ابلیس کا گیم چینجر فیصلہ
اور پھر ایک مناسب سا پڑھا لکھا آدمی جو دنیا کے ہر مسئلے پر قطعی رائے رکھتا ہے۔
چوبیس میں سے تئیس گھنٹے کامن سینس برتتا ہے، میرے آپ کے چھوٹے موٹے گھریلو، معاشی، طبی، اخلاقی مسائل کا جھٹ سے تیر بہدف ٹوٹکا علاج یا معقول حل تجویز کر دیتا ہے۔ مگر جب اپنی یا اپنے پیاروں کی جان بچانے کا سوال آتا ہے تب اس کی کامن سینس جو میرے مسائل کے حل کے لیے ٹکے سیر دستیاب ہے جانے کہاں گھاس چرنے چلی جاتی ہے اور تب ہی پلٹتی ہے جب اس کی زیادہ ضرورت نہیں رہتی۔
وہی آدمی جو مجھے ہر وقت سمجھاتا ہے کہ ڈاکٹر سے پوچھے بغیر دوا ڈائریکٹ میڈیکل اسٹور سے نہیں لینی چاہیے۔ یہ میڈیکل اسٹور والے دس میں سے آٹھ بار تو صحیح دوا دے دیں گے مگر پھر کوئی ایسی دوا تھما دیں گے کہ آپ الٹ کے رہ جاؤ گے اور جب تک آپ کو کوئی ڈاکٹر سیدھا کرے بات ہاتھ سے نکل چکی ہوگی۔
اب اسی افلاطون کا بڑا بیٹا بخار سے پھنک رہا ہے، قوتِ ذائقہ و شامہ جواب دے چکی ہیں۔ سانس بلا رکاوٹ نہیں آ پا رہا۔ مگر صاحبزادے کو اسپتال لے جا کر معائنہ کرانے پر تیار نہیں۔
کیونکہ اس افلاطون کو کسی اور بقراط نے بتا دیا ہے کہ اس بقراط کے کسی جاننے والے بطلیموس کے جاننے والے کسی ارسطو کے جاننے والے فیثا غورث میں یہی علامات پائی گئی تھیں اور جب وہ اسے اسپتال لے گئے تو ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ تو کورونا کی علامات ہیں اور اس کا ٹیسٹ ہوگا۔ ٹیسٹ پازیٹو نکلا۔ اسے اسپتال میں بھرتی کر لیا گیا اور چوبیس گھنٹے میں ہی اسے زہر کا انجکشن دے کر مار دیا گیا۔ اس کے کارآمد اعضا بیچنے کے لیے نکال لیے گئے۔ اسی لیے لاش بھی واپس نہیں دی گئی اور ورثا کو منہ دکھائے بغیر خود ہی دفنا دی۔ بندہ چلا گیا مگر ڈاکٹروں نے اسے کورونا کے باب میں مار کر ہزاروں کما لیے اور حکومت کو ایک اور لاش مل گئی جس کی تفصیل بتا کے وہ امریکا اور عالمی بینک وغیرہ سے مزید امداد بٹور لے گی۔
تو بھائی جان جب سے میں نے یہ قصہ سنا تب سے فیصلہ کیا ہے کہ میرا بچہ بھلے گھر میں مر جائے مگر میں اسے اسپتال لے کر نہیں جاؤں گا۔ اگلے دن جب بچے کی حالت مزید خراب ہو گئی تو یہی افلاطون اسے بادلِ نخواستہ اسپتال لے کر گیا۔ تب تک دیر ہو چکی تھی اور وہ چند ہی گھنٹوں میں مر گیا اور پھر ہمارا یہی افلاطون روتے پیٹتے کہنے لگا، میں نے کہا تھا نا کہ یہ لوگ میرے بچے کو زہر کا ٹیکہ لگا کر مار دیں گے اور اب وہ لاش بھی نہیں دے رہے۔ کیا میرے دوست نے غلط کہا تھا کہ وہ اس لاش سے بھی ہزاروں ڈالر کمائیں گے۔
جب آپ ایسے افلاطونوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کسی ایسے شخص سے اب تک ملے جس کے کسی عزیز کے ساتھ ایسا واقعہ براہِ راست ہوا ہو یا پھر ایسے کسی شخص سے ملے جس نے ایسا کچھ سننے کے بجائے چشم دید دیکھا ہو تو عموماً افلاطونی جواب یہ ہوتا ہے کہ جس نے مجھے یہ بات بتائی ہے وہ آخر مجھ سے جھوٹ کیوں بولے گا۔ میرا اس کا اتنے برس کا ساتھ ہے۔ وہ کوئی بھی بات خواہ مخواہ نہیں کرتا۔
جب آپ پوچھتے ہیں کہ اپنے ایک دوست کے سوا تم نے کسی نیوز چینل پر ایسی کوئی خبر سنی۔ کیونکہ نیوز چینل ایسی خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں اور کون سا پاگل چینل ہوگا جو ایسی چھت پھاڑ ریٹنگ توڑ خبر نہ چلائے۔ اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ آپ تو خود میڈیا کے آدمی ہیں اور آپ کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ آج کل کے حالات میں میڈیا اوپر والوں کی اجازت کے بغیر خبر چھوڑ ایک پٹی تک نہیں چلا سکتا۔ تو پھر ایسی لاشوں کی خبر کیسے چلا ئے گا جن کو بیچنے اور دکھانے سے خزانے میں کروڑوں ڈالر آ رہے ہوں۔
