میرا چہرہ سورج کی طرف ہو
کارل مارکس نے سوشل ازم کا نظریہ انیسویں صدی میں پیش کیا مگر پوری دنیا میں بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے نوجوان اس نظریہ سے زیادہ متاثر ہوئے۔ ان نوجوانوں میں ایک احفاظ الرحمن بھی تھے۔ احفاظ باغی تھے اور ساری زندگی باغی ہی رہے۔ وہ 4اپریل 1942 کو متحدہ ہندوستان کے شہر جبل پور میں پیدا ہوئے۔
والدین ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ انھیں بچپن سے مطالعہ کی عادت تھی۔ انھوں نے ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض اور مجاز کا کلام جوش و خروش سے پڑھا۔ اردو کالج کے زمانے سے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ ہوئے۔ انھوں نے صرف این ایس ایف کی عملی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا بلکہ نثر اور نظم کے میڈیم کے ذریعے ترقی پسند خیالات کو عام کرنے کی کوشش کی، کچھ عرصہ مدرس کی حیثیت سے فرائض انجام دیے اور صحافت سے وابستہ ہوگئے۔ اسی زمانہ میں کمیونسٹ پارٹی (پرو چائنا) کے ہمدردوں کے حلقہ میں شامل ہوگئے۔
ایک ہفت روزہ کے ابتدائی دور کے صحافیوں میں شامل تھے اور ابتدائی دنوں سے ہی کراچی یونین آف جرنلسٹس کے فعال رکن تھے۔ سینئر صحافی کہتے ہیں کہ اگر احفاظ الرحمن کراچی یونین آف جرنلسٹس سے لاتعلقی اختیار کرتے اور تین صحافیوں کی برطرفیوں پر احتجاج نہ کرتے تو وہ اس ہفت روزہ کے سب سے نوجوان ایڈیٹر بن جاتے۔ یہ شاید 67ء کی بات ہوگی، ہفت روزہ کے مالکان، ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے خواہاں تھے مگر ان کے نظریات انھیں گوارہ نہیں تھے اور احفاظ اپنے نظریات پر نظر ثانی کرنے یا ان کو بدلنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔
احفاظ الرحمن چین چلے گئے۔ 70ء کی دہائی میں نوجوانوں نے ہفت روزہ الفتح میں چین کے عظیم قائد ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ کے بارے میں مضامین پڑھے، یوں ماؤ کے علاوہ چواین لائی اور لیو شاؤ جی سے واقفیت ہوئی۔ جب کراچی سے روزنامہ مساوات شائع ہوا تو احفاظ روزنامہ مساوات کی ٹیم میں شامل تھے۔ اب انھوں نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کو منظم کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنا شروع کیا۔
پی ایف یو جے کے صدر منہاج برنا کی قیادت میں اخبارات پر پابندیوں کے خلاف جدوجہد میں حصہ لیا۔ حکومت نے ایک روزنامہ، ایک ہفت روزہ اور ایک ماہنامہ کے خلاف کارروائی کی تھی اور اخبارات کے ایڈیٹروں کو پابند سلاسل کیا تھا۔ یہ اخبارات پی ایف یو جے کے خلاف منفی مواد شائع کرتے تھے مگر احفاظ الرحمن اور ان کے ساتھیوں نے اخبارات پر پابندیوں اور صحافیوں کی گرفتاریوں کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ جولائی 1972 میں روزنامہ سن کو بند کیا گیا تو پی ایف یو جے نے 24جولائی کو اخبار کی بحالی کے لیے ملک گیر ہڑتال کی۔ 1973 میں روزنامہ جسارت، حریت اور مہران پر پیپلزپارٹی کی حکومت نے پابندی لگائی تو پی ایف یو جے نے 19 ستمبر کو دوبارہ ملک گیر ہڑتال کی۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان اخبار روزنامہ مساوات سے 18 صحافیوں کو برطرف کیا گیا۔
منہاج برنا کی قیادت میں صحافیوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گرفتاری دینے کی تحریک شروع کی۔ یہ تحریک 21 مئی 1974سے 8 جولائی 1974ء تک جاری رہی۔ آخرکار حکومت کو مجبور ہونا پڑا اور صحافیوں کو ملازمتوں پر بحال کیا گیا۔ اس تحریک کے دوران برنا صاحب، احفاظ الرحمن اور کئی سینئر صحافیوں کو تھانوں اور پنجاب کی مختلف جیلوں میں دن رات گزارنے پڑے۔
منہاج برنا نے صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی مشترکہ تنظیم بنانے کا خیال پیش کیا تو احفاظ الرحمن سب سے پہلے اس خیال کی حمایت کرنے والوں میں شامل تھے۔ برنا صاحب کا کہنا تھا کہ اخباری اداروں کی یونینوں کی ایک کنفیڈریشن ہونی چاہیے، یوں پی ایف یو جے ہمراہ آزادئ صحافت، صحافیوں اور غیر صحافتی عملے کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے جدوجہد کرے۔ پی ایف یو جے اور ایپنک نے جنرل ضیاء الحق کے آزادئ صحافت کو کچلنے کی پالیسی کے خلاف تاریخی جدوجہد کی۔
