کراچی اور دلی کے درمیان ایک گفتگو
چند دنوں پہلے دلی کے اردوگھر نے ایک زوم محفل رکھی۔ اس کا اہتمام تالیف حیدرکررہے تھے۔ صدف فاطمہ اس محفل کی میزبان تھیں۔ مہمانوں میں ہندوستان سے ڈاکٹر فوزیہ فاروقی تھیں جو امریکا میں اردو اور ہندی کی استاد ہیں۔
اوٹاوا سے اردوکی معروف شاعرہ شاہدہ حسن، کراچی سے فاطمہ حسن، امریکا سے عشرت آفرین اورکراچی سے ہی یہ خاکسار بھی اس زوم گفتگو میں شامل تھی۔ اس گفتگوکا موضوع تھا "اردو ادب میں نسائی آوازیں۔"
ایک گھنٹے سے زیادہ کی اس بات چیت میں بہت سے فکر انگیز پہلو سامنے آئے۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے ادا جعفری، فہمیدہ ریاض اور دوسری اہم شاعرات کی نظموں کے حوالے دیے۔ اسی طرح شاہدہ حسن اور عشرت آفرین نے بھی بتایا کہ آج کے دور میں بھی شاعرات پرکیا گزرتی ہے اور بہت اچھی لکھنے والیاں بھی مرد تنقید نگاروں کی طرف سے کس طرح نظر اندازکی جاتی ہیں۔ یہی وہ نکتہ ہے جس پر فہمیدہ ریاض اور فاطمہ حسن کہتی تھیں کہ ادب میں اب خواتین تنقید نگاربھی پیدا ہونی چاہئیں تاکہ وہ ایمان داری سے شاعری یا نثر لکھنے والی عورتوں کی تحریروں کاجائزہ لیں اور انھیں ادب کے شائقین کے سامنے پیش کریں۔
اس مرحلے پر میں نے یاد دلایا کہ قرۃ العین حیدرکی شہرت کا سبب نقاد نہیں بلکہ ان کے پڑھنے والے بنے جو ان کی تعریف وتوصیف کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اسی کے بعد نقادوں کو بھی ان کی طرف توجہ کرنی پڑی۔
ہم جب اردو ادب میں نسائی آوازوں کی بات کرتے ہیں تو میرا جی چاہتا ہے کہ اس میں وہ لکھنے والیاں بھی شامل کی جائیں جنھوں نے ہندی یا انگریزی میں لکھا۔ لیکن ان کے ناولوں کے اتنے اعلیٰ ترجمے ہوئے کہ انھیں پڑھ جائیے، گمان بھی نہیں گزرتا کہ یہ کسی اور زبان میں لکھے گئے ہیں۔ ارون دھتی رائے انگریزی میں لکھتی ہیں انھوں نے دوسرا جو ناول لکھا اس کا ترجمہ ارجمند آرا نے " بے پناہ شادمانی کی مملکت" کے عنوان سے کیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ اردو میں ہی لکھا گیا ہے۔ نچلے متوسط طبقے کے مسلمانوں کا قصہ جو ایک کھسرے سے شروع ہوتا ہے اور پھر دہشت گردی کے معاملات کو لپیٹتا ہوا زندگی کو سرکے بل کھڑا کردیتا ہے۔
اسی طرح مہاشویتا دیوی ہیں جن کا ناول "ہزار چوراسی کی ماں " پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ سرکارکے کہنے کے مطابق ان کا بیٹا برٹی ایک آتنک وادی (دہشت گرد) ہے جسے encounter میں مار دیا گیا ہے۔ وہ ایک خوشحال اور بھرے گھر سے تھا لیکن کوئی اسے اپنا نہیں مانتا۔ صرف ماں ہے جو بیٹے کو دیکھنے اور پہچاننے کے لیے بلائی گئی ہے اور وہ مردہ خانے جارہی ہے جہاں اس کے بیٹے کے انگوٹھے میں ایک ہزار چوراسی کا نمبر لگا ہوا ہے اوروہ ہزار چوراسی کی ماں کہلائی۔
کرشنا سوبتی کا ناول "دل ودانش" پڑھنے والے کو ملول کردیتا ہے۔ ایک مسلمان اور ہندو گھرانے کا قصہ۔ اسے پڑھ جایے، ذہن میں ہی نہیں آتا کہ اسے اردوکے بجائے ہندی میں لکھا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو میری رائے سے اختلاف ہو لیکن یہ تینوں ناول ہمارے برصغیرکی ادبی بلندیوں پر پہنچے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری لکھنے والیوں کی فنی مہارت ہے جو ان ناولوں میں نظر آتی ہے۔ یہی عالم امرتا پریتم اور اجیت کور کی تحریروں کا ہے۔
یہ 1920 اور 30ء کی دہائیاں تھیں جب اردو افسانے کے منظر نامے پر اہم لکھنے والیاں نمودار ہوئیں۔ ان میں حجاب امتیاز علی، مسز عبدالقادر، ڈاکٹر رشید جہاں، عصمت چغتائی، شکیلہ اختر، صدیقہ بیگم سیوہاروی، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور اور قرۃ العین حیدر نظر آتی ہیں۔ یہ وہ نام ہیں جن کے ذکرکے بغیر اردو افسانے کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ ان میں حجاب امتیاز علی اور مسز عبدالقادر اپنے طرزِ نگارش کی آپ ہی موجد اور آپ ہی خاتم تھیں۔ حجاب کی خیالی دنیا اور رومان پروری نے انھیں ایک ایسا منفرد مقام عطا کیا جس میں کوئی ان کا مقابل نہ ہوا۔
