لیڈی ہیلتھ ورکرزکی جدوجہد
پاکستان میں زچہ وبچہ کی شرح اموات پڑوسی ممالک سے زیادہ ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ صحت کی سہولتوں کی کمی، نچلے طبقے کی کسمپرسی ہے۔ کمزورمائیں اورلاغر بچے بہت عرصہ اس دنیا سے لطف اندوز نہیں ہوپاتے۔
پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے 1994 میں Lady health workers program (LHP) کی بنیاد رکھی۔ خواتین کو فیملی پلاننگ کے بارے میں آگاہی، مہلک امراض مثلا ٹی بی کے مریضوں کو روزانہ ادویات دینا اور صحت عامہ کے متعلق مشورے ان لیڈی ہیلتھ ورکرز کے فرائض میں شامل ہیں۔ ان لیڈی ہیلتھ ورکرز میں سے بہت سی کارکنوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم میں شامل کیا گیا، یوں ان کارکنوں نے تندہی سے فرائض انجام دینے شروع کیے۔
پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کے خلاف رجعت پسندوں نے تشدد کا راستہ اختیارکیا، یوں کئی خواتین کارکن شہید ہوگئیں۔ یہ خواتین مختلف نوعیت کے مسائل کا شکار رہی ہیں اور ایک طویل جدوجہد کے بعد کچھ حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
لیڈی ہیلتھ ورکرزکی ملازمتوں کا ڈھانچہ طویل عرصے تک تیار نہیں ہوا۔ پہلے یہ کارکن وفاقی وزارت صحت کے تحت کام کرتے تھے، وفاقی حکومت نے ان کارکنوں کو مناسب تنخواہ دینے پر توجہ نہیں دی، 18ویں ترمیم کے بعد صحت کی وزارت صوبوں کو منتقل ہوئی تو لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ملنے والی تنخواہیں التواکا شکار ہوئیں اور چاروں صوبائی حکومتوں نے وفاق سے فنڈز نہ ملنے کا عذر پیش کیا مگر لیڈی ہیلتھ ورکرز میں کچھ باشعور خواتین بھی موجود تھیں یوں ان ورکرز کی آل سندھ لیڈیز ہیلتھ ورکرز ایمپلائز یونین قائم ہوئی۔
مزدوروں میں ان کے حقوق کا شعور اجاگر کرنے اور تنظیم سازی میں جدید اصولوں کو روشناس کرنے والے غیر سرکاری تنظیم (N.G.O)اور ورکرز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن کے روح رواں میرذوالفقار نے ایمپلائز یونین کی مدد کرنے کی ٹھانی۔ میرذوالفقار ہالینڈ سے اعلیٰ تعلیم کی سند حاصل کرنے کے بعد سے مزدوروں میں کام کرتے ہیں، یوں ان کی کوششوں سے لیڈیز ہیلتھ ورکرز کی بین الاقوامی تنظیم پبلک سروسز انٹرنیشنل سے رابطہ ہوا، ان کارکنوں کو دنیا کے دیگر ممالک میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے کارکنوں کے حالات کار سے آگاہی ہوئی۔
جنوبی ایشیاء کے مزدوروں میں کام کرنے والی تنظیم کی دستاویزکے مطالعہ سے علم ہوا کہ نیپال اور بھارت میں برسر اقتدار حکومتیں لیڈیز ہیلتھ ورکرزکو کارکن تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ ایک مربوط جدوجہد کی شکل واضح ہوئی اور ان ورکرز نے 2011 میں اس جدوجہد کا آغازکیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے چاروں صوبوں کے دارالحکومتوں میں دھرنے دیے مگر سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی حکومتوں نے ان کے مطالبات پر توجہ نہ دی مگر لیڈی ہیلتھ ورکرز نے جدوجہد جاری رکھی اور یونین کی اپیل پر پورے پاکستان سے کارکن اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا کے لیے جمع ہوئے۔
سپریم کورٹ نے ان کارکنوں کے مطالبات پر توجہ دی اور چاروں صوبائی حکومتوں کو ہدایات جاری کیں کہ لیڈی ہیلتھ ورکرزکے سروس اسٹرکچر کے قیام کے لیے اقدامات کیے جائیں، مگر حکومتوں نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا۔
اب جدوجہد کا ایک نیا مرحلہ آیا۔ پھر چاروں صوبوں نے لیڈی ہیلتھ ورکرزکو گریڈ 5 اور سینئر ورکرز کو گریڈ7دینے کے فیصلہ پر عملدرآمد کیا مگر سروس اسٹرکچر کے قیام اور 1994 سے ملازمت کرنے والی ورکرز کے واجبات ادا نہیں کیے۔ ماہ نومبر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز اسلام آباد میں جمع ہوئیں۔ یہ دھرنا بھی کئی ہفتے جاری رہا۔ وفاقی حکومت نے پہلے مذاکرات نہیں کیے۔
ان احتجاجی خواتین کے دھرنا کو Quarden offکیا، کھانا فراہم کرنے والے دکانداروں کو ہراساں کیا گیا۔ پانی اور بجلی کی سپلائی معطل ہوئی۔ اس دفعہ اسلام آباد میں نومبر میں سخت سردی پڑی۔ دھرنا کے دوران بارش بھی ہوئی مگر تمام کارکنوں نے استقامت کے ساتھ ان رکاوٹوں کا مقابلہ کیا۔
