قانوناً حرام بستیوں کو حلال کرنے کا راستہ

فلسطین میں پہلی یورپی صیہونی آبادکار بستی اٹھارہ سو اسی کے عشرے میں بنی تھی۔ تب یورپ سے آنے والے یہ مہمان کمزور تھے اس لیے زمین خریدتے تھے۔ پھر یہ نظریہ ایجاد ہوا کہ ہمارا اس دنیا میں اپنا کوئی گھر نہیں لہٰذا فلسطین میں ہمیں اپنی ایک ریاست چاہیے۔ یہ فرمائش بھی ستتر برس پہلے زور زبردستی سے پوری ہوگئی۔
آج صیہونی مشرقِ وسطی کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہیں اس لیے کسی قاعدے قانون کو خاطر میں لائے بغیر یہ نعرہ لگا کے قبضہ کر لیتے ہیں کہ تم یہاں سے جتنی جلد ممکن ہو خالی کردو ورنہ اسی خدا تک تم پہنچا دیے جاؤ گے جس نے ہمیں اس زمین کی ملکیت ساڑھے تین ہزار برس پہلے آسمانی صیحفوں میں دی ہے۔ دیکھا جائے تو اس خطے میں سب سے بڑی غیر قانونی و غیر اخلاقی آبادکار خود ریاستِ اسرائیل ہے اور اب اس آبادکار مافیا کی قبضہ پالیسی انتہائی متشدد ہوگئی ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے پر اٹھاون برس میں ڈھائی سو کے لگ بھگ چھوٹی بڑی جبری بستیاں دراصل وہ پھوڑے ہیں جنھوں نے مقبوضہ فلسطین کے جسدِ خاکی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ بالخصوص سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے بعد سے ہدف یہ ہے کہ قبضہ گیر طوفانی مسموم ہوا سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کی امید کا آخری شعلہ ہی بجھا دیا جائے۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی امداد کے رابطہ دفتر کے مطابق اس وقت غربِ اردن کی فلسطینی بستیوں اور اراضی پر روزانہ اوسطاً چار مسلح حملے ہو رہے ہیں۔ اگرچہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف انیس سو سڑسٹھ میں کیے گئے پورے اسرائیلی قبضہ کو ناجائز قرار دے چکی ہے۔ نیز جنیوا کنونشنز کے تحت کسی بھی مقبوضہ علاقے کی آبادی کے تناسب اور جغرافیائی ہئیت میں تبدیلی بین الاقوامی جرم ہے مگر اسرائیل کی دلیل یہ ہے کہ جو زمین خدا نے عطا کی اس پر دنیاوی قانون لاگو نہیں ہو سکتا۔
بی بی سی کے ایک سینیر ایڈیٹر جیرمی بووین صحافتی زندگی کا یشتر حصہ مشرقِ وسطی میں گذار چکے ہیں۔ انھوں نے حال ہی میں آنکھوں دیکھی کے لیے مقبوضہ علاقے میں چند دن گذارے اور آبادکاروں سے ملاقات کی۔ جیرمی کے مطابق مغربی کنارے پر ایک مسلح جتھے " ہل ٹاپ یوتھ " کے سرخیل مائر سمچا کے بقول " کل (یعنی اکتوبر دو ہزار تئیس) سے آج تک حالات بہت بدل گئے ہیں۔ اب ہم اس خوف کے بغیر پورے علاقے میں جب اور جہاں چاہیں گھوم سکتے ہیں کہ کوئی ہم پر حملہ کر دے گا۔ اگرچہ دوسری جانب (فلسطینی) تھوڑی بہت مزاحمت ضرور ہے مگر دشمن آہستہ آہستہ سمجھ چکا ہے کہ اب اس کا یہاں کوئی مستقبل نہیں۔ چنانچہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ دنیا اس چھوٹے سے گروہ (فلسطینی) کے درد میں اب تک کیوں مبتلا ہے "۔
مائر سمچا کا اعتماد یونہی نہیں ہے۔ اس کے نسل کش نظریاتی گرو اقتدار میں ہیں اور ریاست فی الحال ان کی سیاسی مٹھی میں ہے۔ چنانچہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اب ایسے آبادکاروں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے جو محض اس لیے نہیں بس رہے کہ زمین سستی ہے بلکہ وہ اپنے تئیں ایک خدائی مشن پورا کر رہے ہیں۔
