صحن کعبہ میں
جدہ ائیر پورٹ اترے تو یکم رمضان المبارک کی نوید ملی۔ عمرہ ادائیگی کے بعد سحری کی اور بیت اللہ کو ٹکٹکی باندھے تکتی رہی گنگناتی رہی۔ "کنا سوہنا تینوں رب نے بنایا جی کرے ویکھ دی رواں"۔۔ ہر سال دو تین مرتبہ لاہور سے نیویارک آتے جاتے رب کے گھر کی زیارت پر فقط اتنا کہوں گی "لگیاں نے موجاں ہن لائی رکھیں سوہنیا۔ چنگے ہاں کہ مندے ہاں، نبھائی رکھیں سوہنیا۔ آقا دے غلاماں دی میں ادنٰی غلام ہاں لوکی کہندے خاص میں تے عاما تووی عام ہاں۔ پردہ جئے پایا ہے تے پائی رکھیں سوہنیا، حشر دہاڑے جد عملاں نو تولنا شرم دے مارے میں تے کجھ وی نہی بولنا۔ دامن وچ اپنے لکائی رکھیں سوہنیا، ناں تیرا لے کے آقا شان میں وی پائی اے تیرے ہتھ ڈور سائیاں آپے تو چڑھائی اے تے چڑھی ہوئی گڈی نوچڑھائی رکھیں سوہنیا۔ چنگے ہاں کہ مندے ہاں، نبھائی رکھیں سوہنیا"۔۔ اور پھر برستی آنکھوں نے فتح مکہ کا منظر دیکھا۔۔ ذراتصور کیجئے اس لمحے کا جس وقت فاتح عالم آقا نامدار محمد رسول اللہ ﷺ اپنے آبائی علاقے اور اللہ سبحان تعالیٰ کے محترم شہر مکہ معظمہ میں داخل ہو تے ہیں اور خشوع و خضوع اور سجدہ شکر کا یہ عالم ہے کہ آپ کی ٹھوڑی مبارک سواری کے پالان کو چھو رہی ہے۔
اللہ کے حبیب دس سال بعد فاتحانہ انداز میں اس مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے ہیں جہاں انہیں اور ان کے اصحاب و اہل بیت کو اذیتیں دی جاتی تھیں، مذاق اڑایا جاتا تھا حتیٰ کہ امن والے شہر سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا اور دس سال بعد 17 رمضان المباک کی صبح رسول اللہ ﷺ مکہ روانہ ہوئے اور اپنے سبز دستے کے جلو میں مکہ اس شان سے داخل ہوئے کہ ابوسفیان نے حضرت عباسؓ سے پوچھا "اے عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا اے ابو سفیان! یہ نبوت ہے"۔
فاتحین کا جلوس آگے بڑھا، حضرت زبیرؓ نے مسجد فتح کے پاس رسول اللہ ﷺکا جھنڈا گاڑ دیا۔ اس کے بعد رسول اللہ مہاجر و انصار کے جلوس میں مسجد حرام کے اندر تشریف لے گئے۔ آگے بڑھ کر حجر اسودکو چوما اور اس کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا، آپ نے طواف اپنی اونٹنی پر بیٹھ کر کیا۔ اس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک کمان تھی اور بیت اللہ کے گرد اور اس کی چھت پر 360 بت تھے۔
آپ اسی کمان سے ان بتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے تھے اور کہتے جاتے "حق آ گیا اور باطل چلا گیا، باطل جانے والی چیز ہے۔ " اور آپ کی ٹھوکر سے بت چہروں کے بل گر جاتے تھے۔ پھر بیت اللہ کے اندر تشریف لے گئے، وہاں موجود بتوں کو بھی پاش پاش کر ڈالا اور پھر وہیں آپ نے نماز اداکی۔ اس کے بعد آپ بیت اللہ کے دروازے پر تشریف لائے۔
قریش سامنے مسجد حرام میں صفیں لگائے بیٹھے تھے۔ ہجوم قابل دید تھا۔ آپ نے کعبہ کے دروازے کے دونوں پٹ تھامے اور نیچے بیٹھے قریش سے مخاطب ہو کر فرمایا "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ واحد ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور تنہا سارے جتھوں کو شکست دی۔
آپ نے فرمایا "قریش کے لوگو! تمہارا کیا خیال ہے، میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں؟ انہو ںنے کہا " آپ کریم بھائی ہیں۔ " آپ نے فرمایا "تو میں تم سے وہی بات کہہ رہا ہوں جو حضرت یوسفؑ نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی کہ آج تم پر کوئی سرزنش نہیں، جائوتم سب آزادہو"۔
عام معافی کے بعد نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ کعبہ پر چڑھ کر اذان دیں۔ " سبحان اللہ! وہ کیا منظر تھا، بلال حبشی فتح مکہ کے موقع پر کعبہ کی چھت پر کھڑے اذان دے رہے تھے اور قریش سر جھکائے بیٹھے تھے، عرش تا فرش انوار کی بارش برس رہی تھی، آقاسجدہ ریز تھے، جذبہ شکر سے غلاموں کی آنکھیں اشکبار تھیں، مکہ کی وادی بلال کی اذاں سے گونج رہی تھی اور پہاڑ لرز رہے تھے۔
مکہ میں رسول اللہ ﷺ نے 19 روز قیام فرمایا، اس دوران آپ شعائر اسلام کی تجدید فرماتے رہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کی پیغمبرانہ زندگی کا آخری مرحلہ ہے، جسے آپ نے 23 سال کی طویل جدوجہد، مشکلات و مشقت، ہنگاموں اور فتنوں، فسادات اور جنگوں اور خونریز معرکوں کے بعد طے کیا تھا۔