انسانی ترقی پر سرمایہ کاری
کوروناوائرس COVID-19 نے پاکستانی ریاست کی پسماندگی کو عیاں کردیا۔ پنجاب کے سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے اپنی ایک ساتھی نرس کی ڈیوٹی کے دوران ہلاکت پر احتجاجاً بھوک ہڑتال کر دی۔ نشتر میڈیکل یونیورسٹی ملتان کے 27 ڈاکٹر انفیکشن سے بچاؤ کے بنیادی آلات نہ ملنے کی بناء پرکورونا وائرس کا شکار ہوئے۔ ملتان میں متاثر ہونے والے افراد کی تعداد بھی گذشتہ ہفتے تک اتنی ہی تھی۔ بلوچستان میں ڈاکٹروں نے مخصوص لباس کے مطالبے کیے تھے، ریڈ زون پر دھرنا دیاگیا۔ کوئٹہ میں ڈاکٹروں پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور رات بھر لاک اپ میں رکھا گیا۔
سندھ میں اس وائرس کے نتیجہ میں ایک سینئر ڈاکٹر جاں بحق ہوئے۔ سرکاری اسپتالوں میں فرائض انجام دینے والے نوجوان ڈاکٹر دہرے دباؤ کا شکار ہیں۔ یہ دباؤ خواتین ڈاکٹروں پر زیادہ ہے۔ ایک طرف بغیر احتیاطی تدابیر کے کورونا سے متاثر مریضوں کے وارڈ میں ڈیوٹی پر تعینات کیا گیا ہے۔ خواتین ڈاکٹرو ں کے لواحقین انھیں اسپتال جانے کے معاملہ میں شش و پنچ کا شکار ہیں۔ سرکاری اسپتال بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ پورے ملک میں 70 برسوں سے اسپتالوں کی کمی ہے۔ اسپتالوں میں مریضوں کے لیے بیڈ کم ہیں۔ بیشتر سرکاری اسپتالوں کی لیب کا معیار بین الاقوامی معیار سے خاصا دور ہے۔ ان لیب میں ہمیشہ کیمیکل اور آلات کی کمی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے ٹیسٹ کا مرحلہ آیا تو پورے ملک کے بڑے اسپتالوں میں سے چند ہی لیب اس قابل تھیں کہ مریضوں کے خون کے نمونوں کا ٹیسٹ لے سکیں۔
ملک کے سب سے بڑے کراچی شہر میں صرف 3سرکاری اسپتال سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ(S.I.U.T)، ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی اسپتال اور جناح پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ (جناح اسپتال)میں یہ ٹیسٹ ہورہے تھے۔ عوام کی امداد سے چلنے والے انڈس اسپتال نے یہ سہولت فراہم کی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ملک کے مختلف شہروں میں ہنگامی بنیاد پر فیلڈ اسپتال اور لیب قائم کی ہیں جس سے کورونا کے مریضوں کے ٹیسٹ کرنے کی صلاحیت کچھ بڑھی ہے مگر ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں ٹیسٹ بہت کم ہوئے ہیں۔ ایک طرف ڈاکٹروں کے پاس سرجیکل ماسک نہیں ہیں تو دوسری طرف N-95ماسک اسٹیٹس سمبل بن گیا ہے۔
وزراء، سرکاری افسران اور امراء کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے یہ ماسک لگائے نظر آتے ہیں۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی جو بین الاقوامی شہرت یافتہ ڈینٹل سرجن ہیں بھی یہ ماسک لگائے نظر آئے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (P.M.A) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر سجاد قیصر نے جب ڈاکٹروں کے علاوہ N-95 ماسک لگانے پر اعتراض کیا تو صدر عارف علوی نے وضاحت کی کہ وہ اب طبعی شعبہ کے اخلاقی ضوابط کی پاسداری کرتے ہوئے یہ ماسک استعمال نہیں کریں گے۔ صدر صاحب نے اپنی قول کی پاسداری کی مگر باقی افراد نے اپنی غلطی کا مداوا نہیں کیا۔
یہ سب کچھ اس بناء پر ہے کہ ریاست نے کبھی عوام کے مفت علاج کے بنیادی حق کو تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان صحت پر جی ڈی پی کا 1.12 فیصد رقم خر چ کرتا ہے۔ یہ صورتحال کسی ایک حکومت کی نہیں گذشتہ 70 برسوں سے برسراقتدار رہنے والی تمام حکومتوں کے ادوار کی ہے۔ وزیر اعظم کے پسندیدہ آمر جنرل ایوب خان کے دور میں تو یہ رقم اور بھی کم تھی۔ W.H.O کا ماننا ہے کہ ہر حکومت کو کم از کم جی ڈی پی کا 4 فیصد صحت پر خرچ ہونا چاہیے۔
پاکستان کے ایک سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر محبو ب الحق کا شمار دنیا کے چند اہم ماہرین اقتصادیات میں ہوتا ہے۔ انھوں نے ہر ملک میں تعلیم، صحت اور شہریوں پر خرچ ہونے والی رقم کے معیار کو جانچنے کے لیے Human Development Index (H.D.I) کا فارمولہ تیار کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (U.N.D.P) نے اس فارمولہ کو اپنایا تھا۔ ایچ ڈی آئی نے دنیا کے 186 رینکنگ کی ہے۔ پاکستان کا اس رینکنگ میں 152واں نمبر ہے۔ پاکستان اس رینکنگ میں بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک سے 13 فیصد پیچھے ہے۔
