فلسطینی جدوجہد میں مسیحوں کا کردار (2)
پانچ تا نو جون انیس سو سڑسٹھ (چھ روزہ لڑائی) جب اسرائیلی طیاروں نے مصر اور شام کی تین چوتھائی فضائیہ کو زمین پر کھڑے کھڑے تباہ کردیا اور ایک سو چوالیس گھنٹے میں مصر سے پورا جزیرہ نما سینا بشمول غزہ، شام سے گولان کی پہاڑیاں اور اردن سے پورا مغربی کنارہ چھین لیا تو دنیا بھر کے عسکری ماہرین انگشتِ بدنداں رہ گئے۔
مصر کے سپاہ سالار فیلڈ مارشل عبدالحکیم عامر نے مارے شرمندگی خود کو گولی مار لی اور عرب قوم پرستی کے سپر ہیرو جمال عبدالناصر نے صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا مگر لاکھوں مصریوں نے جمال ناصر کی حمائیت میں قاہرہ کی سڑکیں بھر دیں اور انھیں بادلِ نخواستہ استعفی واپس لینا پڑا۔ تاہم جمال ناصر نے ہزیمتی صدمہ دل پر لے لیا اور ستمبر انیس سو ستر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا۔
شکست کا ازالہ کرنے کے لیے جمال ناصر کے جانشین انور سادات نے اکتوبر انیس سو تہتر میں اسرائیل سے آخری بھرپور جنگ لڑی۔ اگرچہ اس جنگ کے بدلے انھیں انیس سو ستتر میں جزیرہ نما سینا واپس تو مل گیا لیکن اس کی قیمت اسرائیل کو تسلیم کرنے کی صورت میں بھرنا پڑی اور پھر مصر سوویت خیمے سے نکل کر امریکی کیمپ کا حصہ اور اسرائیل کے بعد سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا سہولت کار بن گیا۔
گویا سوائے شام اور لیبیا کے مصر سمیت بیشتر عرب دنیا نے فلسطینیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور عملی مدد کی جگہ زبانی جمع خرچ کی پالیسی اپنا لی گئی جو وقت کے ساتھ ساتھ اور مستحکم ہوتی چلی گئی۔ جن عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض مصر کو عرب لیگ سے نکال دیا تھا ان میں سے آٹھ ممالک نے بہت بعد میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔
فلسطینیوں نے خود کو تنہا پایا تو مسلح جدوجہد اور تیز کر دی جس میں مسلمان، مسیحی، سوشلسٹ، کیمونسٹ، مذہب پرست غرض تمام فلسطینی شامل تھے۔ یاسر عرفات کی الفتح تنظیم نے اسرائیل کے اندر چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیں اور جب انیس سو ستر میں اسرائیل نے اردن میں قائم فلسطینی پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو اردن کی حکومت نے اسرائیلی غیظ و غضب سے پناہ کے لیے پناہ گزینوں کو ہی بزور ملک سے نکال دیا۔ ان کی اکثریت شام اور لبنان منتقل ہوگئی۔ یاسر عرفات نے بھی اپنا ہیڈ کوارٹر عمان سے بیروت منتقل کر دیا۔ انیس سو بیاسی میں بیروت کے اسرائیلی محاصرے کے سبب یاسر عرفات کو اپنا دفتر مزید ہزاروں میل دور تیونس منتقل کرنا پڑا۔
اس موقع پر ایک اور سرکردہ فلسطینی رہنما جارج حباش کا ذکر بنتا ہے۔ ان کے خاندان کو بھی اب اسرائیل میں شامل شہر لیدیا سے نقبہ کے دوران جبراً نکالا گیا اور بہت سے فلسطینیوں کی طرح حباش خاندان نے بھی اردن میں پناہ لی۔ جارج نے طب کی تعلیم حاصل کی اور کئی برس ایک فلسطینی کیمپ میں فری کلینک چلاتے رہے۔ انیس سو چونسٹھ میں جب یاسر عرفات نے الفتح تنظیم قائم کی تو جارج بھی ان کے ہم رکاب ہو گئے۔ مگر انیس سو سڑسٹھ کی جنگ کے بعد وہ نظریاتی اختلاف کی بنا پر الفتح سے علیحدہ ہو گئے اور مارکسسٹ نظریات کے حامی ہم خیال فلسطینیوں کے ساتھ مل کے پاپولر فرنٹ برائے آزادیِ فلسطین (پی ایف ایل پی) کی بنیاد رکھی۔
