بہت کچھ پہلی بار ہی ہوتا ہے
جب کسی بظاہر مہذب ریاست کی اوقات دیکھنی ہو تو یہ دیکھو کہ بحران کے وقت اس کا دیگر انسانوں سے عملی رویہ ہوتا ہے اور جب آس پاس کی انفرادی اور اجتماعی رائے اس کی رائے کے مخالف سمت بہنے لگے تب اس کا عقلی و جذباتی روپ کیا نکل کے آتا ہے۔
غزہ کی پٹی نے پچھلے سات ماہ میں کم ازکم عالمی ضمیر کی آنکھوں پر بندھی پٹی ذرا سی نیچے کھسکا دی اور کچھ کچھ ہی سہی مگر ہم میں سے ہر کوئی مشرقِ وسطی کی "واحد جمہوریت " اور اس کی اندھ بھگت انسانی حقوق اور جمہوریت کی علمبردار سپر پاور کی نیم پاگل عریانی بجشم ملاحظہ کر سکتا ہے۔
اسرائیل اور امریکا اقوامِ متحدہ کے رکن ہونے کے ناتے اقوامِ متحدہ کے اہم قانونی بازو عالمی عدالتِ انصاف کے تمام فیصلوں پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ جب گزرے جمعہ کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے اسرائیل کو فوری طور پر غزہ کے انتہائی جنوبی اور آخری شہر رفاہ پر فوج کشی روکنے اور انسانی امداد کی ترسیل میں حائل تمام رکاوٹیں بلا تاخیر دور کرنے کا حکم دیا تو امریکا کے سینیر ترین ریپبلکن سینیٹرز میں سے ایک لنڈسے گراہم نے کہا کہ بین الاقوامی عدالتِ انصاف جائے جہنم میں۔ اس نام نہاد عدالت کی اسرائیل دشمنی ایک عرصے سے عیاں ہے۔ چنانچہ اسرائیل کو اس کے احکامات مکمل طور پر نظرانداز کر دینا چاہئیں۔
اس سے پہلے جب اقوامِ متحدہ کے ایک اور ادارے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے عدالت سے نسل کشی کی فردِ جرم کے تحت اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو اور وزیرِ دفاع یووگیلنٹ اور حماس کے تین سرکردہ رہنماؤں کے گرفتاری وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کی تو امریکی کانگریس کے ریپبلیکن اور ڈیموکریٹ ارکان کے اسرائیل نواز گروپ نے بائیڈن انتظامیہ سے مشترکہ مطالبہ کیا کہ وارنٹ جاری ہونے کی صورت میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ پر تادیبی انفرادی و اجتماعی پابندیاں لگائی جائیں۔
جب امریکا نے فلسطین کو اقوامِ متحدہ کی رکنیت دینے کی قرار داد کے خلاف اٹھارہ اپریل کو دوسری بار ویٹو کا استعمال کیا تو جنرل اسمبلی نے دس مئی کو نو کے مقابلے میں ایک سو تینتالیس ووٹوں سے فلسطین کو اقوامِ متحدہ کا رکن بنانے کی قرار داد منظور کی۔
اس موقع پر اقوامِ متحدہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک رکن ملک (اسرائیل) کے سفیر گیلاد اردان نے بھرے اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی کاپی پھاڑ کے پھینک دی۔ امریکا اور کینیڈا نے دھمکی دی کہ فلسطین کو رکنیت دی گئی تو اقوامِ متحدہ اور فلسطینی اتھارٹی کی مالی امداد سے ہاتھ کھینچا جا سکتا ہے۔
بائیس فروری کو ناروے، اسپین اور آئرلینڈ نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا اور اسرائیل سے سوائے اس کے کچھ نہ بن پڑا کہ تینوں ممالک سے اپنے سفیر احتجاجاً واپس بلا لیے۔ اسی جھنجھلاہٹی ردِ عمل کی کڑی کے طور پر اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کی محصولاتی امداد کی ترسیل غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دی۔ جب کہ لاطینی امریکی ملک کولمبیا نے فلسطینی اتھارٹی کے مرکز رام اللہ میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کا اعلان کر دیا۔ چند ہفتے پہلے کولمبیا نے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اسی دوران یورپی یونین کے تمام ایسے رکنِ ممالک نے فلسطینیوں کے لیے مخصوص اقوامِ متحدہ کے امدادی ادارے انرا کی معطل امداد بحال کر دی جنھوں نے جنوری میں ان اسرائیلی الزامات کے بعد امداد روک لی تھی کہ انرا کے بارہ اہلکار سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے مسلح حملے میں عملاً ملوث تھے۔
