ہمارا داخلی بحران اور کووڈ19-
کووڈ19-سے بچاؤکی ویکسین ایجادکر لی گئی ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں بڑے پیمانے پر شہریوں کو حفاظتی ٹیکے لگائے جا رہے ہیں، جس کی رفتار اگرچہ ابھی زیادہ تیز نہیں ہے لیکن امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے مہینوں میں بہت سی اور ویکسین بھی عالمی سطح پر دستیاب ہوجائیں گی اور حفاظتی ٹیکے لگوانے والوں کی حالیہ تعداد جوکروڑوں میں ہے، وہ اربوں تک پہنچ جائے گی۔
کورونا کی عالمی وبا نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس وبا نے لاکھوں انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا ہے۔ تازہ ترین اعداد وشمارکے مطابق اب تک بارہ کروڑ سے زیادہ افراد اس بیماری میں مبتلا ہوچکے ہیں، جب کہ مہلک وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 27 لاکھ سے تجاوزکرگئی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی عالمی اور معاشی طاقت امریکا کو سب سے بھیانک نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
جہاں اب تک پانچ لاکھ پچاس ہزار سے زیادہ انسان زندگی سے ہاتھ دھوچکے ہیں۔ برازیل میں تین لاکھ، میکسیکو میں دو لاکھ، انڈیا میں ایک لاکھ 60 ہزار، برطانیہ میں ایک لاکھ21 ہزار اور اٹلی میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کی اموات ہوچکی ہیں۔ اس عالمی وبانے دنیا کے 215 ملکوں اور علاقوں کو متاثرکیا ہے۔ یہ اب سے چند دنوں پہلے کے اعداد و شمار ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک نیا عالمی نظام وجود میں آیا تھا۔ 20 ویں صدی کی آخری دہائیوں میں گلوبلائزیشن کے عمل نے دنیا کو آپس میں اتنا جوڑ دیا کہ اسے ایک عالمی گاؤں کہا جانے لگا تھا۔ کورونا کی عالمی وبا نے نئے عالمی نظام اورگلوبلائزیشن کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہیں۔ یہ وبا اچانک پھوٹی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ ہر ملک خود کو محفوظ کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہوگیا۔ وہ دنیا جو ایک اکائی نظر آیا کرتی تھی وہ اچانک چھوٹی چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہوگئی۔
عالمی تعاون کی بات تو ایک طرف رہی پڑوسی ملکوں نے بھی ایک دوسرے کی فکرکرنی چھوڑ دی۔ صرف عالمی ادارہ صحت ہی ایک ایسا ادارہ تھا جس نے دنیا کے رہنمائی کرنے کی کوشش کی لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اسے بھی متنازعہ بنا دیا گیا۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ چند ترقی یافتہ ملکوں میں ویکسین کی جلد ازجلد تیاری کی زبردست حوصلہ افزائی کی گئی اور مختلف اداروں اور حکومتوں نے اربوں ڈالر فراہم کرکے سائنسدانوں کو ایک سال سے کم مدت کے اندر ہی ویکسین تیارکرنے کا موقع فراہم کیا۔ جدید طب کی تاریخ میں کوئی بھی ویکسین اتنے مختصر وقت میں تیار نہیں کی جاسکی تھی۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ اگر حکومت اور اداروں کے اندر عزم موجود ہو تو بظاہر ناممکن عمل کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔
اس عالمی وبا سے مستقبل قریب میں نجات نظرنہیں آتی کوئی 2022 اورکوئی 2023 کی بات کررہا ہے۔ تاہم، نا امیدی اور بے بسی کی جو فضا پیدا ہوئی تھی، وہ رفتہ رفتہ اب ختم ہورہی ہے۔ ذرا تصورکیجیے کہ ایک قاتل وائرس آپ کو اپنا نشانہ بنانے کے لیے بے تاب ہے اور اس موقع کے انتظار میں ہیں کہ اس کا نشانہ کوئی غلطی کرے اور وہ اس پر حملہ آور ہوجائے۔ دنیا کے اربوں انسانوں کو یہ بھی معلوم تھاکہ ابھی اس سے بچاؤکا کوئی ٹیکہ یا دوابھی ایجاد نہیں ہوئی ہے اس صورتحال میں دنیا کے ان اربوں انسانوں نے جو ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی اذیت سہی ہے اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
