موکلات ہمزاد جنات
ہمزاد فارسی کا لفظ ہے یعنی ہمہ وقت ساتھ رہنے والا۔ قرآن پاک میں اسے "قرین" کہتے ہیں یعنی ساتھ رہنے والا۔ قرین یا ہمزاد سے مراد جن بھی ہے اور فرشتہ بھی۔ مسلم شریف کی حدیث ہے کہ ہر انسان کے لئے ایک ہمزاد جن اور ایک ہمزاد ملائکہ مقرر کر دیا جاتا ہے۔ پیدائش سے موت تک سایہ کی طرح ساتھ ہوتا ہے۔ حضور نے فرمایا ہر انسان کی پیدائش پر اس کے ساتھ ایک شیطان اور فرشتہ بھی ہوتا ہے، اصحاب کے استفسار پر آپ نے فرمایا میرا شیطان مجھ پر ایمان لا چکا ہے۔
ہمزاد ماضی حال تو جانتا ہے لیکن مستقبل فقط رب جانتا ہے۔ البتہ قرآن کے مطابق شیاطین آسمانوں سے کوئی ایک آدھ خبر پا لیں تو اس سے ضعیف العتقاد افراد کو بے وقوف بنانا مشکل نہیں۔ کیا کوئی بابا یا پیر پیرنی انسان کی موت کہاں اور کس حال میں ہوگی سے متعلق یقین سے بتا سکتا ہے؟ کیا کوئی پیر مرشد دعویٰ کر سکتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں جو بچہ ہے نیک ہوگا یا بد؟ سائنس یہ تو بتا سکتی ہے کہ لڑکا ہوگا یا لڑکی لیکن بچے کی تقدیر سے متعلق نہ سائنس بتا سکتی ہے، نہ کوئی پیر عامل یا بزرگ بتا سکتا ہے۔
اس تمام داستان میں"تعلق اللہ اور قرب الٰہی" کہیں موجود نہیں۔ سب اس دنیا کے جتن ہو رہے ہیں۔ چند روزہ زندگی کے لئے وظائف چلے کاٹے جاتے ہیں کہ کوئی چیز ہاتھ لگ جائے جس سے لوگوں کو اپنا معتقد کیا جا سکے یا کمائی اور شہرت کا وسیلہ بن سکے۔ آخرت کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ حقیقی مرشد یا رہبر اس دنیا کی خبریں نہیں دیتے بلکہ آخرت کی منازل میں رہنمائی کرتے ہیں۔ اقتدار مل جائے، پاور مل جائے، ترقی یا تبادلہ ہو جائے، خواہشات اور مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جس کے لئے ماہر نجوم دست شناس عامل اور پیروں پیرنیوں کی چوکھٹ کے پھیرے لگائے جاتے ہیں۔ "
مرد ہو یا عورت اس کاہمزاد ایک منٹ میں اس کے سامنے ہوگا۔ چلہ کے بعد ہمزاد اس کے تابع ہوگا۔ مذہب کی قید نہیں آپ ہندو ہیں یا مسلمان۔ علم وہی ہوتا ہے جو پتھر پر بھی چلے تو چیر کے رکھ دے"۔ ہدیہ ڈالروں اور پاؤنڈز میں۔ رابطہ پاکستان کا۔ اس قسم کے اشتہارات امریکہ کینیڈا یورپ کے دیسی ٹی وی چینلز اور اخبارات میں عام ملیں گے۔ مغربی درسگاہوں کے فارغ التحصیل بھی ان چکروں میں پھنس رہے ہیں۔ اس اشتہار کے مطابق واضح ہوجانا چاہئے کہ موکلات پر تسلط کے لئے مذہب کی قید نہیں۔ ہر مذہب کے لوگ اپنے مذہبی وظائف کے چلے کاٹتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ الا ماشا اللہ عاملوں بابوں پیروں پیرنیوں کو ماضی حال مستقبل کی خبریں کیسے ہو جاتی ہیں؟ یاد رکھیں قرآن و احادیث کی روشنی میں یہ کمالات شیاطین و جنات کو میسر ہیں کہ وہ بندوں کی گمراہی کا سبب بنیں اور اللہ کی کسوٹی میں ایمان کا پیمانہ جانچا جا سکے۔ شہاب ثاقب عربی زبان کا لفظ ہے۔ شہاب کا معنیٰ ہے دہکتا ہوا شعلہ۔ اور ثاقب کا معنی ہے سوراخ کرنے والا۔ ہمارے نظام شمسی میں مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان چکر لگانے والے خلائی پتھر جنہیں" سیارچے " کہا جاتا ہے۔
