ہماری عورت کی نفسیاتی حالت
نشہ کی لعنت خوفناک نتائج دے رہی ہے۔ بھانت بھانت کی نشہ آور چیزیں دریافت ہو رہی ہیں اور نئی نسلیں نگل رہی ہیں۔۔ بگڑی ہوئی نسلوں کوکون روک سکتا ہے؟ ان بگڑی ہوئی نسلوں کے والدین بھی بگڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ سگریٹ نوشی شراب اور منشیات الا ماشا اللہ پاکستان کی خواتین میں بھی عام ہو رہی ہے۔
مزید تشویشناک پہلو اخلاق باختگی کا ہے جس میں الا ماشا اللہ پاکستان میں نوجوان خواتین کی صورتحال شرمناک ہوتی جا رہی ہے۔ والدین بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ جو والدین سمجھتے ہیں ان کی بیٹی لڑکوں سے میل ملاپ نہیں رکھتی لیکن لڑکیوں سے میل ملاپ کی حد کیا ہے اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سگریٹ نوشی، نشہ آور اشیا اور اخلاق باختگی کا رحجان لبرل خاندانوں میں ہی نہیں نیچے سے اوپر تک الا ماشا اللہ شرح میں افسوسناک اضافہ ہو رہا ہے۔
پہلے زمانے میں لڑکے شوقین مزاج سمجھتے جاتے تھے، اب خواتین اور لڑکیوں کی شوقین مزاجیاں قابل دید ہیں۔ اس ملک میں ان چند برسوں میں اندر خانے جو بگاڑ آ چکا ہے اگر اس کے خلاف آواز نہ اٹھائی گئی تو یہ ملک بیہودہ حرکتوں کے ہاتھوں تباہ ہو جائے گا۔ والدین اور بیکار قسم کے شوہر اپنی خواتین اور بہو بیٹیوں کی نفسیاتی حالت سے بے فکر ہو چکے ہیں؟ مرد اپنی کمزوریاں تو چھپا لیتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے ان کی عورتیں کس راستے پر چل نکلتی ہیں کچھ اس کا بھی احساس ہے؟
خواتین کا دن منانے والے خواتین پر تشدد کا ذکر تو کرتے ہیں، عورت کے فطری تقاضوں کو دبانے والوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے؟ مشرقی و اسلامی ریاست پاکستان میں الا ماشا اللہ خواتین کی نجی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، کسی نے ہائی لائٹ کرنے کی جرات کی؟ ایک ظالم مرد عورت پر جسمانی تشدد کا ہی مجرم نہیں، اپنی عورت کو ازدواجی زندگی سے محروم رکھنے کا بھی مجرم ہے اور اس جرم کی سزا عورت اپنے آپ کو خود دیتی ہے، غلط راستے استعمال کر کے۔
عورت کی بے راہ روی کا مجرم اس کا مرد ہے اور بگڑی نسل کے مجرم اس کے والدین ہیں۔ عورت کے فطری تقاضوں کو نظر انداز کر کے اسے کام کی مشین سمجھنے والا انسان مرد کہلانے کا حقدار نہیں۔ اگر تو آپ اس معاشرے کو اس گھٹن سے نجات دلانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو فطری تقاضوں کے درست اور شرعی طریقوں سے مناسب آگہی دینی ہوگی۔ جب قرآن و احادیث میں بھی انسان کی تخلیق کے حوالے سے موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے تو ہم اپنے بچوں کو وہ معلومات مناسب انداز میں کیوں نہیں پہنچا سکتے۔
اسلام اس معاملے میں بہت واضح احکام دیتا ہے۔ اسلام میں سات سال کے بچے کا بستر علیحدہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ ماؤں کو آگاہی دینی ہوگی کہ وہ اپنے بچوں پہ اعتماد کریں اور ان کو اچھے برے کی پوری آگاہی دیں ماؤں کو اپنی بیٹیوں کی سب سے اچھی دوست بننا سیکھنا ہوگا۔ تاکہ ان کی بیٹیاں بلاجھجھک اپنے ذہن میں اٹھتے سوال کے جواب کیلئے خفیہ ذرائع تلاش نہ کریں اور کوئی دوسری عورت یا سہیلی ان کے معصوم ذہن کو بھٹکا نہ سکے اور جنس کے حوالے سے غلط معلومات دے کر اس کو کسی اور راہ پہ نہ چلا سکے۔ کسی مسئلے کی سنگینی سے آنکھ چرانے اور اس پہ کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے سے مسائل حل ہونے کے بجائے پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔
آج کے دور میں ہر قسم کی انفارمیشن تک حد سے زیادہ اور آسانی کے ساتھ رسائی حاصل ہے جس کے باعث نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا غلط راستے پر چل نکلنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ جہاں تک ہمارے ملک کے ان علاقوں کا تعلق ہے جہاں عورت کی حالت ابھی تک پسماندہ ترین ہے وہاں اس طرح کے مسائل کی نفسیاتی وجہ قطعی مختلف ہوتی ہے۔ مردوں کا نامناسب رویہ، کثرت ازدواج اور گھر کے مردوں کا غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہونا کچھ ایسے نفسیاتی عوامل ہو سکتے ہیں جو کہ گھروں تک محدود رہنے والی خواتین کو اس طرف مائل کر سکتے ہیں۔
یہ مسئلہ اب بھی ہمارے معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے جسے ایک مسلمان اور انسان کی حیثیت سے ہمیں نہ صرف سوچنا ہوگا بلکہ اسے سمجھنے اور حل کرنے کی جانب بھی اقدامات اٹھانا ہونگے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کا استحصال بچپن میں گھر سے شروع ہو کر سکول، سکول سے کالج، کالج سے یونیورسٹی، یونیورسٹی سے دفتر اور دفتر سے سسرال جا کر ختم ہوتا ہے جہاں وہ سلسلہ وار ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی ہراسانی کا شکار ہوتی ہے۔ اس ہراسانی کو ثابت کرنے کا کوئی میعار اور پیمانہ نہیں ہے لہٰذا اگر کوئی عورت اس حراسانی کے خلاف آواز بلند کرے تو یا تو وہ آواز دبا دی جاتی ہے یا پھر اس پر لبرل، بے غیرت اور مغربی آزادی جیسے الزامات لگا کر خود کشی پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔
مظلوم کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا یعنی وکٹم بلیمنگ اس بے حس معاشرے کا بہترین مشغلہ بن چکا ہے۔ عورت کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو جب تک انصاف نہیں ملے گا عورت ناجائز طریقوں سے استعمال ہوتی رہے گی۔ مرد کو غیرت اور ذمہ داری کا ثبوت دینا ہوگا۔ اپنی بیٹی بہن کی نفسیاتی حالت کو سمجھنا ہوگا۔ اس کو معاشرے کی وحشت اور ظلم سے بچا کر رکھنا ہوگا۔