ڈاکٹر عافیہ کی قید کے سات ہزار دن
سورہ النِسا میں پروردگار فرماتے ہیں "آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اْن بے بس مردوں، عورتوں اور بچّوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کررہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے"۔۔ عافیہ صدیقی کو29مئی کوامریکی جیل میں سات ہزاردن ہوگئے ہیں۔
23جون 2003 کے بدنصیب دن پرویزمشرف صدر، ظفراللہ جمالی وزیراعظم، فیصل صالح حیات وزیرداخلہ، خورشیدمحمودقصوری وزیر خارجہ، رضاحیات ہراج وزیرقانون، شیخ ریاض احمد جنرل احسان الحق سربراہ آئی ایس آئی، جنرل ندیم تاج سربراہ ملٹری انٹیلی جنس، کرنل بشیرولی محمدسربراہ انٹیلی جنس بیوریو، اورسیدضمیرجعفری کے فرزندارجمند جنرل احتشام ضمیرایک اہم ترین قومی ایجنسی کے سربراہ تھے۔ ان تمام اعلیٰ عہدیداروں کے علم کے بغیرایک پتا بھی جنبش نہیں کرسکتاتھا۔
یہ سب افراد نہیں کہہ سکتے کہ انہیں ڈاکٹرعافیہ صدیقی اوراس کے بچوں احمدعمر7سال، مریم عمر5سال اورسلمان کے اغواء حبس بیجا اور انہیں امریکہ کے حوالے کرنے کے معاملات کا علم نہیں تھا۔ اس مظلوم اوربے گناہ خاتون کی وہ دردناک چیخیں جس نے بگرام ایئربیس کے درودیوارتک ہلاکررکھ دئیے، ان کی اذیت ناک ابتدا تو اسلام آباد سے ہوئی ہوگی۔
وہ یہاں کسی کو سنائی کیوں نہ دی؟ جرنیلی آمرکی رخصتی کے بعدجمہوری حکومتوں کوبھی راج کرتے ہوئے کئی سال بیت گئے ہیں اورسب حکومتوں نے قوم کو عافیہ کی رہائی کی یقین دہانیاں کرائیں اورعمران خان نے توایوان ریڈلی کے ساتھ بیٹھ کرعافیہ کی رہائی کے بڑے بلندوبانگ دعوے بھی کئے جوریکارڈپرموجودہیں۔ زرداری کے دور حکومت میں عافیہ کوافغانستان سے امریکالیجایاگیااورعوامی حکومت کادعویٰ کرنے والی حکومت اورعمران خان کی حکومت کے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کوکبھی یہ توفیق نہ ہوسکی کہ عافیہ کی بازیابی کامطالبہ کرتے۔
اس سنگین واردات کابقدرعلم ہونے کے باوجودان کے دلوں میں ایک بیٹی سے فطری محبت کاکوئی گدازپیدا نہیں ہوا؟ ذہنوں میں کوئی تلاطم اوردلوں میں کوئی دردپیدانہیں ہوا؟ کیاان کے دست وپا، قلب وبصارت اورنطق سماعت پرمکمل طورپر قفل پڑگئے ہیں کہ عمران خان اپنے دورِاقتدارمیں کسی ایک موقع کی مناسبت سے کبھی ایک باربھی اس رازکومنکشف نہ کرسکاجتنا وہ آج اپنے اقتدارکے چھن جانے پرسارے ملک کو آگ لگانے کے درپے ہے؟ ریمنڈڈیوس کی گرفتاری کے موقع پرعافیہ کی رہائی کاایک بہترین موقع تھالیکن غلاموں کوہمت نہ ہوسکی کہ اپنے آقاؤں سے ایسی گزارش ہی کرسکتے اوربدبخت دوپاکستانیوں کوسرعام دن دیہاڑے گولیوں سے چھلنی کرنے والے کی رہائی کیلئے پاکستانی خزانے سے کئی کروڑروپے ورثاء کوخون بہادیکردنوں میں ملک سے فرارکروادیا۔
اس پرامریکاکی عدالت میں اس طرح مقدمہ چلایاگیاکہ تمام زمینی حقائق اور رپورٹس چیخ چیخ کرعافیہ کی مظلومیت کی دہائی دے رہی تھیں لیکن امریکاکی عدالت نے حا لات کی بے رحم زنجیروں میں جکڑی کمزور، نحیف اورمظلوم عافیہ کو عدم ثبوت کے باوجود 87سال کی قیدسنادی۔ پابندِسلاسل ہونے کے باوجوداسے جنسی زیادتی کانشانہ بنادیاگیا اور وہ کینسرکے موذی مرض میں مبتلازندگی کے آخری سانس لے رہی ہے۔