جارج حباش کا خیال تھا کہ " لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے "۔ وہ مسلح جدوجہد کو اور تیز کرنا چاہتے تھے تاکہ دنیا اس مسئلے کو تشویش ناک سنجیدگی سے لے۔ چنانچہ ان کی تنظیم کے ایک ذیلی گروپ نے بلیک ستمبر کے نام سے انیس سو ستر میں چار مغربی اور اسرائیلی طیاروں کو اغوا کرکے عملے اور مسافروں سے خالی کروا کے تباہ کر دیا۔
ہائی جیکرز میں لیلی خالد بھی شامل تھیں جو اس زمانے میں پاکستان کے ہر نوجوان کی ہیروئن بن گئیں۔ مگر یہ مہم جویانہ پالیسی زیادہ عرصے نہ چل سکی۔ جارج حباش نے اپنی تنظیم کا دفتر دمشق میں قائم کیا۔ وہ انیس سو ترانوے کے اوسلو سمجھوتے کے بھی خلاف تھے اور سمجھتے تھے کہ اس کے ذریعے دو ریاستی حل کا جو لالی پاپ دیا گیا ہے اس کا مقصد فلسطینی جدوجہد کے گلے میں پٹہ ڈالنا ہے۔
جارج کا انتقال دو ہزار آٹھ میں کینسر کے سبب اکیاسی برس کی عمر میں ہوا۔ مرتے دم تک ان کا موقف تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور اس کا وجود عربوں کے لیے کینسر ہے جو رفتہ رفتہ سب کھا جائے گا۔ ان کی وفات پر فلسطینی اتھارٹی نے تین روزہ سرکاری سوگ کا اعلان کیا۔ حماس کے رہنما اسماعیل حانیا نے انھیں فلسطینی مزاحمت کا عظیم لیڈر قرار دیا۔ اسرائیل نے جارج حباش کی میت مقبوضہ مغربی کنارے پر لانے کی اجازت نہیں دی چنانچہ انھیں عمان کے ایسٹرن آرتھوّڈ کس چرچ کے احاطے میں دفن کیا گیا۔
آگے چل کے ہم اور مسیحی فلسطینیوں کا تذکرہ بھی کریں گے جنھوں نے فلسطینی سیاست، جدوجہد اور تعلیمی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
فلسطینی مسیحوں کے نسلی ماضی کو دیکھا جائے تو کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جو اپنا شجرہ ان ابتدائی بزرگوں سے ملاتے ہیں جو حضرت عیسیؑ کے حواری یا بعد کے ابتدائی دور میں نئے مذہب کے مبلغ تھے۔ متعدد فلسطینی مسیحوں کا کہنا ہے کہ وہ جزیرہ نما عرب کے معروف قبیلے بنو غسان، رومن عمل داروں، بازنطینیوں یا صلیبی جنگجوؤں کے نسلی وارث ہیں۔ ان میں کچھ وہ ہیں جن کے پرکھے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دیگر ممالک سے زیارات کے لیے آئے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ ان میں سیاہ فام مسلمان اور مسیحی شامل تھے۔
بیت الحم کی آبادی اگرچہ پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے مگر آپ کو یہاں کم ازکم پندرہ مسیحی فرقوں کے ماننے والے اور ان کے گرجے مل جائیں گے۔
ان کی روزمرہ ثقافت، عادات و اطوار، کھان پان، رہن سہن اور لہجے سے پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ مسلمان فلسطینیوں سے سوائے عقیدے کے اور کہاں الگ ہیں۔ ان کے وعظ اور عبادات بھی عربی میں ہیں۔
گزشتہ برس پہلی بار بیت الحم میں کرسمس کی روائیتی تقریبات منعقد نہیں ہوئیں۔ کیونکہ غزہ اور مغربی کنارے پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کا صدمہ ہر جانب تھا۔ البتہ گرجوں میں کرسمس کا روائیتی وعظ ضرور ہوا۔ چرچ آف نیٹوٹی کے بشپ نے اپنے خطبے میں مسیحی اکثریتی مغربی ممالک کی اسرائیل نوازی اور مسیحی علما کی مصلحت آمیز خاموشی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اپنے وعظ کا اختتام ان الفاظ پر کیا۔
"ہم فلسطینیوں کے لیے یہ کوئی نئی مصیبت نہیں۔ ہم جس طرح گزشتہ ابتلاؤں سے سرخرو نکلے ہیں اس بحران سے بھی نکل ہی آئیں گے۔ ہمیں دنیا کی بے حسی پر قطعاً تعجب نہیں مگر ہم اس رویے کو بھولیں گے نہیں"۔
جاری ہے۔۔