اس الزام کی چھان بین کے لیے اقوامِ متحدہ نے ایک سابق فرانسیسی وزیرِ خارجہ کی قیادت میں جو جانچ کمیٹی قائم کی اس نے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل بار بار یاددہانی کے باوجود ایک بھی ٹھوس ثبوت کمیٹی کے سامنے رکھنے میں ناکام رہا۔
امریکی یونیورسٹیوں میں ہزاروں طلبا نے جس طرح اپنے تعلیمی مستقبل کو داؤ پر لگاتے ہوئے دھرنے دیے اور ان دھرنوں سے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح بزور نمٹنے کی کوشش کی اور پہلی بار امریکن اسرائیل لابی کے چندہ یافتہ ارکانِ کانگریس نے جس طرح اس دباؤ کی مزاحمت کے لیے جوابی محاذ کھولنے سے معذوری کا اظہار کیا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
طلبا مزاحمت صرف امریکی یونیورسٹیوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ کینیڈا، یورپ اور آسٹریلیا کے تعلیمی اداروں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہی طلبا کل اپنے اپنے ممالک کی سیاسی و انتظامی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بنیں گے۔ تب عین ممکن ہے کہ ان ممالک کی اندھی اسرائیل نوازی میں کچھ تبدیلی آئے۔
جرمنی، برطانیہ اور فرانس جیسے طاقتور ممالک کی اسٹیبلشمنٹ پہلی بار عالمی برادری کے اکثریتی دباؤ کی تپش محسوس کر رہی ہے۔ سوائے امریکا کے اسرائیل کے کسی دوست کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس نکتے پر اسرائیل کا ساتھ دینا ہے، کن کن حرکتوں پر خاموشی اختیار کرنی ہے یا پھر دبے دبے الفاظ میں تشویش جتانی ہے۔
ہوا کا رخ دیکھ کے امریکا نواز عرب ممالک بھی اپنے اپنے موقف کو ازسرِ نو ترتیب دے رہے ہیں۔ مثلاً سعودی عرب امریکا سے ایک جامع دفاعی معاہدہ کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ مگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی پیشگی امریکی شرط فلسطین کے دو ریاستی حل کے بغیر ماننے سے بھی ہچکچا رہا ہے۔ امریکا کا ایک اور معتبر علاقائی اتحادی مصر تک بدک گیا ہے اور اس نے کئی برس کی غیرجانبداری کو بادلِ نخواستہ ترک کرتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ میں داخلے کی گز رگاہ رفاہ کراسنگ پر سے قبضہ نہ ہٹایا اور غزہ کی آبادی کو مصر میں دھکیلنے کی کوشش کی تو انیس سو اناسی میں ہونے والا کیمپ ڈیوڈ امن معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس سے قریبی اقتصادی تعاون کرنے والے ممالک میں شامل ہیں۔ مگر عرب رائے عامہ کی تپش اتنی بڑھ چکی ہے کہ اس ماہ کے وسط میں بحرین نے عرب لیگ کے اجلاس کی میزبانی کی۔ اس میں طے پایا کہ دو ریاستی حل کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر ایک بین الاقوامی کانفرنس طلب کی جائے۔ ایسی کانفرنسوں سے ضروری نہیں کہ امریکا کو بھی جلد احساس ہو جائے کہ ہوا کا رخ کس رفتار سے بدل رہا ہے۔ مگر تاریخ کا سفر کسی ایک ریاست کی خواہش کے تابع تھوڑی ہوتا ہے۔