اس وقت مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں سات لاکھ آبادکار ہیں۔ انیس سو سڑسٹھ سے اکیانوے تک جتنی یہودی بستیاں اس زمین پر تعمیر کی گئیں۔ ان سے دوگنی گزشتہ چونتیس برس میں ابھر آئی ہیں۔ اس پورے خطے کی شکل تیزی سے بدل رہی ہے۔ فلسطینیوں کی زمینوں میں سے دورویہ باڑھ والی سڑکیں گذار کے انھیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ کر دیا گیا ہے۔ کئی آبادکار بستیاں قصبوں کا روپ دھار چکی ہیں۔
ان بستیوں کی تعمیر یا فلسطینوں کی املاک بلڈوز کرنے کے کام سے پیدا ہونے والا ملبہ فلسطینیوں کی بچھی کھچی زمینوں پر پھینک دیا جاتا ہے۔ زمین کا مالک خصوصی اجازت نامے کے بغیر اپنے ہی کھیت میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ اکثر یہ اجازت نامہ سال میں ایک بار تب جاری ہوتا ہے جب بوائی یا کٹائی کا موسم گزر جائے۔ بڑی بڑی شاہراہوں کے اطراف جو باغات یا کھیت ہیں ان میں فلسطینی کسانوں کو سیکیورٹی خدشات کے سبب داخلے کی قطعاً اجازت نہیں۔
گزشتہ ہفتے میں رملہ کے قریب المغیر گاؤں کی ملکیت زیتون کے تین ہزار درخت اسرائیلی فوج نے یہ کہہ کر کاٹ دیے کہ ان درختوں کی آڑ لے کر سامنے کی یہودی بستی پر حملہ ہو سکتا ہے۔
اسرائیلی فوج اور پولیس کے سائے میں مسلح یہودی آبادکار جس بستی، قصبے، کھیت اور باغ میں جب چاہیں گھس سکتے ہیں، سامان اور فصل لوٹ سکتے ہیں اور آگ بھی لگا سکتے ہیں۔ کسی فلسطینی کسان کو قتل کر دیں تو گرفتاری کے بعد ہفتے بھر میں ضمانت ہو جاتی ہے۔ تاہم کوئی فلسطینی پتھر اٹھالے تو اسے خصوصی قانون کے تحت چھ ماہ بنا فردِ جرم جیل میں رکھا جا سکتا ہے اور چھ ماہ کی اس مدت میں عدالتیں توسیع کا بھی اختیار رکھتی ہیں۔ یعنی قانون کے انجیر پتے (فگ لیف) کی آڑ میں کوئی بھی فلسطینی بچہ، مرد، عورت، ضعیف غیر معینہ مدت تک قید میں رکھا جا سکتا ہے۔
جون انیس سو سڑسٹھ میں جب صرف چھ دن کی لڑائی میں گولان، مغربی کنارہ، غزہ اور جزیرہ نما سینا اسرائیل کے ہاتھ آ گیا تو اسے خدائی اشارہ سمجھا گیا کہ یہ وہ زمین ہے جسے معجزاتی طور پر بنی اسرائیل کو دوبارہ لوٹا دیا گیا ہے۔
یہ عقیدہ اتنا راسخ ہوتا چلا گیا کہ جب نومبر انیس سو چھیانوے میں گولی کا شکار ہونے والے وزیرِ اعظم ایتزاک رابین کے قاتل یگال آمر سے اسرائیلی سیکیورٹی ایجنسی شن بیت نے پوچھ گچھ شروع کی تو یگال نے سوال و جواب سے پہلے وائن طلب کی تاکہ وہ یہودی امت کو راہ سے بھٹکا کے فلسطینیوں سے امن معاہدہ کرکے خدائی احکامات سے بغاوت کرنے والے (ایتزاک رابین) کی موت پر شکرانے کا جام بلند کر سکے۔
آج یگال آمر کی طرح سوچنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ انھیں یقین ہے کہ سات اکتوبر دو ہزار تئیس، جون انیس سو سڑسٹھ کی فتح سے بھی بڑا معجزہ ہے۔ خدا کہہ رہا ہے کہ اب جوڈیا سماریا (غربِ اردن) کی زمین مکمل خالی کروانے کا وقت ہے۔ گزشتہ برس وزیرِ آبادکاری اوریت اسٹورک نے ہیبرون کے نزدیک ایک پہاڑی پر آبادکاروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ " سات اکتوبر سے پہلے جو ٹریفک لائٹ زرد تھی، اب سبز ہو چکی ہے "۔
کوئی بھی نئی بستی بسانے کا مجرب فارمولا کچھ یوں ہے۔ چند مسلح آبادکار ایک بڑے قطعِ اراضی پر راتوں رات قابض ہو جاتے ہیں۔ ان کا قبضہ اسرائیلی قانون کے مطابق بظاہر غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے۔ چند دنوں بعد کوئی عدالت عارضی طور پر قبضہ گیروں کا حقِ ملکیت مشروط طور پر تسلیم کر لیتی ہے۔ اس کے کچھ عرصے بعد محکمہ آبادکاری اس قبضے کو جائز قرار دے دیتا ہے۔ یوں نئی بستی سرکاری مالی اعانت کی مستحق بن جاتی ہے۔ یعنی اب یہاں بسنا حلال ہے۔

