مدینہ کی ریاست کے تقاضے
آج میں حکومتی جماعت کی توجہ چند چھوٹی چھوٹی خبروں کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ ساندہ کی رہائشی خاتون کسی کام سے گھر سے باہر نکلی تو دو موٹر سائیکلوں پر سوار چار افراد نے اسے زبردستی اغوا کر لیا اور شاہ پور چونگ کے ڈیرے پر لے گئے۔ وہاں پہلے سے تین نامعلوم افراد موجود تھے جنہوں نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور حالت غیر ہونے پر خاتون کو سڑک پر پھینک کر فرار ہو گئے۔
یہ دلخراش واقعہ کسی کچے کے علاقے یا جنگل میں پیش نہیں آیا بلکہ خاتون کو بَھرے پڑے بازا سے موٹر سائیکل پر زبردستی اغوا کیا گیا۔ دو نامعلوم افراد کے علاوہ باقی سب لوگوں کے نام اخباروں میں موجود ہیں۔ کیا یہ لوگ علاقے کی پولیس کی نظر میں نہ تھے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی عام آدمی شہر میں اس قسم کی واردات کر سکے۔ یہ لازمی طور پر علاقے کے بدمعاش ہیں جن کو روکنے کی جرأت کسی عام شہری میں نہ تھی۔
مجھے سو فیصد یقین ہے کہ اگر ان بدمعاشوں کو ذرا سا بھی خوف ہوتا کہ وہ قانون کے آہنی شکنجے سے بچ نہیں پائیں گے تو وہ کبھی اس واردات کا ارتکاب نہ کرتے۔ درحقیقت انہیں یقین ہے کہ وہ مکمل طور پر محفوظ ہیں اور قانون سے بالاتر ہیں۔ دوسری خبر یہ کہ شجاع آباد کے علاقے موچی پورہ میں شادی والے گھر میں ڈکیتی ہوئی اور ڈاکوئوں نے دلہن کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور 5تولے سونا اور سوا لاکھ روپیہ لوٹ کر فرار ہو گئے۔ ریجنل پولیس آفیسر سید خرم علی نے واقعے کا نوٹس لے لیا اور ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دے دیا۔ اس پر طرہ یہ کہ چار ڈاکوئوں میں سے تین پولیس کی وردی میں ملبوس تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایسی دل دہلا دینے والی واردات میں ملزمان کی گرفتاری کے لئے کیا آر پی او کا نوٹس لینا ضروری ہے۔ کیا علاقے کی پولیس صرف آر پی او کا حکم ملنے کے بعد ہی حرکت میں آتی ہے۔
میں حیران ہوں کہ آر پی او کو نیند کیسے آتی ہو گی جب اس کے علاقے میں ایسا کہرام برپا ہوا۔ پنجاب کے آئی جی پولیس کہاں ہیں اور وزیر اعلیٰ کہاں ہیں۔ یقینا وہ لیہ میں ہوں گے جہاں وزیر اعظم ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح میں مصروف ہیں۔ کیا وزیر اعلیٰ اور آئی جی اس دلخراش واقعہ کی کوئی تاویل پیش کر سکتے ہیں۔ ملک میں جتنی بھی معاشی ترقی ہوجائے، اس واقعے سے متاثر دونوں خاندانوں تباہ ہو گئے ہیں اور کئی دہائیوں تک یہ واقعہ انہیں خوف میں مبتلا رکھے گا۔
تیسری خبر یہ کہ وزیر آباد کے علاقہ دھونکل کے رہائشی شناور جوندہ ولد محمد ارشد جوندہ کے ڈیرے پر لاڑکانہ کا رہائشی محمد فیاض بھینسوں کو چارہ ڈالنے کا کام کرتا ہے۔ ملزم فیاض نے اسی ڈیرہ پر ایک اور ملازم کی کزن کو ڈیرے پر لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے بعد لڑکی کی حالت بگڑ گئی۔ ملزم نیم بے ہوشی کی حالت میں لڑکی کو تحصیل ہسپتال لے جا رہا تھا کہ پولیس نے دھر لیا۔ لڑکی کو ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن اس کی موت واقعہ ہو گئی۔ پولیس مصروف تفتیش ہے۔ یہ ایک ہی دن کی خبریں ہیں۔ کم و بیش اسی طرح کی خبریں روزانہ کی بنیاد پر اخبارات میں چھپتی ہیں۔ بہت سی ایسی شرمناک خبریں رپورٹ ہی نہیں کی جاتیں کہ متاثرہ خاندان رو دھو کر خاموش ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ پولیس کیس بنوا کر اور زیادہ ذلیل نہیں ہونا چاہتے۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ اس ملک میں غریب کو انصاف نہیں مل سکتا۔