لیکن آپ خود کہہ رہے ہیں کہ آپ کا بچہ کورونا سے مرا ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ کورونا سے لوگ مر تو رہے ہیں۔ آپ اس سے انکار تو نہیں کر سکتے۔ ضرور مر رہے ہیں مگر ضروری تو نہیں کہ میرا بیٹا کورونا سے ہی مرا ہو۔ میں نے تو اس کا اس مارے ٹیسٹ ہی نہیں کرایا تھا کہ کورونا ہو نہ ہو یہ ڈاکٹر لوگ اسے پازیٹو ہی بتائیں گے کیونکہ انھیں اس کا کمیشن ملتا ہے۔
چنانچہ جب آخری دن مجھ سے اپنے بیٹے کی حالت دیکھی نہیں گئی اور مجبوراً اسے اسپتال لے کر گیا تو وہی ہوا جو ہونا تھا۔ انھوں نے فوراً اسے کورونا کا مریض بتایا اور چند گھنٹے بعد زہر کا انجکشن لگا کے مار دیا۔ کورونا کا اس لیے مشہور کر دیا کہ لاش نہ دینی پڑے۔ ابھی یہ سامنے کی بات میرے بار بار سمجھانے کے باوجود آپ کی عقل شریف میں کیوں نہیں آ رہی؟ آپ مجھ سے اور کیا کہلوانا چاہ رہے ہیں؟
اس افلاطون کی سننے کے بعد سے میں سوچ رہا ہوں کہ اب تک جتنے بھی لوگ مرے ان میں سے کتنے کورونا سے زیادہ کورونا کے بارے میں افواہوں نے مارے۔ اور جنھوں نے یہ افواہیں ایجاد کیں، کیا ان میں سے کسی کو بھی کورونا کے ہاتھوں موت نہ آئے گی؟
طوفانِ نوح سے کورونا تک کیسے کیسے عذاب گذر گئے مگر نہیں کم ہوئی تو انسان کے اندر کی تاریکی۔ جب بھی موقع ملتا ہے وہ تمام زنجیریں توڑ کے دل اور دماغ پر چھا جاتی ہے۔
سماج عبرت کے کس پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔ اس کا ایک ثبوت پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا یہ ٹویٹ ہے " لوگوں نے ٹیکے خرید کر گھروں میں رکھ لیے ہیں کہ یہ زندگی بچائیں گے۔ ذخیرہ اندوز خدا کا خوف کریں۔ خدارا اس مشکل وقت میں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں اور انسانیت کو زندہ رکھیں "۔
ڈاکٹر یاسمین راشد کا ٹویٹ اس اخباری رپورٹ کے پس منظر میں تھا کہ حکومت نے آزمائشی بنیاد پر امریکا سے ریمی ڈیسوائر اور جاپان سے ایکٹیمرا انجکشن منگوانے کی اجازت دی ہے۔ ریمی ڈیسوائر کی ابھی سرکاری قیمت مقرر نہیں کی گئی۔ مگر ایکٹیمرا انجکشن امپورٹ کرنے کی اجازت روش نامی دوا ساز کمپنی کو دی گئی۔ ایکٹیمرا اسی، دو سو اور چار سو ایم جی وائل کی شکل میں دستیاب ہے اور چار سو ایم جی کی قیمت ساٹھ ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ مگر یہ وائل ڈسٹری بیوٹر کے پاس سرکاری قمیت میں دستیاب نہیں البتہ کھلی مارکیٹ میں مبینہ طور پر ساٹھ ہزار کا وائل چار لاکھ روپے میں مل رہا ہے۔
یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ ابتدائی دنوں میں اکثر نجی اسپتالوں نے کورونا کے مریض لینے سے انکار کر دیا۔ لیکن اب بہتی کنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے صاحبانِ حیثیت کو پندرہ تا بیس لاکھ روپے تک کے پیکیج میں فائیوا سٹار قرنطینہ مہیا کیا جا رہا ہے۔
یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جنھیں اللہ نے کورونا سے شفا یاب کر دیا ہے۔ ان میں سے کئی لوگوں نے شکر ادا کرنے کے لیے اپنا پلازما کسی اور ضرورت مند کو عطیہ کرنے کے بجائے قیمتاً فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان قصوں میں حقیقت کیا ہے اور افواہ کیا۔ وہ آپا دھاپی ہے کہ اﷲ کی پناہ۔
مگر ان دنوں یہ خیال کثرت سے آ رہا ہے کہ
میں کن لوگوں میں رہنا چاہتا تھا
یہ کن لوگوں میں رہنا پڑ رہا ہے
اور اندر کی خبر یہ ہے کہ ابلیس انسانی عقلِ سلیم اور عمومی اخلاقی معیار سے پہلی بار اس قدر متاثر و مطمئن ہوا ہے کہ اس نے اپنی لا محدود ضد اور نظریاتی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے بالاخر آدمی کو سجدہِ تعظیمی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مبصرین اس غیر متوقع پیش رفت کو گیم چینجر قرار دے رہے ہیں۔