اسرائیل کی تشکیل و پرورش میں عالمی اداروں کا کردار (2)
گزشتہ مضمون میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کی پیدائش کو قانونی جواز دینے سے متعلق اقوامِ متحدہ کی تاریخ کی سب سے نامنصفانہ قرارداد ایک سو اکیاسی کی منظوری کے لیے برطانیہ اور امریکا نے کیا کیا حربے استعمال کیے اور اس کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے مختلف ممالک کو کس طرح مجبور کیا گیا۔
آج ہم دیکھیں گے کہ انتیس نومبر انیس سو سینتالیس کو قرارداد ایک سو اکیاسی کی منظوری کے بعد فلسطین میں خونریزی اور لاکھوں افراد کی بے گھری کا جو بحران پیدا ہوا اس کی اشک شوئی کے لیے اسی اقوامِ متحدہ نے اور کون سی کوششیں کیں جنھیں اسرائیل اور اس کے سرپرستوں نے ہمیشہ جوتے کی نوک پر رکھا۔
قرار داد ایک سو اکیاسی کے سبب اگر اسرائیل کی پیدائش کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے تو ایک برس بعد اسی اقوامِ متحدہ نے گیارہ دسمبر انیس سو اڑتالیس کو قرار داد ایک سو چورانوے کی منظوری دی اس میں مطالبہ کیا گیا کہ لاکھوں دربدر فلسطینیوں کو گھر واپسی اور املاکی نقصان کے ازالے کا مکمل حق حاصل ہے اور اس کے لیے فضا جلد از جلد سازگار بنائی جائے۔
مگر آگے بڑھنے سے پہلے ایک شہزادے کا تذکرہ ضروری ہے جس کی جانچ رپورٹ اس قرارداد کا محرک بنی اور اس کے عوض اسے جان کی قربانی دینا پڑی۔
سویڈن کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے کاؤنٹ فوک برناڈت کو اقوامِ متحدہ نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے پانچ روز بعد مصالحت کار برائے فلسطین مقرر کیا تاکہ وہ عرب ممالک اور اسرائیل میں جاری جنگ رکوائیں اور بے گھر فلسطینیوں کی آبادکاری کا منصوبہ تیار کریں۔ انھوں نے اٹھائیس جون انیس سو اڑتالیس کو عربوں اور اسرائیل کے مابین جنگ رکوانے میں کامیابی حاصل کر لی۔
کاؤنٹ برناڈت نے مسئلہ فلسطین کے دیرپا حل کے لیے تجویز دی کہ یروشلم کو عرب علاقے میں شامل کیا جائے۔ ایسے وقت جب کہ یورپ سے یہودی پناہ گزین فلسطین لائے جا رہے ہیں۔ یہاں صدیوں سے آباد جو لوگ بحران کے نتیجے میں گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں انھیں واپسی کا حق دیا جائے۔ جو واپس نہیں آنا چاہتے انھیں متروک املاک کا معاوضہ دیا جائے اور یہ کام اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ہو۔
اور پھر کاؤنٹ برناڈت کو یروشلم میں سترہ ستمبر انیس سو اڑتالیس کو قتل کر دیا گیا۔ انھیں چھ گولیاں ماری گئیں۔ قتل کی منصوبہ بندی یہودی مسلح تنظیم سٹیرن گینگ کے جن چار رہنماؤں نے کی ان میں ایتزاک شمیر بھی شامل تھے جو بعد میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنے۔ چار رکنی قاتل ٹیم میں سے ایک شخص یوشوا کوہن وزیرِ اعظم بن گوریان کے محافظ دستے کا سابق رکن تھا۔
بن گوریان حکومت نے اس واردات کے بعد بظاہر سٹیرن گینگ کو غیر مسلح کر دیا۔ کئی گرفتاریاں ہوئیں مگر کسی ایک ملزم پر بھی باضابطہ فردِ جرم عائد نہیں ہوئی۔ ایک قاتل یالین مور پہلی اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کا ممبر بھی منتخب ہوگیا۔ انیس سو اکہتر یہ کیس باضابطہ داخلِ دفتر ہونے کے چھ برس بعد سرکاری تصدیق کی گئی کہ اس قتل کے پیچھے سٹیرن گینگ تھا۔
قاتلوں نے کاؤنٹ برناڈت کا یہ احسان بھی فراموش کر دیا کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران بحیثیت نائب صدر عالمی ریڈکراس کاؤنٹ برناڈت نے اپنے زاتی اثر و رسوح سے لگ بھگ تیس ہزار جنگی قیدیوں کو نازی جرمنی کے چنگل سے رہائی دلائی۔ ان میں سولہ سو پندرہ یہودی بھی شامل تھے۔
بہرحال اٹھاون رکنی اقوامِ متحدہ نے کاؤنٹ برناڈت کی سفارشات کی روشنی میں بے گھر فلسطینیوں کے گھر واپسی حق کی گیارہ دسمبر انیس سو اڑتالیس کو پندرہ کے مقابلے میں پینتیس ووٹوں سے قرار داد ایک سو چورانوے کی شکل میں توثیق کردی۔