ایک سابق بیوروکریٹ اور سندھ کے سابق چیف سیکریٹری تسنیم صدیقی جنہوں نے ساری انسانی زندگی کے معیار کو بلند کرنے پر صرف کی ہے نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ جب پاکستان وجود میں آیا تو پہلے بجٹ میں تعلیم اور صحت کے لیے انتہائی معمولی رقم مختص کی گئی جب کہ اس وقت پاکستان خواندگی اور صحت کی سہولتوں کے تناظر میں دنیا کے پسماندہ ترین ممالک میں سے ایک تھا۔ تسنیم صدیقی نے اپنے ایک اور آرٹیکل میں اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے تحریرکیا تھا کہ شاید اس وقت کے وزیر خزانہ چوہدری غلام محمد اور سینئر ترین بیوروکریٹ چوہدری محمد علی، تعلیم، صحت اور انسانی ترقی کی اہمیت کو محسوس نہیں کرسکے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے کچھ اقدامات کیے۔ حکومتوں نے اسپتالوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور مختلف جگہوں پر آئسولیشن وارڈ قائم کر نے کے لیے فنڈ مختص کیے۔
وزیر اعظم عمران خان نے احساس پروگرام شروع کیا۔ وزیر اعظم کی مشیر ڈاکٹر ثانیہ نشتر کا تخمینہ ہے کہ اس پروگرام کے تحت 3کروڑ لوگوں کو 6 ماہ کے لیے 12ہزار روپے ماہانہ فراہم کیے جائیں گے۔ سندھ کی حکومت نے بھی ڈپٹی کمشنروں کے ذریعہ لاکھوں افراد میں راشن تقسیم کیا۔ فلاحی تنظیموں ایدھی فاؤنڈیشن، الخدمت، کے کے ایف اور دیگر تنظیمیں بھی غریب اور نادار افراد میں راشن تقسیم کررہی ہیں مگر اقتصادیات اور ڈیویلپمینٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور فلاحی اداروں کی یہ کوشش قابل قدر ہے مگر یہ سب اقدامات وقتی نوعیت کے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہی وقت ہے کہ ریاست کی بنیادی ترجیحات میں تبدیلی کی جائے۔ وفاقی وزراء اور سندھ حکومت کے عہدیدار ایک دوسرے پر گولہ باری کرنے کے بجائے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کریں۔ پاکستان میں ایک بڑا بحران آبادی کے زبردست پھیلاؤ کا ہے۔ بنگلہ دیش نے آبادی میں اضافہ پر قابو پالیا۔ ماہرین کی پیش گوئی ہے کہ بنگلہ دیش اس صدی کی 50ویں دہائی تک دنیا کی طاقتور معیشتوں میں شامل ہوگا۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو اپنے رجعت پسند حامیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے آبادی پر قابو پانے کے لیے اسی طرح کی مہم چلانی چاہیے جس طرح کی مہم بنگلہ دیش میں وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت نے چلائی۔ حسینہ واجد نے اس مہم کو مؤثر بنانے کے لیے علماء سے مشاورت کی اور بنگلہ دیش کے علماء بچے کم پیدا کرنے کی مہم کا مؤثر حصہ بنے۔
تعلیم اورصحت کے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ ہونا چاہیے۔ عالمی ادارہ صحت تو جی ڈی پی کا 4 فیصد حصہ صحت پر خرچ کرنے پر زور دیتا ہے مگر کوروناوائرس کے تجربہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اب صحت کے بجٹ کا معاملہ جی ڈی پی کا 4 فیصد ہونے کے بجائے اس بجٹ دو ہندسوں تک ہونا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارہ UNDP میں کام کرنے والے دو پاکستان ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ کوروناوائرس پاکستان کی معیشت کو تہس نہس کردے گا۔ انھیں اندیشہ ہے کہ پاکستان میں 3 کروڑ لوگ اس وائرس سے متاثر ہونگے۔
تعلیم، صحت اور انسانی وسائل کی ترقی کے لیے پاکستانی ریاست کو نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کی طرف سفر کرنا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپیل کی ہے کہ دنیا کے ممالک جنگ کو ختم کریں اور تنازعات کو منجمد کردیں اور انسانی ترقی پر سرمایہ کاری کریں۔ یہ مناسب وقت ہے کہ بھارت اور پاکستان اپنے تنازعات کو منجمد کریں۔ دونوں ممالک اپنی سرحدوں پر کشیدگی کو ختم کریں اور نئے بجٹ میں تعلیم، صحت اور روزگاری پر رقم خرچ کریں۔ وزیر اعظم عمران خان اگر اس معاملہ میں پہل کریں تو پوری دنیا میں وہ ایک مدبر رہنما کے طور پر ابھریں گے۔ کورونا وائرس نے پوری دنیا کو سبق سکھایا ہے کہ تمام ممالک مل کر ہی اس مرض پر قابو پاسکتے ہیں اور تمام ممالک کو اب Human Development پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