آن لائن کلاسیں اور تعلیم کا بجٹ
کورونا وائرس نے زندگی کے ہر شعبہ کو تہس نہس کردیا، تعلیم کا شعبہ بھی متاثر ہوا۔ سندھ میں مارچ کے مہینے میں ہی تعلیمی ادارے بند ہوگئے۔ باقی صوبوں میں، اپریل میں بند ہوئے۔ وفاقی حکومت کے اعلان کے مطابق اب تعلیمی ادارے 14 جولائی تک بند رہیں گے۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سربراہی ڈاکٹر طارق بنوری کے پاس ہے۔ وہ بیوروکریٹ ہیں مگر انھوں نے دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے، ہائر ایجوکیشن کمیشن میں Online Communication کا نظام خاصا مؤثر ہے مگر اہم دستاویزات کاغذ پر تیار کی جاتی ہیں۔ ایچ ای سی کے سربراہ نے یونیورسٹیوں کو ہدایت جاری کی کہ Online کلاسوں کا آغاز کیا جائے۔
ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کے انفرااسٹرکچر کو مدنظر رکھے بغیر انتہائی اہم فیصلہ کیا۔ یوں سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو اپنی کارکردگی کے اظہار کا موقع مل گیا۔ نجی یونیورسٹیوں میں متوسط طبقہ کے طالب علم تعلیم حاصل کرتے ہیں، یہ خیال تھا کہ Online کلاسوں کا آئیڈیا وہاں مقبول ہوگا۔ نجی یونیورسٹیوں نے اساتذہ کو ہدایات جاری کیں کہ وہ Onlineلیکچر شروع کریں۔ ان یونیورسٹیوں میں بہت سے اساتذہ تدریس کے اس طریقہ کار سے ہم آہنگی نہیں رکھتے، یوں انھیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
نجی یونیورسٹیوں میں اب نچلے متوسط طبقہ کے طالب علم بھی داخلہ لیتے ہیں، ان کے چھوٹے چھوٹے گھر ہیں اور بعض خاندانوں میں ایک لیپ ٹاپ ہے اور تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے، یوں بچوں میں کلاس لینے پر جھگڑے شروع ہوگئے۔ نجی یونیورسٹیوں نے Onlineکلاس کے اجراء کے ساتھ فیس لینا شروع کردی۔
حکومت کا تعلیمی اداروں سے فیسوں میں 20%کمی کا فیصلہ محض اخبارات کی سرخیوں اور ٹی وی چینلز کے ٹیکرز تک محدود رہا۔ نجی یونیورسٹیوں اور پوسٹ گریجویشن انسٹی ٹیوٹ میں سوشل سائنسز اور انجنیئرنگ کی تدریس کے ساتھ میڈیکل کی فیکلٹی سے ملحقہ مضامین کی تدریس بھی اسی طرح ہونے لگی۔ بہت سی نجی یونیورسٹیوں نے کورونا بحران کی آڑ لے کر غیر تدریسی عملہ کو فارغ کرنا شروع کیا۔
ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں میں سے 70 فیصد ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ملک کی بڑی یونیورسٹیاں جو صوبہ سندھ میں واقع ہیں وہ تو کم فنڈنگ کی وجہ سے بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ ہر استاد کے پاس نہ اپنا کمرہ ہے نہ انھیں لیپ ٹاپ فراہم کیا گیا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں کچھ مخصوص تدریسی شعبہ جات ہیں جہاں اسمارٹ کلاس روم ہیں، بیشتر شعبوں میں ملٹی میڈیا بھی موجود نہیں ہے۔ طلبہ کی اکثریت نچلے متوسط طبقہ سے ہے۔ ان کے پاس اسمارٹ ٹیلی فون تو ہیں مگر سب کے پاس لیپ ٹاپ نہیں ہے جب کہ ایک اور اہم مسئلہ انٹرنیٹ کی سہولت کی فراہمی کا ہے۔
ہزاروں خاندان اب بھی انٹرنیٹ کی سہولت حاصل نہیں کرسکے۔ گرمیوں میں بجلی کی عدم فراہمی بھی اہم عنصر ہے۔ بجلی نہ ہونے سے نہ تو انٹرنیٹ کی سہولت جاری رہتی ہے نہ لیپ ٹاپ چارج ہوسکتا ہے۔ سول اسپتال سے ریٹائر ہونے والے ایک سینئر ڈاکٹر جو ڈائیلاسز پر ہیں، خاصے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی ایک نجی میڈیکل کالج میں فزیکل ایجوکیشن کی طالبہ ہے۔ وہ مڈٹرم کا پرچہ دے رہی تھی کہ اچانک سرور بند ہوا اور وہ اپنا پرچہ مکمل نہ کرپائی۔ اب بچی ڈپریشن کا شکار ہے۔
وفاقی اردو یونیورسٹی کے استاد عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ اچانک آن لائن کلاسز کے آغاز سے جہاں ایک طرف تکنیکی مہارتوں کی کمیابی کا سامنا ہو گا تو دوسری جانب وسائل کی کمی اور تشقیق کے سماجی رویوں کی موجودگی میں بہ حیثیت مجموعی خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے۔ حکومت کو اس سلسلہ میں مربوط تعلیمی نظام کی تیاری اور پھر اس پر مرحلہ وار عمل درآمد کے لیے کثیر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر آن لائن کلاسز سماج میں غیر متوازی تعلیم کے مواقعے میں اضافے کا سبب بنیں گی۔