موٹر وے ریپ کیس ایک پبلک کیس بن گیا تھاجس کی وجہ سے قانون خلاف معمول حرکت میں آیا اور چند ماہ میں درندوں کو سزا سنا دی گئی۔ سزا پہ عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے۔ اپیلوں کے کئی مراحل آئیں گے اور نجانے کتنے سال کے بعد مجرموں کو سزا ملے گی یا شاید کسی مرحلے پر کوئی قانونی موشگافی ان کی باعزت رہائی کا سبب بن جائے گی۔
ایسے جرائم کی وجہ کیا ہے کیا اس کا تعلق معاشی حالات سے ہے۔ میرے خیال میں تو ہرگز نہیں ہے۔ چوری اور ڈاکہ کی وجہ معاشی حالات ہو سکتا ہیں لیکن ایسے گھنائونے جنسی جرائم کی واحد وجہ یہی کہ مجرموں کو یقین ہوتا ہیکہ وہ سزا سے بچ جائیں گے۔ ضیاء الحق کے دور میں پپو قتل کیس نے بڑی شہرت پائی۔ اس کیس میں پپو نامی ایک بچے کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کیس کے مجرم کو فوری سماعت کے بعد سرعام پھانسی دی گئی اور عبرت کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے بعد کافی عرصے تک اس نوعیت کا کوئی جرم سرزد نہیں ہوا۔
من حیث القوم ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارا معاشرہ کہاں جا رہا ہے کیا کسی اسلامی معاشرے میں ایسے جرائم کو برداشت کرنے کا کوئی جواز ہے۔ حکومت وقت اس کی کوئی تاویل پیش نہیں کر سکتی۔ نہ تو ان جرائم کا بوجھ پرانی حکومتوں پر ڈالا جا سکتا ہے اور نہ معاشی کمزوری کو جواز بنایا جا سکتاہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ حکومت ان جرائم کی بیخ کنی میں سنجیدہ نہیں۔ چاہیے تو یہ کہ عمران خان تمام کام چھوڑ کر دو تین دن کے لئے لاہور میں کیمپ آفس لگائیں اور مجرموں کی گرفتاری اور سزا کو یقینی بنائیں۔ مدینہ کی ریاست بنانے کی طرف یہ بڑا قدم ہو سکتا ہے۔ نہ تو اس میں اپوزیشن کو کوئی اعتراض ہو گا نہ کسی بیرونی طاقت کو۔
سعودی عرب اور ایران میں ایسے جرائم کی سزائیں فوری اور سرعام دی جاتی ہیں۔ یہ نہ صرف حکمران وقت کے فرائض اولین میں شامل ہے بلکہ اس سے حکومت کو سیاسی فائدہ بھی ملے گا۔ پاکستان کے عام لوگ ایسے جرائم سے تنگ آ چکے ہیں اور خوف کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ جو حکومت بھی ان جرائم کے خلاف فوری کارروائی کرے گی وہ عوام کے دل جیت لے گی۔
پنجاب میں اس قسم کے جرائم کی موجودگی میں مدینہ کی ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والوں کو کم از کم حضرت عمرؓ کا قول تو یاد ہو گا کہ اگر ایک کتا بھی فرات کے کنارے بھوکا مر گیا تو حاکمِ وقت اس کے لئے جوابدہ ہو گا۔ تو کیا ان حوا کی بیٹیوں کی سرعام عزت لٹ جانے کی ذمہ داری وقت کے حاکم کے کھاتے میں نہیں ڈالی جائے گی۔ نہ اپوزیشن کی کسی جماعت نے آواز اٹھائی ہے نہ ہی کسی مذہبی رہنما کے کان پہ جوں رینگی ہے۔ پنجاب کی پولیس حال مست اور مال مست ہے۔ عام آدمی کی عزت کی حفاظت کون کرے گا۔