1978 میں روزنامہ مساوات لاہور اور روزنامہ مساوات کراچی، روزنامہ ہلال پاکستان پر پابندیوں کے خلاف پی ایف یو جے اور ایپنک نے تاریخی جدوجہد کی۔ یہ جدوجہد 6 ماہ کے عرصہ پر محیط تھی اور کئی سو صحافی ان تحریکوں میں جیلوں میں گئے اور صحافیوں کو کوڑے مارے گئے۔ یہ تحریک روزنامہ مساوات کراچی اور لاہور ایڈیشن پر پابندی کے خلاف چلائی گئی۔ صحافیوں کی اس طرح کی تحریک کی آزادئ صحافت کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس تحریک کے قائد منہاج برنا اور نثار عثمانی تھے مگر ان تحریکوں کو منظم کرنے میں احفاظ الرحمن نے سب سے اہم کردار ادا کیا۔ وہ روزنامہ مساوات لاہور کی تحریک کے پہلے دستے میں لاہور سے گرفتار ہوئے اور شہر بدر ہوئے مگر کراچی سے اس تحریک میں گرفتاریوں کے لیے صحافیوں کو روانہ کرتے رہے۔
پی ایف یو جے کے سابق رہنما اور سینئر صحافی غلام نبی مغل کا کہنا ہے کہ جب لاہور میں صحافیوں کو کوڑے مارنے کی خبر آئی تو وہ روزنامہ مساوات کراچی کے دفتر میں احفاظ کے ساتھ تھے۔ احفاظ اس خبر کو سن کر تڑپ رہے تھے اور بار بار کہتے تھے کہ انھیں بھی ان صحافیوں کے ساتھ کوڑے لگانے چاہیے تھے۔
کراچی میں روزنامہ مساوات کراچی کی بحالی کے لیے تحریک شروع ہوئی تو وہ اس تحریک کو منظم کرنے والی کمیٹی کے آرگنائزر تھے۔ پولیس احفاظ کو گرفتار کرنا چاہتی تھی مگر وہ زیرِ زمین چلے گئے۔ وہ صحافیوں، مزدوروں، ہاریوں اور طلبہ کے گروپوں کو منظم کرتے تھے۔ پولیس کے چھاپوں سے بچنے کی تدبیریں کرتے۔ پولیس ان کے گھر پر چھاپے مارتی رہی جس کی وجہ سے اہلیہ مہناز اور بچوں کو ہمیشہ مشکلات درپیش رہیں۔ مالک مکان، مکان خالی کرنے کا مطالبہ کرتا۔ انھیں اپنے دوستوں کے ذریعے اطلاعات ملیں مگر ان کا عزم ہمیشہ مستحکم رہا، یوں جنرل ضیاء الحق کو پی ایف یو جے سے سمجھوتہ کرنا پڑا۔
احفاظ الرحمن کئی برسوں کے لیے چین چلے گئے اور واپس آکر ایک روزنامہ کے میگزین ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے دوستوں نے انھیں پی ایف یو جے کا صدر منتخب کیا تو ویج بورڈ کے نفاذ کی تحریک زور پکڑگئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں اس روزنامہ کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہوئیں تو احفاظ دوبارہ حکومت کے خلاف جدوجہد کو منظم کرنے لگے۔ پی ایف یو جے اور ایپنک کی کوششوں سے حکومت کارروائی ختم کرنے پر مجبور ہوئی۔
جب وہ پی ایف یو جے کے صدر تھے تو الیکٹرونک میڈیا کا نیا دور شروع ہوا۔ احفاظ کچھ عرصہ بعد اپنی ملازمت سے رخصت کردیے گئے۔ انھوں نے ایک دفعہ کینسر کو شکست دی اور اپنی کتاب "سب سے بڑی جنگ "تخلیق کی۔ احفاظ ٹریڈ یونین کے ان کارکنوں میں تھے، جن کے پروفیشنل ازم کی مثال دی جاتی ہے۔
انھوں نے اپنی صحافتی زندگی کے ساتھ کئی کتابیں تصنیف کیں۔ ان کی زندگی کو سنوارنے میں ان کی اہلیہ مہناز کا بنیادی کردار تھا۔ مہناز نے ان کی روپوشی کے دوران پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کی تفتیش اور مالک مکان کی جھڑکیوں کو برداشت کیا۔ بے روزگاری کے طویل دور میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ مہناز اور ان کی بیٹی ڈاکٹر فی فے سروش نے ان کا علاج کرانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ احفاظ 12 اپریل کو سورج نکلنے سے چند گھنٹے پہلے یہ دنیا چھوڑ گئے۔ چینی شاعر بوزے مارتی کی نظم میری آرزو کا احفاظ الرحمن نے یوں ترجمہ کیا:
میں دنیا سے رخصت ہونا چاہتا ہوں
اس کے قدرتی راستے سے
وہ مجھے سفید پتیوں سے ڈھکی
میری قبر کی طرف لے جائیں گے
وہ مجھے کسی تاریک جگہ پر دفن نہ کریں
جیسے کسی غدار کے ساتھ کیا جاتا ہے
میں ایک صاحب کردار آدمی ہوں
اور ایک صاحب کردار آدمی کی حیثیت سے
یہ چاہتا ہوں کہ جب مروں تو
میرا چہرہ سورج کی طرف ہو
احفاظ الرحمن کی یہ آرزو پوری ہوئی۔