وفاقی حکومت نے مذاکرات کیے اور پنجاب کی وزارت صحت کو مسئلہ کے حل کی ہدایات جاری ہوئیں مگر اب بھی تمام صوبائی حکومتیں سروس اسٹرکچر کے قیام میں سنجیدہ نہیں۔ 15000 کارکنوں کا مستقبل مخدوش ہے۔ منیزہ انعام ایک متحرک صحافی ہیں۔ انھوں نے ان ورکرز کے مسائل پر ایک سائنسی تحقیق کی۔ یہ تحقیق دستاویزکی صورت میں Breaking the silence، sexual harassment of community، health workers in Pakistan کے عنوان سے شایع ہوئی۔ اس دستاویز کی تیاری میں ورکز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن اور جنوبی ایشیائی غیر سرکاری تنظیمPublic Services International نے معاونت کی۔
اس تحقیق کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز صرف برسر اقتدار حکومتوں کی بے حسی کا شکار نہیں ہیں بلکہ خاندان اورکمیونٹی بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک کرتی ہے۔ منیزہ انعام لکھتی ہیں کہ پاکستان میں سالانہ صحت کی سہولتوں کے لیے فی فرد 9.31 ڈالر کی رقم مختص کی جاتی ہے جب کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق یہ رقم فی فرد 60 ڈالر مختص ہونی چاہیے۔ حکومت کی مختص کردہ اس رقم سے آبادی کا صرف 21.92 فیصد حصہ مستفید ہوتا ہے۔ آبادی کی اکثریت غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور فی کس آمدنی 2ڈالر روزانہ ہے۔
اس بناء پر غریبوں کے لیے صحت پرکچھ خرچ کرنا ممکن نہیں ہے۔ صحت کے لیے مختص کردہ رقم کے شفاف طریقہ سے خرچ نہ ہونے معاملات علیحدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کے انتقال کے اعداد و شمار کے اعتبار سے دنیا بھر میں تیسرے نمبر پرہے اور ابھی تک پاکستان Millenium Development Goals (MDGS) حاصل نہیں کر پایا ہے۔
غربت کی بناء پر آبادی کی اکثریت کو کم خوراک میسر آتی ہے، یوں بیشتر لوگوں کا مدافعتی نظام کمزور ہے۔ 1994 میں عالمی ادارۂ صحت (W.H.O) اقوام متحدہ کے ادارہ UNICEF کے تعاون سے الماتا میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس کانفرنس کو منظم کرنے میں دنیا بھر کی غیر سرکاری تنظیموں نے بھی تعاون کیا اور الماتا ڈیکلریشن کا اجراء ہوا۔ اس اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ پروگرام ہر ملک کی اقتصادی صورتحال، سماجی و اقتصادی محرکات اور سماجی ڈھانچہ کی خصوصیات اور مقامی کمیونٹیزکی خصوصات کے تناظر میں شروع کیا جائے۔
اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ پرائمری ہیلتھ کیئرکا انحصار مقامی اور علاقائی سطح پر کیا جائے۔ اس پروگرام میں لیڈی ہیلتھ ورکرزکے ساتھ ڈاکٹروں، نرسوں، میڈ وائف اور کمیونٹی ورکرز کو شامل کیا جائے، یوں حکومت نے 1994 میں یہ پروگرام شروع کیا۔ انھوں نے اپنی تحقیق میں کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرزکے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (I.L.O) کی ہدایات پر عملدرآمد نہیں کیا۔ اس تحقیق کے مطابق ان لیڈی ورکرزکوکام کے دوران جنسی ہراسگی کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سی خواتین کہتی ہیں کہ تنخواہ والے دن شوہر ان سے چیک لے لیتے ہیں اور بینک سے چیک کیش کراکر ساری رقم خرچ کرتے ہیں۔
جنوبی ایشیا کے ہیلتھ ورکرز نے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کیا ہے جس میں حکومتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ کام کے دوران کارکنوں کی حفاظت اور فلاح و بہبود کو یقینی بنائیں اور پبلک ہیلتھ پالیسیوں کی تیاری میں فیصلہ سازی کے عمل میں کارکنوں کو شریک کیا جائے تاکہ اجتماعی نمایندگی کے لیے کارآمد پالیسیاں تیار ہوں۔
کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ شہید ہونے والے پولیو ورکرز کو قومی شہید قرار دیا جائے اور ان کے لواحقین کو بھی وہی معاوضہ دیا جائے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شہید ہونے والے جوانوں کے لواحقین کو دیا جاتا ہے۔ صحت ہر شہری کا بنیادی حق ہے مگر ریاست اس حق کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستانی ریاست سیکیورٹی اسٹیٹ ہے، جب تک سوشل ویلفیئر اسٹیٹ قائم نہیں ہوگی یہ کارکن قربانیاں دیتے رہیں گے۔