اسی طرح مسز عبدالقادر نے سریت آمیز فضا میں پراسرار افسانے لکھے اور اردوکی ایڈگرایلن پو کہلائیں۔ ڈاکٹر رشیدہ جہاں ترقی پسند تحریک کے بنیاد گزاروں میں سے تھیں۔ انھوں نے اپنے بعد آنے والی خواتین کے ہاتھ میں قلم تھمایا اور منہ میں زبان رکھ دی۔ وہ ہماری پہلی افسانہ نگار ہیں جو خاتون ہونے کے باوجود خم ٹھونک کر میدان میں اتریں اور ان کی جرأت اظہار نے مرد ادیبوں کو بھی حیران کردیا۔ ان کے افسانے اس وقت کے سماج کو آئینہ دکھاتے نظر آتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں بیویوں کا جنسی استحصال کرنے والے شوہر ہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع تھا جس پرکسی عورت کا لکھنا قیامت سے کم نہ تھا۔ اسی لیے ان کے خلاف منبرومسجد سے سخت احتجاج کیا گیا۔
ان ہی کے بعد عصمت چغتائی کا نام آتا ہے جن کے قلم نے ہماری منافقانہ اور مجرمانہ زندگیوں کے بخیے ادھیڑے۔ پدر سری سماج کی بالادستی اپنے گھرکی عورتوں کے ساتھ جو ظالمانہ رویہ رکھتی تھی، اس کی عکاسی جہاں انھوں نے لحاف، اور چوتھی کا جوڑا، ایسے دوسرے افسانوں میں کی، وہیں انھوں نے دین اور شریعت کا علمبردار ہونے کی آڑ میں معصوم بچیوں کا شکار کھیلنے والوں کا مکروہ چہرہ " ننھی کی نانی" میں دکھایا۔ مٹھی مالش، مغل بچہ اور "زہر کا پیالہ" ان کے ناقابل فراموش افسانے ہیں۔
40ء کی دہائی میں لکھنے والی اور بھلا دی جانے والی افسانہ نگاروں میں کوشلیا اشک نے تھکان، جگن ناتھ، نمو جیسے یاد گار افسانے لکھے۔ سرلا دیوی کا "چاند بجھ گیا" تسنیم سلیم چھتاری کا "ٹوٹ گیا اک تارا۔ کون سا گیت سنو گی انجم" ہمیں ایک خاص رومانوی فضا میں لے جاتے ہیں۔ شائستہ سہروردی اکرام اللہ کے افسانے آزاد چڑیا، مینیجر، دو پھول ساتھ نکلے، پڑھیے تو محسوس ہوتا ہے کہ اگر شائستہ سہروردی نے سیاست اختیار نہ کی ہوتی تووہ ایک اہم افسانہ نگارہوسکتی تھیں۔
قرۃ العین حیدر بھی 30ء کی دہائی کے آخر اور 40ء کی دہائی کے شروع میں رومان پرور فضا میں سانس لینے والے خوشحال اور انگریزی تعلیم یافتہ کرداروں پر مشتمل افسانے لے کر آئیں تو ابتداء میں انھیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ عصمت چغتائی نے ان کی شخصیت اور افسانوں کو نشانہ بناتے ہوئے "پوم پوم ڈارلنگ" لکھا، لیکن پھر یہی قرۃ العین حیدر تھیں جن کا تخلیقی وفور چوڑے پاٹ کے کسی پُرشور اور پرُعظمت دریا کی طرح اردو ادب میں پھیلتا چلا گیا۔ 60 برس کے طویل عرصے میں انھوں نے افسانے کو اتنے نئے زاویوں سے برتا کہ حیرت ہوتی ہے۔ انھوں نے اپنا تخلیقی سفر "سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا" سے شروع کیا اور پھر خود وہ ایک ایسی کیمیا گر بن گئیں کہ جس موضوع کو ہاتھ لگایا اسے یادگار بنادیا۔
بیسویں صدی کے نصف آخر کی اہم افسانہ نگار خالدہ حسین نے کہانی کے بارے میں لکھا کہ کہانی کا "سحر وہ سحر ہے جو ازل سے انسان کو مسحورکرتا چلا آیا ہے اور کرتا رہے گا، خواہ اس میں راستہ بھول جانے ہی کا خطرہ کیوں نہ ہو۔ انسان اس کی تلاش میں سرگرداں رہے گا۔" ان ہی خالدہ حسین نے "ہزار پایہ" 1960 کے ابتدائی برسوں میں لکھا اور وہ اس عہد کے اردو افسانے کی پہچان بن گیا۔
"ہزار پایہ" سے اردو افسانے کے وجودی دور کا آغاز ہوتا ہے۔ پاکستانی سماج میں آمریت کے ہزار پایہ نے جس طرح اپنے پیر گاڑے اس کا بے مثال اظہار خالدہ حسین نے اس طرح کیا کہ "یہ زہریلا دھڑکتا گودا، یہ جڑوں بھرا، میرے اندر ہر مقام پر، میرے ہر مسام پر اور دنیا کے ہر لفظ پر حاوی ہے" خالدہ حسین کے سیاسی شعور نے ان سے لکھوایا "اس ہزار پائے کو ختم کردو، ہلاک کردو۔"
ایک گھنٹے کی اس گفتگو میں یہ ممکن نہ تھا کہ صف اول کی افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کے صرف نام بھی لیے جاسکیں۔ اسی لیے اس ناتمام گفتگو پر اداس ہوتے ہوئے ہم نے تالیف حیدر اور صدف فاطمہ کا شکریہ ادا کیا اور سب سے بڑھ کر سائنس کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیکا جس کی عنایت سے ہم تمام رکاوٹوں کے باوجود ایک دوسرے سے بات کرسکے۔ ادب اور ادیبوں کے دکھ سکھ ایک دوسرے سے بیان کرسکے۔