شہاب ثاقب کا قرآن مجید میں کچھ اس طرح ذکرہے کہ " جو کوئی کچھ اچک لے جائے تو ایک روشن شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ (الصافات 10)"اور ہم نے قریب والے آسمان کو روشن چراغوں (ستاروں) سے سجا رکھا ہے اور ان کو شیطانوں پر پتھر برسانے کا ذریعہ بھی بنایا ہے اور ان کے لئے دہکتی آگ کا عذاب تیار کررکھا ہے۔ (الملک 5): رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے قبل شیاطین آسمان پر جاکر ان غیب کی باتوں کو سن لیا کرتے تھے جو فرشتوں کو بتائی جاتی تھیں پھر شیاطین ان باتوں میں سے کچھ باتیں نجومیوں کو بتادیا کرتے تھے جن میں کچھ مزید باتیں ملاکر نجومی لوگوں کو بتایا کرتے تھے۔
رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد آسمان پر پہرا سخت کردیا گیا اور اب جو شیطان آسمان پر غیب کی باتیں سننے کی غرض سے جاتا ہے فرشتے اس کو شہاب ثاقب سے مارتے ہیں۔ اسی کی طرف قرآن مجید میں اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ شیطان یعنی کاہن جو لوگوں کو غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے اور ان کا دعویٰ یہ ہوتا تھا کہ یہ باتیں آسمان سے سن کر کرتے ہیں۔ اللہ نے ان باتوں کی تردید کی ہے کہ اگر کبھی اتفاق سے کوئی بات ٹھیک نکل آئے تو ٹھیک لیکن یہ لوگ غیب کا کوئی علم نہیں رکھتے۔
اللہ نے سورہ الطور میں یوں بیان کیا ہے "کیا اِن کے پاس کوئی سیڑھی ہے جس پر چڑھ کر یہ عالم بالا کی سن گن لیتے ہیں؟ اِن میں سے جس نے سن گن لی ہو وہ لائے کوئی کھلی دلیل"۔ اور فرمایا "کیا اِن کے پاس غیب کے حقائق کا علم ہے کہ اس کی بنا پر یہ لکھ رہے ہوں"۔۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ ان عاملوں کاہنوں یا نجومیوں کو علم غیب میں کوئی دسترس حاصل نہیں اور اللہ اپنے علم غیب میں انسانوں میں سے جس کو چاہتا ہے شامل کرتا ہے جن کو ہم رسول یا نبی کہہ کر پکارتے ہیں۔ شیطان ملائکہ سے کچھ باتیں اچک لیتے تھے اور اس کو کاہنوں کے کانوں میں ڈال دیتے تھے۔
یہ عامل کاہن یا نجومی جو ایک آدھ بات میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ بالکل ایسا ہے کہ انسان قیاس آرائیاں کرتا ہے اور ان باتوں سے غیب کی خبریں بتاتا ہے تو اس میں کوئی ایک آدھ بات درست بھی ہو جاتی ہے۔ اور پھر سورہ الشعرا کی آیت 226 میں تو اس کو اور کھول دیا ہے: "لوگو، کیا میں تمہیں بتاوں کہ شیاطین کس پر اترا کرتے ہیں؟ وہ ہر جعل ساز بدکار پر اترا کرتے ہیں۔ سنی سنائی باتیں کانوں میں پھونکتے ہیں، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں"۔ اس میں سے سو باتیں کرتے ہیں اور کوئی دو چار ٹھیک ہوجائیں تو یہ محض اتفاق ہے۔۔
