت کا فسانہ ہی نہیں لکھا ہے بلکہ اس زمانے کی سیاست کا بھی احاطہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
3 ستمبر 1939 کا دن دنیا کے لیے وہ سیاہ دن تھا جس کی سیاہی افق عالم سے اب تک نہ مٹی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کا ڈنکا بج گیا تھا۔ ابتدا میں یہ جنگ یورپ تک محدود تھی اور اس کے اثرات ہندوستان پر زیادہ شدید نہ تھے۔
جرمنی نے 1940 کے موسم بہار اور پھر اگلے موسم گرما میں سارے یورپ کو روند ڈالا تھا۔ اگلے سال وہ انگلستان پر حملے کی تیاری کررہا تھا۔ 1940-41 کے دو سالوں میں ہٹلر سارے یورپ اور اٹلی کی مدد سے جنوبی یورپ کو بھی تسخیرکرچکا تھا۔ آسٹریا جرمنی میں شامل کرلیا گیا تھا۔ ترکی کے علاقہ مشرقی یورپ میں سوئٹزرلینڈ کے علاوہ وسطی یورپ میں اور اسپین پرتگال کے علاوہ مغربی یورپ میں شاید ہی کوئی علاقہ ایسا رہ گیا تھا جو ہٹلر کے اس جنگی جنون سے بچ سکا ہو۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ وجے روپ انگلستان میں تھی، جرمنی یا آسٹریا میں۔ یہ تفصیل مجھے چھ سات سال بعد جنگ کے خاتمے پر معلوم ہوسکی کہ وجے روپ جرمنی میں اور اس کے ماں باپ آسٹریا میں دشمن ملک کے باشندوں کی حیثیت سے پہلے نظر بند کردیے گئے پھر بڑی دشواریوں سے ان سب کو جرمنی کے ایک بڑے شہر میں یکجا کردیا گیا اور صرف چلنے پھرنے کی جزوی آزادی مل سکی۔
وجے روپ اور اس کے ماں باپ نے جنگ کے زمانے میں جرمنی اور آسٹریا میں بے حد مصیبتیں اور جسمانی تکلیفیں برداشت کیں۔ انھیں شدید سے شدید مالی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا ذاتی سامان بڑی دشواریوں اور بعض ہمدرد خواتین کی مدد سے بچ سکا۔ وجے روپ اور اس کی ماں اپنے قیمتی زیورات اور جواہرات فروخت کرکے اس مشکل زندگی کے دن پورے کرتی رہیں۔ وجے روپ کے باپ کا مرض جنگ کی ہولناکیوں اور مصیبتوں سے بڑھتا ہی چلا گیا۔
وجے روپ کے ذمہ یہ کام جرمن حکومت نے لگایا کہ وہ جرمن فوجیوں کو انگریزی، اردو اور ہندی زبانیں سکھائے اور بھی بہت سے ہندوستانی اس کام پر متعین کیے گئے تھے۔ فوجی یونٹ اور دوسرے فوجی شعبوں کے لوگ چند ہفتوں کے لیے ان زبانوں کو سیکھتے اور چلے جاتے۔ ان فوجوں کو افریقی محاذوں پر بھیجاجاتا تھا۔ جہاں طبروق، العالمین اور بن غازی کے محاذوں پر زیادہ تر ہندوستانی فوجیں لڑنے کے لیے انگریزوں نے بھیجیں تھیں۔ وجے روپ کو اس کام کے صلے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لینے کی اجازت بھی دے دی گئی لیکن اس کے پتا جی ان صدموں کو برداشت نہ کرسکے۔ جنگ ختم ہونے سے دو سال پہلے ہی وہ مرگئے۔
وطن سے دور وجے اور اس کی ماتا کے لیے یہ صدمہ دنیا کے ہر صدمے سے زیادہ بڑا تھا لیکن گزشتہ عالمگیر جنگ دنیا کا ایک ایسا عظیم المیہ تھا جس میں افراد کی بربادی، موت اور پریشانی کا کوئی تصور ہی باقی نہ رہ گیا تھا۔ یہ جنگ تو قوموں اور براعظموں کی بربادی کا پیش خیمہ تھی۔ لاکھوں انسان ہلاک و زخمی ہورہے تھے۔ کروڑوں بھوک اور احتیاج سے لرزہ براندام تھے۔ سارا یورپ اور مشرقی ایشیا جنگ میں امریکا، جاپان اور روس کی شرکت کے بعد جہنم کا نقشہ بن گیا تھا۔
میں بھی اس عظیم سمندر میں ایک تنکے کی طرح بہے چلا جا رہا تھا۔ جمہوریت کی روح جنگ کے ہنگامی قوانین کی بھینٹ چڑھ چکی تھی۔ جنگ میں جاپان کی شمولیت کے بعد ہندوستان میں انگریزوں نے ہندوستانیوں کی مرضی کے خلاف لاکھوں ہندوستانی فوج مشرق قریب، مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید میں وسیع محاذ پر بھیج دی تھی۔ ہندوستان غیر ملکی فوجوں کا اڈہ بن گیا تھا۔ اتحادی فوجی جگہ جگہ سارے برصغیر میں دندناتے پھرتے تھے۔ میں تلاش روزگار میں کبھی کہیں پھر رہا تھا کبھی کہیں۔
سیاست اور صحافت زندگی کے بے نام شعبوں کا نام تھا۔ 1942 میں ایک تحریک چلائی جسے ہندوستان چھوڑ دو تحریک کہا جاتا ہے لیکن یہ تحریک دو ہفتوں میں ہی کچل ڈالی گئی۔ صحافت بے اثر سہی پھر بھی اخبار نکلتے تھے اور اخبار نویس بھی ان میں کام کرتے تھے، یہ اخبار خوب بکتے تھے۔ جنگ کی گرما گرم خبریں ملتی تھیں لیکن عقلودانش کا فقدان تھا۔ ذہین طبقہ نیم مردہ ہوچکا تھا اور اخبار میں کام کرنے والے اخبار نویس زندہ لاشیں۔
قدوس صہبائی راج کماری کے سحر میں آخر تک گرفتار رہے۔ اسی سحر میں انھوں نے راج کماری وجے روپ کا قصہ لکھا اور یہ بھی لکھا کہ ہم دونوں اگر خود غرضی سے کام لیتے تو اس کا نتیجہ ہندو مسلم فسادات کی صورت میں نکلتا۔ ہم دونوں اپنی خوشیوں کا محل ہندوئوں اور مسلمانوں کی ہڈیوں پر نہیں تعمیر کرسکتے تھے۔ یوں یہ کہانی ختم ہوجاتی ہے، ایسی ہی کتنی کہانیاں دونوں طرف کے چاہنے والوں کے سینوں میں دبی ہوئی ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ صہبائی صاحب نے سعادت حسن منٹو سے کیا ہوا وعدہ پورا کردیا۔