بھارت اور ایران سمیت آٹھ ممالک رائے شماری سے غیر حاضر رہے۔ قرار داد مسترد کرنے والے ممالک میں سوویت یونین کی قیادت میں سوشلسٹ بلاک کے ممالک بھی شامل تھے جو اسرائیل کے وجود کو ابتدا میں ہی باضابطہ تسلیم کر چکے تھے۔
قرار داد کی مخالفت کرنے والوں میں عرب لیگ کے چھ ارکان (مصر، عراق، لبنان، سعودی عرب، شام، یمن) فلسطینی قیادت، پاکستان اور افغانستان بھی شامل تھے۔ مسلم بلاک کا موقف تھا کہ اس قرار داد کو ماننا دراصل غاصب اسرائیل کے وجود کو جائز تسلیم کرنا ہے۔
اسی قرار داد کی روشنی میں انیس سو انچاس میں اقوامِ متحدہ کے بحالی ادارہ برائے فلسطین (انرا) کا قیام عمل میں آیا۔ انرا اور ریڈکراس نے آنے والے زمانے میں فلسطینیوں کے لیے لائف لائن کا کام کیا۔
فلسطینی قیادت کو بے گھروں کی واپسی سے متعلق قرار داد نمبر ایک سو چورانوے جذباتی انداز میں مسترد کرنے کے نقصانات کا اندازہ کئی عشروں بعد ہوا۔ چنانچہ اب ان کا موقف یہ ہے کہ اس قرار داد پر عمل کیے بغیر مسئلہ فلسطین کا کوئی پائیدار حل نہیں نکل سکتا۔ انیس سو ترانوے میں اسرائیل اور پی ایل او کے درمیان جو امن سمجھوتہ ہوا۔ اس کی ایک بنیادی شق یہ بھی تھی کہ یروشلم کی حتمی حیثیت اور فلسطینیوں کی آبائی گھروں کو واپسی کے حق کے بارے میں اوسلو مسجھوتے کے نفاز کے پانچ برس بعد حتمی بات چیت کا دور شروع ہوگا۔
جب دسمبر انیس سو اڑتالیس میں قرار داد ایک سو چورانوے منظور ہوئی تب اسرائیل اقوامِ متحدہ کا رکن نہیں تھا۔ اس رکنیت کے حصول کی خاطر اقوامِ متحدہ کے ارکان کو رام کرنے کے لیے مئی انیس سو انچاس میں اسرائیلی مندوب ابا ایبان نے جنرل اسمبلی میں یہ حیرت ناک بیان دیا کہ اسرائیل اقوامِ متحدہ کا رکن بننے کے بعد قرار داد ایک سو اکیاسی (جس میں یروشلم کو کھلا بین الاقوامی شہر تسلیم کیا گیا) اور قرار داد ایک سو چورانوے (فلسطینوں کی گھر واپسی) پر مکمل عمل درآمد کا پابند ہے۔
جب اس یقین دہانی کے بعد اسرائیل کو اقوامِ متحدہ کی رکنیت مل گئی تو یروشلم اور فلسطینیوں کی گھر واپسی پر اسرائیلی موقف نے یوٹرن لے لیا۔ اعتدال پسند سمجھے جانے والے اسرائیلی وزیرِ اعظم ایتزاک رابین نے انیس سو بانوے میں بنا لگی لپٹی کہا کہ اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے۔ یہاں واپسی کا حق صرف یہودیوں کو حاصل ہے اور ہمارا یہ موقف اٹل ہے۔
جب کہ یروشلم کو اسرائیل نے انیس سو اسی میں ایک ناقابلِ تقسیم یہودی دارلحکومت قرار دے دیا اور اسرائیل کے اس موقف کو پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے بھی دو ہزار سترہ میں تسلیم کر لیا۔
اوسلو سمجھوتہ عملاً گٹر میں ہے۔ دو ریاستی حل بھی دفن ہو چکا ہے اور اطلاعات ہیں کہ بیس جنوری کو ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت شروع ہونے کے بعد اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارہ بھی ضم کرنے کا اعلان کرے گا۔ تاکہ دو ریاستی حل کی خواہش بھی دنیا کی یادداشت سے مٹ جائے۔ فلسطینیوں کی لائف لائن اقوامِ متحدہ کی تنظیم انرا کو تو اسرائیل پہلے ہی کالعدم قرار دے چکا ہے۔
مختصر یہ ہے کہ اسرائیل عملاً اقوامِ متحدہ کی صرف اس ایک قرار داد کو کسی حد تک تسلیم کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ قائم ہوا۔ اس کے بعد جتنی بھی قرار دادیں منظور ہوئیں اسرائیل نے انھیں ٹشو پیپر جتنی اہمیت بھی نہیں دی اور ٹشو پیپر کا ڈبہ امریکا نے ہمیشہ ویٹو کی شکل میں فراہم کیا۔
مگر اب اقوامِ متحدہ کے دو تہائی ارکان کو صیہونی نسل پرستی اور غنڈہ ریاست کا مطلب خوب سمجھ میں آرہا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ اس دو تہائی اکثریت کے پاس ویٹو پاور نہیں۔ اس کے باوجود یہ دو تہائی اکثریت اسرائیل اور صیہونی نظریے کی اصلیت ظاہر کرنے کے لیے متعدد قرار دادیں منظور کر چکی ہے۔ یہ سب قرار دادیں ریکارڈ کا حصہ ہیں اور انھیں مٹانا خاصا مشکل ہے۔ یہ قرار دادیں عالمی رائے عامہ کے چوک پر اسرائیل کی پشت پر بندھا وہ اخلاقی ٹین ہے جو مسلسل بجتا رہے گا۔ اگلے مضمون میں ایسی ہی کچھ قرار دادوں پر بات ہوگی۔
جاری ہے۔۔