لوگ اب بھی گبھرائے ہوئے ہیں کسی کو ڈر ہے کہ اس قدر عجلت میں تیارکردہ ویکسین کیا مکمل طور پر محفوظ ہے یا نہیں؟ دوسری جانب ویکسین تیارکرنے والی ہر کمپنی دوسروں پر بازی لے جانے کے لیے یہ تاثر دیتی ہے کہ اس کی ویکسین سب سے بہتر اور موثر ہے جس سے دیگر ویکسینز کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔ اب تک دنیا کے ملکوں میں حفاظتی ٹیکے لگوانے والے کروڑوں لوگوں کے جو اعدادوشمار جمع کیے گئے ہیں، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے پھیلائے جانے والے خدشات بے بنیاد ہیں۔
دانش مند حکومتوں کی اب یہ کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ شہریوں کو حفاظتی ٹیکے لگوائے جائیں تاکہ معاشی بحالی کا عمل شروع ہوسکے۔ عالمی معیشت کو اب تک 90 ہزار ارب ڈالرکا نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اتنے غیر معمولی نقصان کا ازالہ کب تک ہوسکے گا، اس کے بارے میں کچھ کہنا فی الحال مشکل ہے۔ دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کو ہونے والا نقصان سب سے زیادہ ہے۔ ترقی پذیر اور غریب ملکوں کی معاشی ترقی کا براہ راست انحصار عالمی معیشت سے ہوتا ہے۔ سرمایہ، ٹیکنالوجی، مہارت، صنعتی خام مال، برآمدات اور بیرونی سرمایہ کاری سب کا تعلق بین الاقوامی معاشی صورتحال سے ہے۔
کووڈ کی عالمی وبا سے دو باتیں واضح ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ جو ملک معاشی طور پر ترقی یافتہ ہیں۔ وہ بھاری مالی اور معاشی نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے ملک جو ترقی پذیر ہیں لیکن ان کی معیشتیں ٹھوس بنیادوں پر قائم ہیں وہ بھی اس عالمی وبا کے معاشی دباؤکا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سب سے خراب حال غریب ملکوں کا ہے جو صنعت یافتہ نہیں ہیں، جہاں اضافی سرمایے کی قلت اور معاشی نموکی شرح بہت کم ہے اور انھیں بے روزگاری اور افراط زر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کا شمار بھی ایسے ہی غریب ممالک میں کیا جانے لگا ہے۔
ہم چاہیں جو بھی دعوے کریں لیکن اس سے معروضی حقائق تبدیل نہیں ہوسکتے۔ ہم کو انتظار ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے غریب ملکوں کو جو مفت ویکسین فراہم کی جانے والی ہے وہ ہم تک کب پہنچے گی۔ اربوں روپے نمودو نمائش کے لیے کی جانے والی تقریبات پر خرچ کیے جاسکتے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر ویکسین خریدنے کے لیے ہمارے پاس وسائل موجود نہیں ہیں۔
صرف چند سو ملین ڈالر ویکسین کی خریداری کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ کیا یہ تشویش ناک حقیقت نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا کے جس خطے میں ہم رہتے ہیں وہاں کے تمام ملک ہم سے کہیں بڑی تعداد میں اپنے شہریوں کو مفت حفاظتی ٹیکے لگوا چکے ہیں۔ یہ رویہ ظاہرکرتا ہے کہ ریاست کو اپنے شہریوں کی کتنی فکر ہے۔ چین نے دوستی کا اظہارکرتے ہوئے ویکسین کی 5 لاکھ خوراکیں عطیہ کیں۔ اب اس کا بھی کہنا ہے کہ مزید ضرورت ہو تو اس کی قیمت ادا کریں۔
ہم سی پیک کے خلاف چار سال مہم چلائیں، اس عظیم منصوبے کے خلاف زہر افشانی کریں اور بالآخر اسے تعطل کا شکارکریں، اس کے بعد دوست ملک سے یہ بھی امید رکھیں کہ وہ ہماری تمام غلطیوں کو نظر انداز کرکے ہمیشہ کی طرح فیاضی کا رویہ جاری رکھے گا۔
اپنی ترقی کرتی معیشت کو ہم خود خطرناک بحران میں مبتلا کرچکے ہیں۔ ملک کے اندر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے علاوہ ہمیں کچھ اور بھی کرنا ہوگا۔ ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی ہر شرط کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتے ہیں لیکن ملک کے اندر سیاسی استحکام کے لیے روا داری کے ماحول میں گفتگو کرنے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں۔ ہمارا رویہ ایسا نہ ہوتا تو اس عالمی وبا اور مالی بحران کا مقابلہ کرنا اتنا مشکل نہ ہوتا۔ داخلی بحران نہ ہو تو ہر بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے، یہی کووڈ 19- کا پیغام ہے۔