صاحبان علم ودانش اورکالجوں کی تباہی
ملک بھر میں سرکاری کالجوں میں گریجویشن کی سطح کی تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے۔
سندھ، پنجاب اور خیبرپختون خوا میں ڈگری کی سطح کے کالجوں کی خاصی تعداد ہے۔ ان کالجوں میں سے بیشترکی عمارتیں نسبتاً بہتر حالت میں ہیں اور مجموعی طور پر لیکچرار سے لے کر پروفیسرکیڈر تک کے اساتذہ ان کالجوں میں تعینات ہیں مگر ہر سال ڈگری کی سطح پر طالب علموں کی تعداد کم ہورہی ہے۔ کراچی کے 7 اضلاع میں سرکاری کالجوں کی تعداد تقریباً 150ہے۔
ان میں ڈگری کالجوں کی تعداد 120ہے۔ کراچی کے سرکاری کالجوں میں اساتذہ کی تعداد 5100 ہے۔ ان اساتذہ میں گریڈ 17 کے لیکچرار، گریڈ 18کے اسسٹنٹ پروفیسر، گریڈ 19کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اورگریڈ 20 کے پروفیسر شامل ہیں مگرکراچی کے 120کالجوں میں بی اے سال اول و دوم میں کل طلبا وطالبات کی تعداد 13000ہے۔
اسی طرح بی ایس سی سال اول و دوم میں طلباء و طالبات کی تعداد 3500 ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے بی کام کے پروگرام میں سال اول و دوم میں طلبا وطالبات کی تعداد تقریباً 15000ہے۔ حکومت ہر سال کروڑوں روپے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کے لیے تنخواہوں کی مد میں مختص کرتی ہے۔ فرنیچر، سائنس کی تجربہ گاہوں کے لیے آلات اورکیمیکل کی خریداری پر ہونے والے اخراجات بھی کروڑوں میں بنتے ہیں۔ کراچی کے بعض کالجوں میں صبح کے علاوہ شام کی شفٹ میں کلاسیں منعقد ہوتی ہیں۔ کالجوں میں شام کی شفٹ کے لیے اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کا علیحدہ تقررہوتا ہے۔
شام کی شفٹ والے کالج ایک علیحدہ خودمختار کالج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کراچی کے سرکاری کالجوں میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر طلبہ کی خاصی تعداد داخلہ لیتی ہے۔ دستیاب اعداد وشمار کے مطابق انٹرمیڈیٹ سال اول و دوم میں طلبہ کی تعداد 195000ہے۔ انٹرمیڈیٹ میں پری انجنیئرنگ، پری میڈیکل، انٹرآرٹس، انٹرکامرس اور کمپیوٹر سائنس کے پروگرام رائج ہیں مگرگزشتہ 30 سال کے مشاہدہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاص طور پر طلباء کے کالجوں میں اساتذہ کی اکثریت تدریس پر مکمل توجہ نہیں دیتی۔ سائنس اورکامرس کے اساتذہ سیشن کے آغاز پر طلباء کو کوچنگ سینٹروں میں داخلہ لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔
یہ اساتذہ اپنے پسندیدہ کوچنگ سینٹروں میں رات دن محنت سے تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کوچنگ سینٹروں میں سائنس کے مضامین کے پریکٹیکل کی بھی سہولت ہوتی ہے۔ بعض طالب علم یہ شکایت کرتے ہیں کہ جو طلباء اساتذہ کے پسندیدہ کوچنگ سینٹروں میں داخلہ لیتے ہیں اساتذہ ان کے پریکٹیکل جنرلز پر فوری طور پر دستخط کردیتے ہیں اور جو طالب علم کوچنگ سینٹر نہیں جاتے ان کے لیے اپنے کالج میں پریکٹیکل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ بعض طلباء اسی بناء پر پریکٹیکل میں کم نمبروں کی شکایت کرتے ہیں، یوں انٹرمیڈیٹ کے پروگراموں میں طلباء کی بھاری تعداد داخلہ لیتی ہے۔
60ء اور 70ء کی دہائی میں ڈگری کالجوں میں بی ایس سی کے پروگرام میں طلباء کے لیے بڑی کشش ہوتی تھی۔ طلباء بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرکے یونیورسٹی کے ایم ایس سی پروگرام میں داخلہ لیتے تھے۔ پھر بی ایس سی کے بعد بی ایڈ کی ڈگری حاصل کر کے کالجوں میں سائنس کے ٹیچرز کی ملازمت مل جاتی تھی اور بہت سے طلباء سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ملازمتیں حاصل کرلیتے تھے۔
ایک زمانہ میں کراچی یونیورسٹی کے کالجوں میں بی کام کے پروگرام کی خاصی شہرت تھی۔ طالب علم بی کام کرکے بینک اور دیگر مالیاتی اداروں میں ملازمت حاصل کرتے تھے، کچھ طالب علم ایم کام کرتے تھے۔