آئی ٹی کے استاد خرم مشتاق اس بارے میں کہتے ہیں کہ آن لائن پڑھانے کے لیے صرف انٹرنیٹ کی سروس ہونا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ایک اہم سوال اس انٹرنیٹ کی سروس کے معیار کا بھی ہے، اگر کسی ایک طالب علم کی انٹرنیٹ کی روانی میں خلل آجائے تو لیکچر کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے جب کہ استاد کی طرف یہ مسئلہ درپیش ہونے سے تمام طالب علم اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں انٹرنیٹ کے معیار کی وجہ سے اس کی روانی میں خلل آنے جیسے مسائل عام سی بات ہے، جدید تدریسی ماحول میں لیکچر سمجھانے کے لیے متعلقہ گراف، چارٹ یا کوئی تصویر وغیرہ دکھانا بھی اہم ہوتا ہے جس کے بغیر کبھی کبھار سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں آن لائن تدریس کے دوران آپشنز محدود ہوجاتے ہیں۔ بعض اساتذہ کہتے ہیں کہ آن لائن تدریس میں ایک اور مسئلہ طالب علم کا سوال پوچھنے کا ہے۔
آن لائن تدریس کے دوران چونکہ طالب علم اس ماحول سے نابلد ہوتے ہیں لہٰذا دوران لیکچر اگر انھیں کوئی نکتہ سمجھ نہ آئے تو وہ جھجھک کی وجہ سے سوال نہیں پوچھ پاتے۔ روایتی طریقہ تدریس میں طلبہ کی تربیت کے لیے مختلف ٹیسٹ، ریڈنگ اسائنمنٹ اور کوئز وغیرہ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ آن لائن تدریس کے دوران یہ عمل بھی خاصا پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ آن لائن تدریس میں براہ راست استاد کے سامنے نہ ہونے کی وجہ سے آئی ٹو آئی کانٹیکیٹ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے کبھی کبھار طلبہ کی لیکچر میں توجہ کا معیار بہت کم ہوجاتا ہے اور وہ پوری طرح گفتگو میں شامل نہیں ہوتے۔ استاد کے پاس آن لائن تدریس میں طلبہ کو اپنی یا لیکچر کی طرف متوجہ کرنے کے لیے محدود آپشنز ہوتے ہیں۔
ایک طالبہ نے بتایا کہ گھر میں اتنے زیادہ افراد ہیں کہ کلاس کے وقت مسلسل مداخلت ہوتی ہے۔ بعض اساتذہ کا کہنا ہے کہ Onlineکلاس کے دوران نامعلوم افراد کی آوازیں تدریسی ماحول کو متاثر کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 100 طلبہ کی کلاس میں سے کوئی طالب علم بے ہودہ جملہ کستا ہے یا بے معنی بات کرتا ہے تو پورا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔ کئی اساتذہ کا کہنا ہے کہ تھیوری کی کلاس تو Onlineممکن ہیں مگر یہ کلاسیں لیب کا متبادل نہیں ہیں، یوں سائنس کے طلبہ کو لیب سے استفادہ ہونے کے لیے انتظام کرنا پڑے گا۔ Onlineکلاسوں کے تناظر میں کچھ سماجی رویوں کا بھی اظہار ہوا ہے۔
بہت سی طالبات کا کہنا ہے کہ گھروں میں خواتین کے لیے تعلیم کا ماحول بنانا خاصا مشکل کام ہے۔ خود والدین لڑکیوں کو کسی نہ کسی کام کا کہتے رہتے ہیں اور یہ صورتحال اس وقت اور زیادہ بری ہوجاتی ہے جب کلاس کے دوران والدین اپنی بچی سے چائے پلانے کا کہتے ہیں۔ بعض نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ان کے والدین Onlineکلاس کو اہمیت نہیں دے رہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے لیپ ٹاپ کے ذریعہ چیٹنگ کررہے ہیں یا سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے مواد سے لطف انداوز ہورہے ہیں۔ یوں کلاس کے دوران مداخلت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ والدین کے اس رویہ کی بناء پر طلبہ میں بددلی پھیلتی ہے۔
ایک اور استاد نے لکھا کہ پوری دنیا میں ورچوئل یونیورسٹی کی فیس کا اسٹرکچر روایتی یونیورسٹی سے بہت زیادہ کم ہوتا ہے، اس کے بنیادی اسباب ہیں مگر ایچ ای سی نے یونیورسٹیوں کو یہ ہدایات نہیں دیں کہ Online کلاسوں کی فیس کم کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ سے پوری فیس وصول کی جارہی ہے۔ Onlineکلاسیں تدریس کے تسلسل کا حصہ ہیں مگر جب تک یونیورسٹیوں کا انفرااسٹرکچر ترقی نہ پائے اور اساتذہ اور طلبہ جدید ٹیکنالوجی کی تربیت حاصل نہ کریں سماجی ماحول اس معاملہ میں بہتر نہ ہو یہ تجربہ ناکام ثابت ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت کو کورونا سے پیدا ہونے والے ماحول میں ہر صورت میں تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