عشق اس کو کہتے ہیں!
عشق یہ نہیں کہ کسی بھی بزرگ ہستی کو اللہ تعالی کے مقام تک پہنچا دیا جائے۔ عشق نام ہے بندگی کا، شرک سے بچنے کا، تمام عظیم ہستیاں بعد از خداء بزرگ ہیں۔ عشق کے آداب سیکھنے ہیں تو آقا ﷺ سے سیکھیں۔ روزِ حشر انبیاء کرام سے پوچھا جائے گا کہ آپ کی امتوں نے آپ کو خالق کے برابر مقام کیوں کر دیا؟ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا، "مجھے قرآن سنائو۔" میں نے عرض کی، "یا رسول اللہﷺ، کیا میں آپؐ کو قرآن سنائوں حالانکہ یہ آپؐ پر نازل ہوا ہے؟ " آپؐ نے فرمایا، "میرا دوسروں سے قرآن سننے کو جی چاہ رہاہے۔" چنانچہ میں نے آپؐ کو سورۃ النساء سنانا شروع کی اور جب میں "بھلا اس دن کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت میں سے احوال بتانے والے کو بلائیں گے اور تم کو ان لوگوں کا حال بتانے کو بطور گواہ طلب کریں گے" پر پہنچا تو کسی نے میرے پہلو کو دبایا جس پر میں نے سر اٹھایا اور کیا دیکھتا ہوں کہ آپؐ کی آنکھیں اشکبار ہیں، آنسو مسلسل بہہ رہے ہیں۔ یہ ہے آقا محمد رسول اللہﷺ کی حالت مبارک اپنی امت کے لیے۔ آپؐ نے فرمایا، "اے میری امت، روزِ حشر مجھے خدا کے سامنے شرمندہ نہ کرانا۔" نبی کریمﷺ جس وقت اس جہانِ فانی سے کوچ فرما رہے تھے آپؐ کی زبانِ مبارک پر "میری امت میری امت" کے الفاظ تھر تھرا رہے تھے۔"یا اللہ، روزِ حشر میری امت کو بخش دینا۔" نبی کریمﷺ نے اپنی دنیا کے لیے کبھی کچھ نہ مانگا، بس جب بھی مانگا اپنی امت کی بخشش کا ہی سوال کیا۔
جتنا پیار محمد رسول اللہﷺ اپنی امت سے فرماتے ہیں، اس کی نظیر دو جہان میں نہیں مل سکتی۔ حضورﷺ کی لاڈلی امت کی کاہلی کا مظاہرہ فرمائیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی حضور پاکﷺ کو مشورہ دیاکہ اللہ تعالیٰ سے پچاس کی بجائے پانچ نمازوں کی عرض کریں، آپ کی امت پچاس نمازوں کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتی۔ اللہ تعالیٰ بھی قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ بے شک نماز ایک مشکل عبادت ہے لیکن ان لوگوں کے لیے نہیں جو پرہیز گار ہیں اور پھر یہ بھی فرما دیا کہ مصیبت پر صبر اور نماز سے مدد لو۔ یعنی فقط صبر اور نماز دو ایسی عبادتیں ہیں جو مصیبت میں انسان کو سکون پہنچا سکتی ہیں۔ انسان کو یہ دونوں کام ہی مشکل معلوم ہوتے ہیں۔ محبت ہو جائے تو مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں۔ محبت کا سفر شروع ہو جائے اور استقامت نصیب ہو جائے تو محبت کی معراج عطا ہو کر رہتی ہے۔ خالقِ حقیقی کی اپنے حبیبؐ سے محبت کی معراج تھی کہ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے کراکے سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا دیا۔ اس مقامِ عالی کا شرف بجز محمد رسول اللہﷺ کسی نبی کو حاصل نہ ہو سکا۔ حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں:
تھا اَرِنی گو کلیم، میں اَرِنی گو نہیں
اس کو تقاضا روا، مجھ پہ تقاضا حرام
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پروردگار سے کہا، "اے رب، میں تجھے دیکھنا چاہتا ہوں۔" مگر خدا نے کہا، "تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔" جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تقاضا کیا تو خدا کی تجلی سے طور جل گیا اور موسیٰ علیہ السلام بیہوش ہو گئے۔ اس واقعہ سے اقبال نے یہ مضمون اخذکیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام "اَرِنی" کہہ کر دیدارِ الٰہی کا تقاضا کرتے تھے۔ یہ تقاضا ان کے لیے جائز تھا کیوں کہ وہ پیغمبر تھے مگر میں عام انسان ہوں، اس لیت تقاضا نہیں کرتا حالانکہ دیدارِ خداوندی کا خواہش مند ہوں۔ یعنی عاشق محبوب کے دیدار کا مشتاق ہوتا ہے، ملاقات کے لیے بے چین ہوتا ہے اور جب یہ تڑپ اپنی منزل کو پہنچنے لگے تو محبوب عاشق کو اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ مقامِ معرا ج کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ صورت جو محمد رسول اللہﷺ کو نصیب ہوئی، اس کے بعد آپؐ کے عاشقان اور صدیقین و شہدا، مقربین و صالحین کو اپنی اپنی حیثیت و مقام کے مطابق حاصل ہوتا رہا۔ اولیاء کرام کے عرس منانے کے پس پشت بھی یہی فلسفۂ معراج پنہاں ہے۔ محب جب محبوب سے ملتا ہے تو دونوں جہانوں میں جشن کا سماں ہوتاہے۔ محبوب کا دیدار ہی تو حاصلِ عبادت ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:
عشق تری انتہا، عشق مری انتہا
تو بھی ابھی ناتمام، میں بھی ابھی ناتمام
ہر انسان کی معراج کا جذبہ عشق ہے۔ اگر کسی میں یہ جذبہ نہیں تو اس کی شخصیت تکمیل سے محروم ہے۔ اقبال کے بقول چونکہ اس وقت کسی شخص میں یہ جذبہ دکھائی نہیں دیتا اس لیے سب انسانوں کی شخصیات نا مکمل نظر آتی ہیں۔ اللہ سے بھی دنیا مانگنے کا لالچ اور دنیا میں جو محبوب بنا رکھے ہیں ان سے بھی دنیا وی مفادات و اغراض وابستہ ہیں۔ خلوص، قربانی، ایثار، پیار، رحم، ہمدردی کا نام محبت ہے جبکہ عشق و جنون فقط قربانی کا نام ہیں۔ صحابہ کرامؓ جب بھی حضورﷺ سے مخاطب ہوتے "یا رسول اللہﷺ، آپ پر ہمارے والدین جان و مال اور اولاد قربان" کہنے کے بعد مدعا بیان فرماتے۔ پہلے خود کو آپؐ کے قدموں میں نچھاور کر تے پھر عرض کرتے۔ عاشق وصل کے لیے تڑپتا ہے اور پھر جو پل بھی اس دنیا میں گزارتا ہے کانٹوں پر بسر کرتا ہے۔ وصل کی تڑپ جب جنون و دیوانگی کو چھونے لگے تو ملک الموت کو حکم ہوتا ہے کہ "جائو، میرے فلاں عاشق کو میرے پاس لے آئو! اب اس سے جدائی مزید برداشت نہیں ہو پائے گی۔"