صدحیف کہ علمائے دین بالخصوص طارق جمیل بھی اس واقعے پرمنہ میں خود غرضی کی گھنگھنیاں ڈالے بے حسی کاشکارہیں اورصدمبارک اورتحسین کے لائق ہیں ہماری وہ مجبوروبیکس کشمیری دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی جنہوں نے اپنی ملی غیرت کامظاہرہ کرتے ہوئے سڑکوں پرآکراپنااحتجاج ریکارڈکروایااوروہ بھی کئی برسوں سے مکارہندوکی جیل کی صعوبتیں برداشت کررہی ہیں۔
یہ کیسی قومی غیرت ہے، ہماری متعدداین جی اوز، حقوق انسانی کے علمبردار، غیرملکی قیدیوں کے غمگساراورموم بتی مافیاکہاں سو ئے ہوئے ہیں!شایدعافیہ کیلئے کوئی آوازاٹھانے، کوئی احتجاجی تحریک اورریلی نکالنے میں کسی اقتصادی فائدے کی کوئی صورت نظرنہیں آرہی ہوگی۔
وہ تو ہمسایہ ملک کے جاسوسوں اور دہشتگردوں کوسزائے موت کے باوجودرہاکروانے کیلئے اپنے دوراقتدارمیں اسمبلیوں سے قانون میں ترمیم کرواکراپنی وفاداری کاپیغام دینے میں عافیت سمجھتے ہیں اورملک پرحملہ آورپائلٹ کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں صرف کرکے واپسی کامحفوظ انتظام کرتے ہیں، جوہمیں جواب میں لا شوں کے تحا ئف دیتے ہیں۔
ہم امریکی قیدیوں کواپنی جیلوں میں وی آئی پی سہو لتیں دیتے ہیں، لاکھوں افغانوں کی قاتل فوج کی واپسی اوراپنے ملک میں میزبانی کرکے ان کی نظرالتفات کی بھیک مانگتے ہیں، وائٹ ہاؤس میں قصرسفیدکے فرعون کے سامنے پاکستان کی دلیربیٹی طیبہ ضیاء کوعافیہ کی بابت سوال پوچھنے سے منع کرتے ہیں۔
چشم فلک نے یہ بھی دیکھاسینکڑوں افرادکے بھارتی قاتلوں اورجاسوسوں دہشتگردوں کو بحفاظت ازلی دشمن ہندوحکومت کے حوالے کردیا گیا اوربرطا نوی شہریت کے حامل قاتل کی سزائے موت معاف کرکے نہائت احترام سے واپس برطانیہ بھجوادیاگیا۔ اگرایشین ہیومن رائٹس کمیشن، امریکی قیدی معظم بیگ اورایوان رڈلی درست طورپرتصدیق نہ کرتے توشاید ہمیں عافیہ صدیقی کی خبرتک نہ ہوتی اورمعاملہ موجودہ صورت اختیارنہ کرتا۔ اسی تشہیرکے نتیجے میں مظلوم اوربے بس عافیہ کوامریکامنتقل کیاگیاجس پرحددرجہ واہیات اورمضحکہ خیزالزامات کے تحت مقدمہ قائم کیاگیا۔
صرف اس تصورسے کلیجہ منہ کوآتاہے اورآنکھیں فرط غم سے خون کادریابن گئی ہیں کہ اپنے خلاف ہونے والی غلیظ سازش سے بے خبر، عفت مآب خاتون اپنے تین معصوم بچوں سمیت درندہ نماانسانوں کے حوا لے کردی گئی۔
کیااس وقت کی آمریت اورآنے والے جمہوری دورکے الاؤمیں پگھلے ہو ئے سیسے نے سب کی سماعتیں سلب کر لی تھیں؟ کسی کی بصارت میں اپنی بیٹی، ا پنی جوان بہن کاعکس نہیں ابھراکہ ان میں کوئی عا فیہ کی جگہ ہوتی توان کے جگرچھلنی نہ ہوتے؟ دل خون نہ ہوتا؟ کیاوہ اس کی جگرپاش چیخیں برداشت کرلیتے؟
عقوبت خا نے کی تاریک راتوں میں تنہائی کاعذاب اورنت نئی اذیتوں نے کیسے اس کی جسمانی توانائیاں کشیدکی ہوں گی؟ ان سات ہزارایّام کاحساب ہے کسی کے پاس؟ اورپھرجب اسے اپنے جگرگوشوں کے بغیراسلام آبادکی کربلاسے پابجولاں یزیدی دمشق جیسے بگرام ایئربیس پرزینب بنت علی کی سنت اداکرتے ہوئے منتقل کیاجارہاتھااوراس کی آہیں سسکیوں میں اورسسکیاں چیخوں میں تبدیل ہورہی تھیں توکسی کے ضمیرنے ملا مت نہیں کی؟ کسی کی آنکھ سے ندامت کا کوئی آنسو نہیں گرا؟
خوف اور دہشت سے ایک نازک سی عورت کے لرزتے ہوئے جسم کی حالت کسی دل میں کوئی گداز پیدا نہ کر سکی؟ کیا انسان ایسا سنگدل بھی ہوسکتاہے؟ رب العزت!گزشتہ سات ہزارایام سے وحشت ودرندگی کاشکارعافیہ کیلئے غیب کے بہترین اسباب پیدافرمااوراس کوبے رحم اغیارکے پنجہ استبداداورہمارے ملک کے بے عمل سیاست دانوں کی منافقت سے نجات دلا۔ بیشک میرارب علیم وخبیرہی دشمنوں کی ہرچال کوناکام بنانے پرقادرہے۔