بی کام کا معیار خاصا بلند تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کالجوں سے بی کام کرنے والے طلبہ کی کہیں نہ کہیں کھپت ہوجاتی تھی۔ اس زمانہ میں کالجوں میں بی اے کے پروگراموں میں خاصی رونق ہوتی تھی۔ بی اے میں اردو، انگریزی، ادب، سیاسیات، معاشیات، سوشیالوجی، فلاسفی، نفسیات، تاریخ، اسلامیات اور سوشل ورک کے مضامین طلبہ کے لیے باعث کشش ہوتے تھے۔ اس زمانہ میں اساتذہ پوری تیاری کے ساتھ اپنے مضمون کی تدریس کرتے تھے، یوں طلبہ نہ صرف ان مضامین کے ابواب سے مستفید ہوتے ان کی تحریری صلاحیتیں ابھرتیں اور دانش ورانہ مشق کا معیار بلند ہوتا تھا۔ بی اے کی ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کرتے تھے۔ ایل ایل بی اور بی ایڈ کی پیشہ ورانہ ڈگریاں بھی حاصل کرتے تھے۔
کئی طلبہ مقابلہ کے امتحان (C.S.S) میں بیٹھتے اورکامیاب ہوجاتے تھے۔ تعلیمی دنیا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ پہلے سرکاری اور نجی شعبہ میں میڈیکل اور انجنیئرنگ یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، پر جنرل مضامین کی یونیورسٹیاں بھی منظرعام پر آگئیں۔ میڈیکل یونیورسٹیوں نے ایم بی بی ایس کے علاوہ بی ایس کے نئے پروگرام رائج کیے۔ کچھ یونیورسٹیوں نے میڈیکل اور انجنیئرنگ کے شعبوں کے علاوہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے بی ایس کے پروگرام شروع کیے تو اس طرح انجنیئرنگ یونیورسٹیوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کمیونیکیشن، انجنیئرنگ یا میڈیکل ٹیکنالوجی وغیرہ کے پروگرام شروع کیے۔
یونیورسٹیوں نے پہلے بی بی اے اور ایم بی اے کے پروگرام شروع کیے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بی ایس کا پروگرام رائج کیا تو ان مضامین میں بی ایس کی ڈگری ملنے لگی۔ چند سرکاری کالجوں نے تین سالہ بی ایس کمپیوٹر سائنس کا پروگرام شروع کیا۔
کراچی یونیورسٹی سے گزشتہ سال تک 50 کے قریب نجی کالجوں نے الحاق کیا تھا۔ ان کالجوں میں بی ایس پروگرام رائج ہوا۔ اس پروگرام میں بزنس ایڈمنسٹریشن اورکمپیوٹر سائنس جیسے نئے مضامین شامل ہیں۔ حکومت سندھ ان کالجوں کو انتظامی طور پرکنٹرول کرتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کالجوں کے تعلیم اور تدریس سے متعلق معاملات کی نگرانی کرتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے مختلف اداروں، کالجوں کے اساتذہ اور پرنسپل صاحبان کی نمائندگی ہوتی ہے۔ سینئر استاد پروفیسر ناصر عباس کاکہنا ہے کہ ڈگری کالجوں میں اب بھی سالانہ امتحان کا طریقہ کار ہے۔ کراچی یونیورسٹی اورکالجوں کے خاصے استاد ان امتحانی کاموں میں شریک ہوتے ہیں اور انھیں معقول معاوضہ ملتا ہے، اگرکالجوں میں سمسٹر سسٹم نافذ کردیا جائے تو یونیورسٹی اور کالجوں کے اساتذہ کی یہ آمدنی ختم ہوجائے گی۔
اردو یونیورسٹی کے استاد پروفیسر نجم العارفین اپنے تجربہ سے بتاتے ہیں کہ جب بی کام کے امتحان سالانہ بنیاد پر ہوتے تھے تو طلبہ کی اکثریت کوچنگ سینٹروں کا رخ کرتی تھی مگر اردو یونیورسٹی میں کامرس بی ایس کا پروگرام نافذ ہونے کے بعد کلاسوں میں حاضری بڑھ گئی اور طلبہ نے کوچنگ سینٹر جانا چھوڑ دیا۔ خیبر پختون خوا کی حکومت نے تو فیصلہ کیا کہ جن کالجوں میں طلبہ کی تعداد کم ہوگئی ہے اسے Off sourceکردیا جائے۔
خیبر پختون خوا میں 13 کالجوں میں 100 سے کم طالب علم ہیں۔ حکومت کے ایک طالب علم پر سالانہ 6 لاکھ 24 ہزار 592 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اخبارات میں شائع خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کی حکومت کالجوں کے اہلکاروں کو بدعنوانی کی کھلی چھوٹ دیتی ہے اورکالجوں کے مالیاتی امورکے بارے میں اسکینڈلز ذرائع ابلاغ کی زینت بنی تھیں۔