موکلات یا ہمزاد سے خبریں لانے والے بابے اور پیرنیاں ضعیف العتقاد افراد کو پیچھے لگا سکتی ہیں لیکن مومنین کا عقیدہ متزلزل نہیں کر سکتیں۔ یہ غیب کی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ بندے کے ماضی اور حال سے متعلق وہ خبریں اور معلومات ہوتی ہیں جو رونما ہو چکیں۔ دست شناس بھی ہاتھ کی لکیروں سے انسان کا ماضی بتا کر لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتے ہیں رقم بٹورتے ہیں اور مستقبل سے متعلق کچھ ٹیوے لگادیتے ہیں جو ایک آدھ درست ثابت ہوجائے تو گاہک پکا ہوجاتا ہے بلکہ نجومی کے پروپیگنڈہ کا باعث بن جاتا ہے۔
ہمزاد بھی وہی خبریں دے سکتا ہے جو ہو چکیں۔ ہمزاد جن اورشیطان سے عامل جو کام لے سکتے ہیں اسے آج سائنس اور جدید ٹیکنالوجی سے سمجھنا آسان ہو چکا ہے۔ گاڑی یا سمارٹ فون میں نصب GPS یا نیوی گیٹر سسٹم آپ کو گاڑی چلاتے وقت منزل پر پہنچانے میں رہنمائی دیتا ہے۔ ایک نہ دکھائی دینے والی آواز آپ کی قدم قدم پر رہنمائی کرتی ہے حتیٰ کہ آپ کو منزل تک پہنچا دیتی ہے۔ اسی طرح کا ایک ایپ یا وسیلہ آپ اپنے سمارٹ فون میں ایڈ کریں تو دوسروں کے سفر سے متعلق بھی معلومات دیکھ سکتے ہیں۔
اسی سسٹم کی مدد سے سکیورٹی ایجنسیاں لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتی ہیں اور اکثر گمشدہ سمارٹ فون کی خبر بھی رکھی جا سکتی ہے کہ گم ہونے سے پہلے آخری مقام کیا تھا وغیرہ۔۔ اس نہ دکھائی دینے والی سائنسی سہولت سے موکل ہمزاد جنات یا شیاطین کی خبروں کو سمجھنا مشکل نہیں رہا۔ قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ ہر انسان کے ساتھ اس کا ایک سایہ ہمزاد یا شیطان بھی جنم لیتا ہے جو انسان کی موت تک اس کے ساتھ ہوتا ہے اور اگر کوئی عامل مخصوص وظائف اور چلوں سے دوسروں کے ہمزاد سے ظاہری خبریں معلوم کر سکتا ہے۔
ہمزاد کو قابو یا تسخیر کرنا حیران کن عمل نہیں۔ باقی علوم کی طرح یہ بھی ایک علم ہے جس سے بابے پیر پیرنیاں لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیتی ہیں اور لوگ اسے علم غیب سے تعبیر دیتے ہوئے ان لوگوں کو بزرگ یا ولی اللہ سمجھنے لگتے ہیں۔ کسی شخص کی حادثے میں پسلیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ ڈاکٹر ایم آر آئی اور دیگر میڈیکل طریقوں سے پتہ لگاتے ہیں کہ مریض کی ریڑھ کی ہڈی کے کتنے مہرے ٹوٹ چکے اورکیا آپریشن کیا جائے یا مریض کا دیگر میڈیکل طریقوں سے علاج کیا جائے؟ ایسے میں کوئی بابا اسے بتا دیتا ہے کہ اس کی ہڈی کا فلاں فلاں مہرہ ٹوٹ چکا ہے تو مریض اس بابے کا معتقد ہوجاتا ہے کہ اسے کیسے علم ہوا؟
مریض کا ہمزاد جو ہمہ وقت مریض کے ساتھ ہے مریض اور ڈاکٹروں کی گفتگو سنتا ہے عامل بابے یا پیر کو خبر دیتاہے اور مریض اس بابے کو پیر عامل صاحب کشف بزرگ مان لیتا ہے۔ بالکل اسی طرح گاڑی میں نصب نیوی گیٹر سسٹم میں شہر کے تمام راستے فیڈ ہوتے ہیں۔ سائنس اور جدید ٹیکنالوجی سے رب کے نظام کو سمجھنا اب مشکل نہیں رہا۔